آخر شاہی خاندان کے ذہن میں مستقبل کا کیا نقشہ ہے؟ خاکم بدہن ، سوچنے ہی سے خوف آنے لگتا ہے!
اگر اسفند یار جلال آباد یا کابل جا کر اپنے دادا کے دوستوں کے خانوادوں کے ساتھ جپھیاں ڈالتے تو ڈیرہ اسماعیل خان سے لے کر بنی گالہ تک گرج چمک کے ساتھ طوفان بھی آ جاتا۔
وفاق خیبر پختونخوا کے مسئلوں سے یکسر بے نیاز ہے۔ ہزاروں افراد روزانہ طورخم کے آرپار آ جا رہے ہیں۔ سکیورٹی ہے نہ کسی سرحد کی حرمت۔ ایسے میں اگر پرویز خٹک صاحب میں خوداعتمادی ہوتی اور قوتِ فیصلہ بھی تو وہ کرزئی حکومت سے بات چیت کر کے اپنے دکھوں کا مداوا کرنے کی خود سعی کرتے، لیکن اگر ایسا ہو جاتا تو پنجاب کی وزارت قانون سے لے کر وفاق کی وزارت اطلاعات تک ایمرجنسی کا نفاذ ہو جاتا۔ صوبے کے سب سے بڑے شہر کے سیوڈو دانشور مال روڈ کے چائے خانوں میں چکن سینڈوچ اور پیسٹریوں کی پلیٹوں پر ٹپ ٹپ آنسو گراتے اور ان کارخانوں میں رات دن شفٹیں چلا کر‘ پیداوار ڈبل کی جاتی جن میں دوسروں کو غدار ثابت کرنے کے لیے نٹ بولٹ اور گراریاں بنائی جاتی ہیں۔
سید قائم شاہ کی چیف منسٹری کے پیروں میں زنجیریں نہ ہوتیں اور وہ بلاول ہائوس کے بجائے صوبے کے عوام کو اپنے اقتدار کی بنیاد بناتے تو وفد لے کر احمد آباد یا گاندھی نگر جاتے اور تھرپارکر کے صحرا کو گل و گلزار بنانے کے لیے گجرات کے وزیراعلیٰ سے اقتصادی منصوبوں پر مذاکرات کرتے۔ سانگڑھ اور میرپور خاص کی پس ماندگی دور کرنے کے لیے سرحد پار
کرتے۔ جے پور جا کر راجستھان کے فلاحی اور معاشی منصوبوں کا مطالعہ کرتے اور عوام کا مقدر بدلنے کے لیے کچھ پیش قدمی کرتے۔ بھارت کی ان ریاستوں میں حکومتوں کے بیشتر کاروبار کمپیوٹر سے چل رہے ہیں۔ افسوس! عمر رسیدہ شاہ صاحب کو نوکری بچانے کے لیے ایسے ایسے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں کہ راجستھان اور گجرات تو دور کی بات ہے‘ انہیں یہ جاننے کی بھی فرصت نہیں کہ اسلام آباد اور لاہور میں کیا ہو رہا ہے۔ لیکن فرض کیجیے کوئی پری، شاہ صاحب کی بند آنکھوں سے غفلت کی سوئیاں نکال دیتی ہے اور وہ احمد آباد یا جے پور چلے جاتے ہیں تو آپ کا کیا خیال ہے کیا ہوگا؟ لاہور کی ملتان روڈ پر زلزلہ آ جائے گا۔ پیپلزپارٹی کے بارے میں وہ وہ انکشافات کیے جائیں گے کہ فرشتوں کے علم میں بھی اضافہ ہوگا۔ میڈیا پر سازشی تھیوریوں کی آگ اگلنے والے نیکوکار جہنم کے داروغوں کو بھی پیچھے چھوڑ جائیں گے۔
سعود عثمانی نے دیوبند کے قرب و جوار میں آبائی مکان دیکھے تو آنسو شعروں میں ڈھل گئے ؎
ہچکیوں نے کسی دیوار میں در رکھا تھا
میرے آبا نے جب اس خاک پہ سر رکھا تھا
دل تھے متروکہ مکانات کی صورت خالی
اور اسباب میں بچھڑا ہوا گھر رکھا تھا
جسم اجداد کی قبروں سے نکلتے ہی نہ تھے
نسل در نسل اسی خاک میں زر رکھا تھا
کون ہے جسے اپنے آباواجداد کے دالان اور ڈیوڑھیاں عزیز نہیں۔ اگر الطاف حسین اپنے چار پانچ ساتھیوں کے ساتھ یوپی اور بہار جا کر آبائی گلی کوچے ڈھونڈیں اور نئی نسل کو رُوٹس سے آشنا کرنے کے لیے چھوڑے ہوئے شہروں‘ قصبوں اور قریوں کی زیارت کریں تو غداری کے ساتھ ساتھ شاید کفر کے فتوے بھی لگ جائیں۔
لیکن یہ سب کچھ اگر وہاں ہو جہاں غدار بنانے کے ٹھپے پائے جاتے ہیں تو کسی کی مجال نہیں کہ انگشت نمائی کرے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ بھارت کا تفصیلی دورہ کرنے کے بعد ا ب وزارت خارجہ کے علاوہ باقی وفاقی وزارتوں کے فرائض بھی سرانجام دینے لگے ہیں۔ دو دن پیشتر بھارتی ہائی کمشنر سے اپنی راجدھانی میں انہوں نے ملاقات کی ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ پنجاب سے دو اعلیٰ اختیاراتی وفود بھارت جا کر دونوں ''ملکوں‘‘ میں تجارتی تعلقات کوصیقل کریں گے۔ صوبے کے وزیر زراعت وفود کی قیادت کریں گے اور بھارت کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کریں گے۔ خبر کا دلچسپ حصہ یہ ہے کہ بھارت کے وزیراعظم کے ساتھ‘ وزیراعلیٰ نے جو ملاقات کی تھی‘ یہ سب کچھ اس کے نتائج میں شامل ہے۔
اس کو تو چھوڑ دیجیے کہ وزیراعظم کے بھائی واحد وزیراعلیٰ تھے جو ان کے ساتھ چین اور ترکی گئے۔ تازہ ترین مذاق ملاحظہ ہو۔۔۔ سعودی وزیر خارجہ کے ساتھ وزیراعظم کی سرکاری ملاقات میں پنجاب کے وزیراعلیٰ موجود ہیں اور وہ جو انگریزی میں کہتے ہیں۔۔۔ Add insult to injury ۔۔۔تو طرفہ تماشا یہ ہے کہ مشیرِ خارجہ‘ وزیراعلیٰ کے بعد بٹھائے گئے ہیں۔ پوری دنیا کی حکومتوں کا پروٹوکول یہ ہے کہ جب سربراہ حکومت کوئی ملاقات کرتا ہے یا اجلاس بلاتا ہے تو متعلقہ وفاقی وزیر اس کے ساتھ بیٹھتا ہے ، لیکن یہاں ہر شے انوکھی ہے۔ وزیراعظم کے ساتھ وزیر خزانہ تشریف فرما ہیں جو سمدھی ہیں ، پھر وزیر داخلہ بیٹھے ہیں ، پھر ایک صوبے کے منتظم اعلیٰ‘ جو بھائی ہیں اور چوتھے نمبر پر مشیر خارجہ جن کی نشست اصولی طور پر وزیراعظم کے ساتھ رکھنی چاہیے تھی۔ دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ مشیر خارجہ ہیں تو پختون‘ لیکن سالہا سال سے اُس شہر میں رہ رہے ہیں جہاں کھابوں کے علاوہ پیش منظر پر سُبکی کیا، کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ اگر اپنے اصلی صوبے میں رہ رہے ہوتے تو یقیناً اس سُبکی کو برداشت نہ کرتے۔
صوبائی حدود توڑ کر وفاقی ذمہ داریاں خود سنبھال لینے کا اس سے بہتر موقع ملے گا بھی کہاں؟ کوئی احتجاج کرنے والا دور دور تک نظر نہیں آ رہا۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ اس لیے اعتراض نہیں کر سکتے کہ اُن کے سر پر جو ہُما بیٹھا ہے‘ وہ اصلاً آیا ہی وہاں سے ہے! چوں چرا کریں گے تو ہُما اڈاری بھرے گا اور سوکھے ہوئے راوی کے کنارے جا بیٹھے گا۔ سندھ کے وزیراعلیٰ رات دن ایک تنی ہوئی رسی پر چل رہے ہیں۔ ایک طرف مردان ہائوس ہے‘ دوسری طرف نائن زیرو ہے ، تیسری طرف بلاول ہائوس ہے اور چوتھی طرف دبئی ہے جہاں کسی بھی وقت طلب کیا جا سکتا ہے۔ اب بلاول بھی ان کے ''کرم فرمائوں‘‘ میں شامل ہو گئے ہیں۔ منہ بولے بھائی تو پہلے ہی سے کرم فرما تھے۔ اس قابلِ رحم اور دردناک صورتِ حال میں بیبے شاہ صاحب کو شاید یہ بھی معلوم نہ ہو کہ کسی ملک سے کوئی وزیر خارجہ آیا ہوا ہے اور اس کے ساتھ وفاق کی میٹنگ میں ایک صوبائی حاکم تشریف فرما ہے۔
رہے جناب پرویز خٹک، تو اُن کی حالت دیکھ کر اقبال کی نظم ''ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ یاد آتی ہے۔ مومن کے بارے میں ابلیس اپنے مشیروں کو ہدایت کرتا ہے ؎
ہے یہی بہتر الٰہیّات میں الجھا رہے
یہ کتابُ اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے
مست رکھو ذکر و فکرِ صبحگاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے
غصہ تو آتا ہوگا لیکن انگریزی بولنے والی بی بی اور وہ صاحب جن کے اڑن کھٹولے پر بڑے صاحب سواری کرتے ہیں‘ غالباً ابھی اجازت نہیں دے رہے کہ سب سے بڑے صوبے کی دھاندلی پر احتجاج کریں!