یہ ستر کی دہائی کا آغاز تھا۔ کراچی دنیا کے بہترین شہروں میں سرفہرست تھا۔ امن و امان اس قدر تھا کہ رات کے ایک بجے لوگ پیدل چل کر جیکب لائنز‘ بندوخان کی دکان پر کباب اور پراٹھے کھانے آتے تھے۔ صدر‘ ریگل سے لے کر ایک طرف ایمپریس مارکیٹ تک اور دوسری طرف فریئر ہال تک ایسا علاقہ تھا کہ دامنِ دل کھینچتا تھا۔ دنیا کی کون سی چیز تھی جو اس علاقے میں نہ تھی۔ مسجدیں بھی تھیں‘ چرچ بھی تھے۔ آتش پرستوں (پارسیوں) کا معبد بھی تھا۔ کسی کو کسی سے خطرہ تھا نہ دشمنی نہ غرض۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ؎
بہشت آنجاست کازاری نباشد
کسی را با کسی کاری نباشد
بہشت وہ ہوتا ہے جہاں کسی قسم کا آزار نہ ہو‘ اور کسی کو کسی سے غرض ہو نہ احتیاج۔ تو یہی صورت حال تھی۔ پارسی اور مسیحی خواتین سکرٹ پہنتی تھیں جو عام نظر آتا تھا۔ آج کل جس طرح یو اے ای اور ترکی میں مسجدیں اور کلب دونوں آباد ہیں‘ کراچی میں بھی تب ایسا ہی تھا۔ دنیا بھر کے سیاح آتے تھے۔ سمندر کے ساحلوں سے لے کر فائیو سٹار ہوٹلوں کے حوضوں تالابوں تک‘ تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی تھی۔
یورپ کے سفیر‘ ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی آباد ہونا پسند کرتے تھے۔ پوری دنیا میں اسلامی ملک ہونے کے حوالے سے پاکستان کی عزت تھی۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں چین‘ انڈونیشیا‘ ملائیشیا‘ سنگاپور‘ برما‘ نیپال‘ سری لنکا‘ عراق‘ اردن‘ سعودی عرب‘ مصر‘ یوگنڈا‘ کینیا‘ ملاوی اور کئی دوسرے ملکوں سے طلبہ تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ اسلامی مدارس یہاں چوٹی کے تھے۔ مارشل لاء ہمارے ماتھے پر داغ لگا چکا تھا اور مشرقی پاکستان الگ ہو گیا تھا لیکن اس کے باوجود دنیا میں ہمارے پاسپورٹ اور ہماری کرنسی‘ دونوں کی بے حرمتی نہیں شروع ہوئی تھی۔ شرحِ ترقی مناسب تھی۔ لاتعداد ملکوں میں ہمارے نیلے سرکاری پاسپورٹ ویزے کے بغیر قبول کیے جاتے تھے اور عام پاسپورٹوں پر بھی کئی ایئرپورٹ‘ مسافروں کو وہیں ویزے دے دیتے تھے۔
ہم پاکستانی اس وقت بھی دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک کے شہری تھے۔ لیکن ہم لوگ تب نارمل تھے۔ ہماری نفسیات مسخ نہیں ہوئی تھی۔ ہم میں انسانیت موجود تھی۔ شلوار قمیض اور شیروانی پہننے والا پتلون پوش کو بھینگی آنکھ سے دیکھتا تھا نہ تھری پیس سوٹ پہننے والا باریش آدمی سے متنفر تھا۔ اسلحہ خال خال نظر آتا تھا۔ کبھی ایسا نہیں ہوتا تھا کہ ہجوم کسی نیم پاگل کو مذہبی الزام میں پٹرول چھڑک کر جلا دے۔ یا دو نوجوانوں کو ڈاکو سمجھ کر نوچ کھائے اور ہڈیاں راستے میں پھینک دے۔ جو پاکستانی مسلمان نہیں تھے انہیں غیر مسلم کہا جاتا تھا اور جو مسلمان تھے انہیں کافر نہیں قرار دیا جاتا تھا۔ عقیدوں کی ''حفاظت‘‘ کے لیے مسلح تنظیموں کا کوئی وجود نہ تھا۔
لیکن یہ سب کچھ... یہ امن و امان۔ یہ نیک نامی‘ یہ معاشی شرحِ نمو... یہ مذاہب‘ فرقوں‘ عقیدوں کا باہم محبت سے مل جل کر رہنا۔ یہ غیر ملکیوں کو خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہنا... یہ سب کچھ ہمیں راس نہ آیا۔ ستر کی دہائی ختم ہونے تک ہم نارمل سے ابنارمل ہو چکے تھے۔ شدید احساسِ کمتری نے ہمیں دبوچ لیا۔ ہم ہر شخص‘ ہر ملک‘ ہر مذہب پر شک کرنے لگے۔ ہمیں ہر کوئی دشمن نظر آنے لگا۔ ہمیں ساری دنیا سازشی لگنے لگی۔ ساتھ ہی ہم اپنے آپ کو دوسروں سے برتر اور خصوصی مسلمان گرداننے لگ گئے۔ ہم احساسِ کمتری کے مارے ہوئے اس تحصیل دار کی طرح ہو گئے جو اپنا تعارف مجسٹریٹ یا ڈپٹی کمشنر کہہ کر کراتا ہے حالانکہ جو کچھ وہ ہے‘ اس میں بھی عزت ہے۔ ہم اس راجپوت کی طرح ہو گئے جو اپنے آپ کو سید بنا کر پیش کرتا ہے حالانکہ اس کی اصل ذات بھی لائقِ فخر ہے۔ ہم نے علامہ اقبال کی کتابوں میں نکاح‘ طلاق‘ وضو اور تیمّم کے مسائل تلاش کرنے شروع کر دیے۔ قائداعظمؒ کو مولانا کے روپ میں دکھانے لگ گئے اور اس دُھن میں سچائی کو چھوڑ کر واقعات گھڑنے لگے اور اختراعات پر اُتر آئے۔
اس نفسیاتی بیماری کی ایک مثال قائداعظم کی وہ ''ذاتی ڈائری‘‘ ہے جو جنرل ضیاء الحق نے ''دریافت کی‘‘۔ ضیاء الحق نے قوم کو بتایا کہ بابائے قوم نے اس ''ڈائری‘‘ میں پارلیمانی طرزِ حکومت کو ناپسندیدہ قرار دیا اور مضبوط صدرِ مملکت کی حمایت کی۔ سرکاری میڈیا نے اس ڈائری کو خوب خوب اچھالا۔ پروگرام اور بحثیں ہوئیں۔ لیکن جب میاں ممتاز دولتانہ‘ کے ایچ خورشید اور قائداعظم اکیڈیمی کے محققین نے ایسی کسی ڈائری کو ماننے سے انکار کردیا تو یہ ڈائری جس راستے سے آئی تھی اسی سے واپس چلی گئی۔
احساسِ کمتری کا یہ حال ہے کہ جو چیز ہمیں پسند آتی ہے‘ ہم اسے قائداعظم کے حوالے سے بلا جھجک پیش کر دیتے ہیں۔ ایسی کوششیں مسلسل جاری ہیں۔ ایسی ہی ایک حالیہ کوشش کی طرف دوستوں نے توجہ دلائی ہے۔ ایک انگریزی اور انہی کے اردو روزنامے نے اپنی 27 دسمبر کی اشاعت میں علامہ اسد کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ ''پاکستان کے قیام کے بعد قائداعظم نے اپنے پہلے ایگزیکٹو اقدام کے طور پر ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن قائم کرنے کے لیے احکامات دیے تھے‘‘۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ''قائداعظم کی رحلت کے بعد اس وقت کے قادیانی وزیر خارجہ ظفر اللہ خان نے علامہ کا تبادلہ کرا دیا اور انہیں امور خارجہ سے وابستہ ملازمت دے دی۔ معاصر یہ بھی لکھتا ہے کہ ''اپنی سوانح عمری ''یورپی بدو‘‘ میں علامہ اسد نے لکھا تھا...‘‘
یہ نویسندہ علامہ اسد کی زندگی اور تصنیفات کا طالب علم ہے۔ علامہ اسد پر سالہاسال تحقیق اور کام کرنے والے محقق جناب اکرام چغتائی صاحب سے بھی مسلسل رابطہ اور استفادہ رہتا ہے۔ اس لیے اس ضمن میں وضاحت ضروری ہے تاکہ ریکارڈ درست رہے اور تاریخی حقائق مسخ نہ ہو جائیں۔ اوّل: پاکستان بننے کے بعد علامہ اسد کا قائداعظم سے کوئی رابطہ کبھی نہیں ہوا ورنہ اسد اپنی خودنوشت میں ذکر کرتے۔ دوم: ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن قائم کرنے کے احکامات قائداعظم نے نہیں دیے تھے بلکہ علامہ اسد کے بقول وزیراعلیٰ پنجاب نواب ممدوٹ نے دیے تھے۔ علامہ اسد کے اپنے الفاظ یہ ہیں۔
''جوں ہی میں ان کے دفتر میں داخل ہوا ممدوٹ صاحب رسمی تکلفات کی پروا کیے بغیر ہی کہنے لگے۔ ''اسد صاحب! میرے خیال میں اب ہمیں نظریاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے ٹھوس قدم اٹھانا چاہیے۔ آپ نے ان کے بارے میں تقریراً اور تحریراً بہت کچھ کہا۔ اب آپ کیا تجویز کرتے ہیں؟ کیا ہمیں قائداعظم سے رجوع کرنا چاہیے؟ کئی روز سے مجھے ایسے سوال کا انتظار تھا چنانچہ میں نے پہلے ہی سے اس کا جواب سوچ رکھا تھا: ابھی مرکزی حکومت نے ان مسائل کا ذکر نہیں کیا اس لیے نواب صاحب! آپ ہی اس ضمن میں
پہل کیجیے۔ میری رائے میں آپ ہی کو پنجاب میں ایک ایسا خصوصی ادارہ قائم کرنا چاہیے جو ان نظریاتی مسائل کو زیر بحث لا سکے جن کی بنیاد پر پاکستان معرضِ وجود میں آیا ہے۔ خدا نے چاہا تو آئندہ حکومت کراچی (مرکزی حکومت) بھی اس اہم فریضے کی جانب متوجہ ہوگی۔ اس وقت وہ اپنی خارجہ پالیسی میں مصروف ہے۔ ان حالات میں شاید وزیراعظم یا قائداعظم ادھر زیادہ توجہ نہ دے سکیں‘‘۔ نواب صاحب فوری قوت فیصلہ کے مالک تھے۔ چنانچہ انہوں نے مجھ سے اتفاق کرتے ہوئے پوچھا ''آپ کے اس مجوزہ ادارے کا کیا نام ہونا چاہیے۔ میں نے جواباً عرض کیا اس کا نام ''ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن مناسب رہے گا۔ ممدوٹ صاحب نے بلا توقف کہا بالکل درست ایسا ہی ہوگا۔ آپ اس ادارے کے قیام کا منصوبہ اور اس کے اخراجات کا ایک تخمینہ تیار کیجیے۔ آپ کو سرکاری طور اس ادارے کا ناظم مقرر کیا جاتا ہے اور آپ کی ماہوار تنخواہ شعبۂ اطلاعات کے ناظم جتنی ہوگی مجھے امید ہے آپ اسے قبول کر لیں گے۔ مجھے امید نہیں تھی کہ اتنی جلدی فیصلہ ہو جائے گا لیکن نواب ممدوٹ کے فیصلوں کا یہی انداز تھا‘‘... (محمد اسد خودنوشت۔ مرتب اکرام چغتائی۔ مطبوعہ 2009ء۔ ناشر: دی ٹروتھ سوسائٹی گلبرگ 3‘ لاہور‘ صفحہ 111-112)
علامہ اسد کے ان الفاظ سے یہ حقیقت واضح ہو رہی ہے کہ یہ کام قائداعظم نہیں بلکہ نواب ممدوٹ نے کیا تھا۔ ڈیپارٹمنٹ کا نام (اسلامک ری کنسٹرکشن) علامہ اسد نے خود تجویز کیا تھا۔ نواب ممدوٹ علامہ اسد سے پوچھتے ہیں کہ کیا اس ضمن میں قائداعظم سے رجوع کرنا چاہیے؟ اسد جواب دیتے ہیں ''نواب صاحب آپ ہی اس ضمن میں پہل کیجیے‘‘۔ ساتھ ہی علامہ اسد یہ بھی کہتے ہیں کہ قائداعظم ادھر زیادہ توجہ نہیں دے سکیں گے!!
اس ضمن میں باقی حقائق کل کی نشست میں پیش کیے جائیں گے۔