وہ سامنے سٹیج پر دیکھیے‘ زرق برق چھت کے نیچے‘ غباروں اور رنگین جھنڈیوں کے درمیان ایک عورت رقص کر رہی ہے۔ لباس ایسا ہے کہ پہن کر بھی نیم برہنہ ہے۔ بالوں کی آرائش اس انداز میں کی گئی ہے کہ عمر کم لگے۔ اونچی ایڑی کے اوپر ٹانگیں ننگی ہیں اور فربہ ہیں۔ چہرے کو غور سے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ پینسٹھ برس سے کم کیا ہوگی۔ غازے کی دبیز تہہ جھریوں کو چھپانے میں بہت زیادہ کامیاب نہیں ہوئی۔ اس فحاش حرافہ کا وحشیانہ ڈانس دیکھنے کے لیے جو تماشائی دادِ عیش دے رہے ہیں وہ ایک خاص قماش کے لگ رہے ہیں۔ چُپڑے ہوئے سر‘ بڑی بڑی مونچھیں‘ انگلیوں میں انگوٹھیاں‘ کلف سے کھڑکھڑاتے خالص کاٹن کے لباس‘ ایک ہاتھ میں قیمتی موبائل‘ دوسرے میں دساور کے سگرٹ کی ڈبیا‘ کچھ کلین شیوڈ‘ بظاہر تعلیم یافتہ بھی ہیں۔
فحاش حرافہ کے جسم کی ہر تھرک پر سیٹیاں بج رہی ہیں۔ وہ جب کولہے مٹکا کر سرینوں کو جنبش دیتی ہے تو گلاسوں سے مشروب ہوا میں اچھالے جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے اوپر گرائے جاتے ہیں۔ حرافہ سٹیج سے اترتی ہے۔ رقص کناں‘ کرسیوں کے درمیان قطاروں میں آتی ہے۔ کوئی اُسے چھوتا ہے۔ کوئی ٹٹولتا ہے۔ کسی کے کاندھے پر وہ سر ٹیکتی ہے پھر اگلے ہی لمحے تھرکتے پیروں کے ساتھ آگے بڑھ جاتی ہے۔ داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جا رہے ہیں۔ کوئی نعرہ لگاتا ہے تو کوئی بڑھک مارتا ہے۔ موسیقی کی لے تیز ہونے لگی۔ وہ دیکھیے‘ ایک پگڑی والا‘ بڑی بڑی مونچوں کو تائو دیتا شخص سٹیج پر چڑھتا ہے۔ اس کے ہاتھوں میں نوٹوں کا پلندہ ہے۔ پانچ پانچ ہزار کے نوٹ حرافہ کے سر پر بارش کی طرح برسنے لگتے ہیں۔
رقص کرنے والی یہ اوباش بڑھیا‘ یہ بدقماش بدصورت حرافہ‘ اس ملک کی وہ اشرافیہ ہے جو پینسٹھ برسوں سے غنڈہ گردی کر رہی ہے۔ سامنے بیٹھے موج میلا کرنے والے وہ جاگیردار‘ سردار‘ گدی نشین‘ صنعت کار‘ سیاستدان ہیں اور وہ بے ضمیر بیوروکریٹ ہیں جو اس اشرافیہ کے رکن ہیں۔ یہ جشن چیف جسٹس افتخار چودھری کی ریٹائرمنٹ پر منایا جا رہا ہے۔
قائداعظم کو تو قسّامِ ازل نے مہلت ہی نہیں دی۔ اُس وقت سے لے کر آج تک چیف جسٹس افتخار چودھری وہ پہلا شخص ہے جس نے اس بدمست بے مہار اشرافیہ کو نکیل ڈالی۔ یوں تو یہ اشرافیہ پورے ملک میں دندنا رہی تھی لیکن پارلیمنٹ اس کی خاص جولا نگاہ تھی۔ یہ چند سو افراد پوری اشرافیہ کی نمائندگی کر رہے تھے۔ قانون ان کے پائوں کی جوتی اور آئین ان کے محل کا چوبدار تھا۔ انہیں ہر وہ آزادی حال تھی جس کا اس کرۂ ارض پر تصور کیا جا سکتا ہے۔ ٹیکس دینے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ کروڑوں اربوں کے قرضے لے کر معاف کرانا بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ اسلحہ ان کے لیے کھلونوں کا درجہ رکھتا تھا۔ درجنوں کیا بیسیوں کلاشنکوف بردار محافظ ان کے ساتھ پارلیمنٹ تک ہوتے تھے۔ جہاز ان کے لیے پروازیں مؤخر کر دیتے تھے۔ ٹریفک کے قوانین کا ان کے بچے اور ان کے نوکر بھی مذاق اڑاتے تھے۔ لیکن اس طبقے کی انتہا کی بے شرمی یہ تھی کہ یہ جعلی تعلیمی ڈگریوں پر منتخب ہوتے آ رہے تھے۔ کمرہ ہائے امتحان میں ان کی جگہ ان کے منشی بیٹھتے تھے۔ یونیورسٹیوں سے لے کر ہائر ایجوکیشن کمیشن اور وزارتِ تعلیم تک کوئی ان کے سامنے چُوں تک نہیں کر سکتا تھا۔ یہ نام نہاد منتخب نمائندے شرافت کے سینے پر بوجھ تھے۔ جمہوریت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ تھے۔ پڑھی لکھی مڈل کلاس انہیں دیکھ کر دہکتے انگاروں کی طرح سلگتی تھی لیکن کچھ کر نہیں پاتی تھی۔
چیف جسٹس افتخار چودھری اس ملک کی تاریخ میں وہ پہلا مردِ آہن ہے جس نے اس طبقے کو پکڑا اور کٹہرے میں کھڑا کیا۔ جعلی ڈگریوں والے ''خاندانی شرفا‘‘ کے جسموں سے باعزت لبادے اُترے اور پھر اُترتے ہی چلے گئے۔ بساط الٹ گئی۔ کچھ کو جیل کی ہوا کھانا پڑی۔ کچھ نااہل قرار دیے گئے‘ ایوانوں سے بے آبرو ہو کر نکلے‘ میڈیا میں ان معززین کی تصویریں شائع ہوئیں۔ ان میں نوابوں کے اونچے گھرانوں کی خواتین بھی تھیں اور عباپوش واعظین بھی تھے۔ چیف جسٹس نے ثابت کردیا کہ یہ کلاس ناقابلِ شکست نہیں۔ ان کا جادو ٹوٹ سکتا ہے۔
چیف جسٹس افتخار چودھری کو کچھ سال اور مل جاتے تو اس طاقت ور طبقے کا سحر مکمل طور پر ٹوٹ جاتا۔ ان سے ٹیکس بھی پورا پورا وصول ہونا شروع ہو جاتا‘ ان کے لیے جہاز بھی مؤخر نہ ہوتے‘ ان کے محافظوں کی فوجیں بھی ختم ہو جاتیں اور انتظامیہ میں ان کی مکروہ مداخلت کا سدباب بھی ہو جاتا۔
اشرافیہ جشن منا رہی ہے۔ حرافہ ناچ رہی ہے۔ وہ شخص جس نے اشرافیہ کو نکیل ڈالی‘ رخصت ہو رہا ہے۔ اس جشن میں نوکر شاہی کے وہ رکن بھی شامل ہیں جو ہمیشہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے ہیں۔ نوکری شاہی کے ایک معروف رکن نے‘ جسے ریٹائر ہوئے بھی عشرے ہو چکے تھے‘ جس طرح وفاقی محتسب کی کرسی پر شبخون مارا اور جو بے پناہ طاقت اُسے حاصل تھی‘ چیف جسٹس افتخار چودھری نے اُسے قانون کی عدالت میں لا کھڑا کیا۔ پانچ
سال میدانِ اقتدار میں کشتوں کے پشتے لگانے والے بہادر کو قانون کا سامنا کرنا پڑا تو واحد دلیل جو کیسہ سے نکلی علالت تھی! افتخار چودھری پہلا جج تھا جس نے ایک سابق آرمی چیف کو ملزم نہیں‘ مجرم قرار دیا اور اس کے خلاف کارروائی کا حکم جاری کیا۔ یہ جادو بھی ٹوٹ گیا اور اب ایک دوسرا سابق آرمی چیف قانون کے شکنجے میں پھنسنے کو ہے۔
تو کیا جشن برپا کرنے والے پلٹ آئیں گے؟ کیا قانون پھر وہ فرش بن جائے گا جس پر یہ معززین جوتوں سمیت چلتے تھے۔ کیا جعلی ڈگریوں والے ''عالم فاضل‘‘ پھر بھوکے ننگے عوام کی گردنوں پر سوار ہو جائیں گے؟ کیا اقتدار کے جوتے چاٹنے والے بیوروکریٹ گھومنے والی کرسیوں پر بیٹھ کر پھر گردنیں اکڑانے لگیں گے؟ کیا چراگاہوں کی چراگاہیں ملیا میٹ کردینے والے وزرائے اعظم کو کان سے پکڑ کر ایوانِ وزیراعظم سے کوئی نہیں نکال سکے گا؟ کیا ان بھیڑیوں کی اولاد سرکاری خزانوں کو پھر دونوں ہاتھوں سے لوٹنے لگے گی؟ کیا اربوں کھربوں روپے اپنے اپنے حلقۂ انتخاب میں پھر بانٹے جانے لگیں گے؟
ناگفتہ سوال سینوں میں مچل رہے ہیں۔ چیف جسٹس افتخار چودھری فرشتہ نہیں تھا کہ غلطیوں سے مبرّا ہوتا۔ لیکن ا س ملک میں پہلی بار قانون کی عمل داری اُس کے ہاتھوں قائم ہوئی۔ کیا یہ عمل داری جاری رہے گی؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر دل میں ہے۔ اس کا جواب وقت ہی دے سکتا ہے۔