لشکری آمریت کے طویل عرصے میں جسٹس افتخار چودھری وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے تن تنہا ایک آمر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ''نہیں‘‘ کہا اور پھر ڈٹ گئے۔ جس روز وہ آرمی ہائوس راولپنڈی میں عملی طور پر کئی گھنٹے محبوس رہے‘ ان کی پشت پر کوئی سیاسی جماعت تھی نہ کوئی اور قوت۔ انہیں نہیں معلوم تھا کہ جو چنگاری وہ جلا رہے ہیں‘ بجھ جائے گی یا اس سے ملک بھر میں آگ لگ جائے گی۔
اس ملک کی تاریخ میں روایت یہ تھی کہ ہر فوجی آمر کو آمنّا و صدّقنا کہا جاتا تھا۔ کیا سیاست دان‘ کیا جج‘ کیا بیوروکریٹ اور کیا سول سوسائٹی‘ کوئی امیر المؤمنین بننے کی تجویز دیتا رہا ہے اور کوئی عشرۂ ترقی منانے کے پروگرام بناتا رہا ہے۔ ضیاء الحق کا طویل دور تو سیاسی کراہت سے بھرپور تھا۔ پیپلز پارٹی سے لے کر مسلم لیگ تک‘ سب سجدہ کناں تھے۔ آج کے بڑے بڑے نام دریافت ہی ضیاء الحق نے اس پس منظر میں کیے تھے۔ دیکھا جائے تو خم ٹھونک کر کھڑا ہونے کی ریت افتخار چودھری ہی نے ڈالی ؎
ادب کا قافلہ تھا سست گام اے سیماب
رواجِ گرم روی میرے کارواں سے چلا
قائداعظم کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پہلے شخص تھے جو عوام کے ہیرو بنے۔ انہوں نے لوگوں سے پوچھا مرو گے؟ لوگوں نے جواب دیا مریں گے۔ کھمبوں کو کھڑا کیا تو وہ بھی جیت گئے۔ تاہم جلد ہی ارمانوں پر ا وس پڑ گئی۔ جو مخلصین نظریات کی بنیاد پر ساتھ آ ملے تھے‘ اُن سے چھٹکارا حاصل کیا گیا۔ بھٹو صاحب کے اندر کا فیوڈل پوری طرح باہر نکل آیا۔ منہ سے نکلا ہوا لفظ قانون تھا اور حکم عدولی ناقابلِ برداشت تھی۔ دلائی کیمپ وجود میں آ گیا۔ بدنامِ زمانہ فیڈرل سکیورٹی فورس (ایف ایس ایف) بنائی گئی۔ سیاسی حریفوں کو قتل کرنا شروع کردیا گیا۔ مارچ 1973ء میں لیاقت باغ میں منعقد ہونے والے متحدہ جمہوری محاذ (UDF) کے جلسۂ عام پر گولیوں کی بوچھاڑ ہوئی اور کئی افراد موت کے گھاٹ اتر گئے۔ سیاسی تقرریوں کے نام پر بیوروکریسی کے ڈھانچے کو توڑ مروڑ کر رکھ دیا گیا۔ سندھ میں ''ٹیلنٹڈ کزن‘‘ نے لسانی بنیادوں پر بھائی کو بھائی سے لڑا دیا۔ زرعی اصلاحات کا خواب خواب ہی رہا۔ عوام کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔
اس ملک نے ایک سائنسدان کو بھی ہیرو کا درجہ دیا لیکن بات بن نہ سکی۔ احساسِ تشکر کے بجائے ہیرو نے ہل من مزید کی پالیسی اختیار کر لی۔ کبھی وزیراعظم بننے کی تمنا کی اور کبھی صدر بننے کی۔ تشہیر کا شوق اور اثاثوں کے معاملات اس کے علاوہ تھے۔ سیاست میں داخل ہونے کی ناکام کوشش بھی ہوئی۔ ہیرو نے خود ہی پے در پے اپنے پیروں پر کلہاڑی کے وار کیے ؎
بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوئے
جتنے زیادہ ہو گئے اتنے ہی کم ہوئے
عمران خان میں ایک غیر متنازع اور عوامی سطح پر مقبول ہیرو بننے کی پوری پوری صلاحیت موجود تھی۔ شوکت خانم ہسپتال اور میانوالی کے پہاڑوں کے دامن میں بلند معیار یونیورسٹی قائم کر کے انہوں نے ایک ایسا آغاز کیا جو کسی شائبہ کے بغیر قابلِ رشک تھا۔ اس ملک کا اصل مسئلہ ہی صحت اور تعلیم ہے۔ آج عمران خان یکساں نظامِ تعلیم کی بات کرتے ہیں لیکن انہیں ادراک نہیں کہ یہ کام کوئی سیاست دان کر سکتا ہے نہ کوئی حکومت۔ یہ کام اگر کبھی ہوا تو کوئی غیر سیاسی ریفارمر کرے گا۔ اس کام کے لیے وائسرائے نہیں‘ سرسید احمد خان کی ضرورت ہے اور یہ بتدریج کرنے کا کام ہے۔ بیک جنبشِ لب یا بیک جنبشِ قلم نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے لوگوں کے اذہان بدلنے ہوں گے۔ اداروں کا جال بچھانا ہوگا۔ بے پناہ وسائل کی ضرورت ہوگی۔
پھر سیاست میں آ کر عمران خان نے اسلحہ رکھنے کی تھیلی چلے ہوئے کارتوسوں سے بھری۔ یہ بھی کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا کہ الناس علیٰ دین ملوکہم۔ پارٹی کا سربراہ سب کو اپنے پیچھے لگا سکتا ہے لیکن ایک صوبے میں حکومت بنانے کے لیے انہوں نے جن قوتوں کو ساتھ ملایا ہے وہ قوتیں گھٹن‘ تاریکی‘ عدم برداشت اور تنگ نظری کی بدترین مثال ہیں۔ یہ ایسی بے برکت قوتیں ہیں جن کا ماضی لشکری آمریت کے خاردار درختوں کی چھائوں میں گزرا۔ جس تعلیم یافتہ مڈل کلاس نے اور جن بڑی بڑی کوالی فی کیشن رکھنے والے نوجوانوں نے عمران خان کا ساتھ دیا ہے‘ ان کے مزاج کی ان تاریکی پسند قوتوں کے ساتھ دور کی مناسبت بھی نہیں۔ یہ ایسے دو دھارے ہیں جو متوازی تو چل سکتے ہیں‘ ایک دوسرے سے ہم آغوش کبھی نہیں ہو سکتے۔ انسان ورطۂ حیرت میں غرق ہو جاتا ہے جب دیکھتا ہے کہ ڈرون حملوں پر قیامت برپا کر دینے والے عمران خان‘ ان بے گناہ پولیس اہلکاروں کی موت کا ذکر تک نہیں کرتے جو پولیو ٹیموں کی حفاظت کرتے ہوئے مار دیے گئے۔ عمران خان ان غیر ملکی جنگ جوئوں کے وجود کو‘ یوں لگتا ہے تسلیم ہی نہیں کرتے جنہوں نے ملک کے ایک حصے پر اپنی مکمل عملداری قائم کی ہوئی ہے۔ کیا عجب یہ سب کچھ تاریکی پسند قوتوں کو ساتھ رکھنے کے لیے کیا جا رہا ہو! بہرطور‘ سیاست میں آ کر عمران خان نے ہیرو بننے کا چانس ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ضائع کردیا۔
ناخواندہ اکثریت کو افتخار چودھری کے کارناموں کا مکمل ادراک نہیں ہو سکتا سوائے اس کے کہ انہوں نے نصف درجن وردی پوش جرنیلوں کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا۔ یوں بھی یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر بحالی کے بعد جسٹس افتخار چودھری وہ سب کچھ نہ کرتے جو انہوں نے کیا تو صرف 9 مارچ 2007ء والی ''نہیں‘‘ بھی انہیں تاریخ میں زندہ رکھنے کے لیے کافی تھی۔ رہا بالائی طبقہ تو وہ جسٹس افتخار چودھری کے جوڈیشنل ایکٹوزم (عدالتی فعالیت) کا اصل ہدف تھا۔ وہ کس طرح ان کے کارناموں کا معترف ہو سکتا ہے! بلاول بھٹو جب حکمت کے موتی بکھیرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھتے ہیں کہ آج عدلیہ بحال اور غیر جانبدار ہو گئی تو اس میں اچنبھا نہیں ہونا چاہیے۔ پیپلز پارٹی کے لیے وہی عدلیہ غیرجانبدار ہوگی جو
یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف جیسے سچے موتیوں کو چمکنے دمکنے کا کھلا موقع فراہم کرے اور پچھتر پچھتر اسّی اسّی سال کے سلمان فاروقیوں کو اس وقت تک سرکار کی گردن پر سواری کرنے دے جب تک ان کی آنکھوں میں دم ہے‘ خواہ ہاتھ جنبش کریں یا نہ کر سکیں۔
جسٹس افتخار چودھری اس مڈل کلاس کے ہیرو ہیں جو اس ملک پر قانون کی حکومت کے لیے ترستی کڑھتی اور بلبلاتی رہی ہے۔ جسٹس افتخار چودھری اس تعلیم یافتہ طبقے کے ہیرو ہیں جو سفارش‘ اقرباپروری اور لاقانونیت سے تنگ آ کر یہ ملک چھوڑ جانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ آج اگر امریکہ‘ کینیڈا‘ یورپ‘ آسٹریلیا اور جاپان میں آباد پاکستانیوں سے نقل مکانی کا سبب پوچھا جائے تو مالی سبب کے بعد دوسرا بڑا سبب پاکستان میں رول آف لا کا نہ ہونا ہوگا۔
جسٹس افتخار ولی تھے نہ فرشتہ۔ یہ کہنا آسان ہے کہ انہوں نے فلاں فلاں کام نہیں کیے۔ ایک قنوطی کو خوش خبری دی گئی کہ اس کا خرگوش پانی پر چل رہا ہے تو اس نے آہ بھر کر کہا افسوس! تیر نہیں سکتا۔ فیصل آباد کے معروف ظریفانہ شاعر عبیرؔ ابوذری سے کسی نے شکوہ کیا کہ بابا جی! آپ نے چائے پر تو کوئی نظم ہی نہیں لکھی۔ بابا جی بولے۔ پتر! ہر شے پر نظم لکھنا ضروری تو نہیں۔
کل کا مورخ اُن معاملات کی فہرست نہیں بنائے گا جو جسٹس افتخار چودھری درست نہ کر سکے۔ وہ ان کارناموں کو گنوائے گا جو انہوں نے سرانجام دیے۔ رہے معترض تو ؎
شورش ترے خلاف زمانہ ہوا تو کیا
کچھ لوگ اس جہاں میں خدا کے خلاف ہیں