بارہ ربیع الاوّل

وہ یورپی ٹورسٹ یاد آ رہی ہے جو الحمرا کے Court of lions میں ملی تھی۔
الحمرا کی عمارتوں میں گھومتے گھومتے شام ہو چلی تھی۔ سورج غروب ہونے سے پہلے محراب سے جھانک رہا تھا۔ عجیب لمحے تھے۔ وقت رک گیا تھا۔ وہیں وہ اشعار ہوئے جنہیں سراج منیر مرحوم نے پڑھا تو بے اختیار ماتھے پر بوسہ ثبت کیا ؎
تیغ کی دھار میں الحمرا موتی کی آب میں الحمرا
اک محراب میں سورج ہے اور اک محراب میں الحمرا
زر اور مرمر حرف ہیں میرے وقت کی نوک قلم میرا
میں الہام ہوں میرے سب سے روشن باب میں الحمرا
سب زیتون کے باغ اس سے سارے شہروں میں چراغ اس سے
ہاتھ سمندر کی نبضوں پر، پائوں رکاب میں الحمرا
رستے زخم کی دو تصویریں اک میں دمک ہے اک میں کسک
سرخ لہو میں الحمرا ہے سرخ گلاب میں الحمرا
جس دن فلک پہ تارا ٹوٹا، سامنے آئے گی تعبیر
صدیوں پر پھیلی ہوئی رات کے سچے خواب میں الحمرا
کورٹ آف لائنز کے ارد گرد سیاحوں کا ہجوم تھا۔ شیروں کے دہانوں سے پانی کے فوارے ابل رہے تھے۔ غرناطہ کے سلطان محمد خامس نے یہ کورٹ یارڈ تعمیر کیا تھا جو صدیوں بعد بھی اسی طرح تھا۔
'' لیکن اسلام میں مجسموں اور بتوں کی تو اجازت ہی نہیں‘‘
اچانک میرے ساتھ کھڑی ہوئی سفید فام خاتون نے مجھے مخاطب کرکے کہا: ''تو پھر ان بادشاہوں نے یہ کیوں بنائے؟‘‘
ایک لمحے کے لیے چکرا گیا۔ پھر مارکسسٹوں کی تاریخ کام آگئی: ''یہ بادشاہ Revisionist (ترمیم پسند) ہو گئے تھے!‘‘
اس نے تمسخر آمیز قہقہہ لگایا: ''مسلمان ہوناں! ہر بات کے لیے تم لوگوں نے ایک دلیل گھڑ رکھی ہوتی ہے! لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تمہاری زندگی تمہارے رسولﷺ کے احکامات کے اردگرد نہیںگھومتی!‘‘
طعنہ تھا یا ماتم، جو کچھ بھی تھا، دل میں تیر کی طرح پیوست ہو گیا۔ پاس ایک کیفے تھا۔ ہم ایک لکڑی کے بنچ پر جا بیٹھے۔
''مادام! آپ کو کیا علم ہمارے رسولﷺ کے احکامات کیا ہیں اور ہماری زندگی ان کے گرد گھوم رہی ہے یا نہیں؟‘‘
وہ کئی برسوں سے حیات طیبہ کا مطالعہ کر رہی تھی۔ اب یاد نہیں، فرانس میں یا ہالینڈ میں انگریزی کی پروفیسر تھی۔ پاکستان سمیت کئی مسلمان ملکوں کو دیکھ چکی تھی اور صرف دیکھ نہیں چکی تھی، معاملے کی تہہ تک بھی پہنچ چکی تھی!
'' تمہارے رسولﷺ کو اللہ نے اپنی کتاب میں رحمۃ اللعالمین قرار دیا ہے۔۔۔ سارے جہانوں کے لیے ساری دنیائوں کے لیے رحمت۔ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں! کیا تم نے کبھی اس کے مضمرات پر غور کیا ہے؟‘‘
میں نے سر افقی انداز میں ہلا دیا، غور کیا ہوتا تو کچھ کہہ سکتا!
''کبھی غور کرو کہ آج کروڑوں مسلمان ہم غیرمسلموں کے ملکوں میں آکر آباد ہو رہے ہیں۔ کروڑوں آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس، مغربی ملکوں سے کتنے لوگ مسلمان ملکوں میں جاکر بسنے کے آرزومند ہیں؟ ہمارے ملکوں کو جنت سمجھا جاتا ہے۔ کسی مسلمان ملک سے ایک نوجوان آتا ہے، پھر وہ اپنے بھائیوں بہنوں کو لاتا ہے، خاندان کے خاندان منتقل ہو جاتے ہیں۔ ہم مغربی ممالک والے منہ سے اقرار کریں یا نہ کریں، یہ سب اس لیے ہے کہ ہم نے تمہارے رسولﷺ کی تعلیمات پر عمل کیا۔ یہ دعویٰ تمہیں عجیب لگے گا کیونکہ ہم مسلمان نہیں نہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن جو احکام تمہارے رسولﷺ نے تمہیں دیے، انہی سے ہم اس سطح پر پہنچے کہ مسلمان ہماری طرف کھنچے چلے آرہے ہیں۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ جس میں امانت کی خصلت نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس میں عہد کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں۔ ہم لوگ وعدہ پورا کرتے ہیں، امانت کی حفاظت کرتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے پاس سرکاری خزانہ امانت ہے اور ہم ان سے ایک ایک پائی کا حساب لیتے ہیں۔ پیغمبرﷺ سے پوچھا گیا مسلمان جھوٹا ہو سکتا ہے؟ فرمایا ''نہیں‘ جھوٹ کی عادت ایمان کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی‘‘ ہم لوگ جھوٹ نہیں بولتے، ہمارے بچوں میں جھوٹ بولنے کا تصور ہی نہیں۔ پیغمبر اسلامﷺ نے محتاجوں، مسکینوں اور مفلسوں کی خبر گیری کا حکم دیا۔ ہمارے ملکوں میں ہر مسکین ہر بے روزگار کو ریاست مالی امداد بہم پہنچاتی ہے جو عوام کے ٹیکسوں سے فراہم ہوتی ہے، یہاں تک کہ حکومت بے گھروں کو گھر بھی دیتی ہے۔ آج برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں مسلمانوں سمیت کتنے ہی لوگ سرکار کے مہیا کردہ گھروں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ تمہارے رسولﷺ نے ہدایت کی کہ جو دنیا میں نمائش اور شہرت کے کپڑے پہنے گا اسے قیامت کے دن ذلت و رسوائی کا لباس پہنایا جائے گا۔ ہمارے ملکوں کا اپنے ہاں سے موازنہ کر لو۔ ہمارے وزیر، افسر، بڑے بڑے ٹیکنوکریٹ، اسمبلیوں کے ممبر، بہت ہی خاص مواقع کو چھوڑ کر، سادہ ترین لباس میں ہوتے ہیں۔ وہ گرمیوں میں بنیان، عام سی پتلون یا نیکر اور چپل میں باہر جاتے ہیں اور سردیوں میں جیکٹ استعمال کرتے ہیں۔ تمہارے ہاں ایک ایک فرد کے درجنوں ملبوسات کم از کم ہیں۔ تم مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں کا لائف سٹائل دیکھو۔ ان کی قیمتی گاڑیوں کا ہمارے امیر ترین لوگ بھی نہیں مقابلہ کر سکتے‘ نہ کرنا چاہتے ہیں۔ تمہارے حکمرانوں کے محلات میں ٹونٹیاں، کنڈے،
تالے تک سونے کے ہوتے ہیں۔ تمہارے رسولﷺ کا ارشاد ہے کہ ''کسی نے کبھی کوئی کھانا اس سے بہتر نہیں کھایا کہ اپنے ہاتھوں کی محنت سے کما کے کھائے اور اللہ کے پیغمبر دائود ؑ اپنے ہاتھوں سے کام کرکے کھاتے تھے‘‘۔ ہر مسلمان کو یہ تو یاد ہے کہ ''الکاسب حبیب اللہ‘‘ لیکن ہاتھ سے کام کرنے والے کو پست، کمی اور ادنیٰ سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں مالی، ویلڈنگ کرنے والا، گٹر صاف کرنے والا، جوتے مرمت کرنے والا، اسی سماجی حیثیت کا حامل ہے جس حیثیت کا کوئی بھی دوسرا شخص۔ خاکروب، پارلیمنٹ کے ممبر کا پڑوسی ہے اور ریستوران میں فرش پونچھنے والا جس قطار میں کھڑا ہو کر کھانا خریدتا ہے‘ اسی قطار میں وزیر بھی کھڑا ہوتا ہے۔ تمہارے رسولﷺ اپنے کپڑے خود دھوتے تھے اور جوتے خود مرمت کرتے تھے۔ ہم بھی یہ کام خود کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں ملازم نہیں ہوتے، بڑے سے بڑا شخص اپنے جوتے خود پالش کرتا ہے۔ کپڑے خود دھوتا ہے۔ استری خود کرتا ہے۔ اپنا کمرہ اور اپنا بیت الخلا خود صاف کرتا ہے۔ تمہارے رسولﷺ نے فرمایا: ''جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ کیا نیوزی لینڈ سے لے کر بحرالکاہل کے مغربی ساحلوں تک کسی ملک میں ملاوٹ والی خوراک فروخت ہوتی ہے؟ نہیں! یہ صرف تمہارے ہاں ہو رہا ہے! تمہارے پیغمبر نے فرمایا کہ جس شخص نے کوئی عیب والی شے کسی کے ہاتھ فروخت کی اور خریدار کو وہ عیب نہیں بتلایا تو اللہ کے فرشتے ہمیشہ اس پر لعنت کرتے رہیں گے۔ اپنے تاجروں اور ہمارے تاجروں کا موازنہ کر لو۔ ہمارے ہاں نقص والی شے بتائے بغیر فروخت کرنے کا تصور ہی مفقود ہے اور خریدی ہوئی شے واپس بھی ہو سکتی ہے اور تبدیل بھی! تمہارے پیغمبر کا ارشاد ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ تم صفائی میں اپنے بازاروں کا ہمارے بازاروں سے، اپنی شاہراہوں کا ہماری شاہراہوں سے، اپنے غسل خانوں کا 
ہمارے غسل خانوں سے اور اپنے پارکوں اور سیرگاہوں کا ہمارے پارکوں اور سیرگاہوں سے موازنہ کرکے دیکھ لو کہ کون صاف ستھرا ہے اور کون میلا، گندا اور کثیف۔ تمہارے رسولﷺ نے فرمایا تھا کہ اپنے بوڑھوں اور ضعیفوں کا خیال رکھو کہ تمہیں انہی کی وجہ سے رزق بھی ملتا ہے اور نصرت بھی! ہم نے اپنے بوڑھوں کو مفت علاج، بس اور ٹرین میں مفت سفر اور انتہائی کم قیمت کے گھر فراہم کیے ہیں۔ ہمارے ''اولڈ ہوم‘‘ فائیو سٹار ہوٹل کے معیار کے ہیں اور لاتعداد رضاکار صبح شام بوڑھوں کی مفت خدمت کر رہے ہیں۔ جو بوڑھے اپنے گھروں میں اکیلے ہیں رضا کار ان کے گھروں میں جا کر ان کا کام کرتے ہیں‘‘۔
'' تمہاری دکانوں اور کارخانوں کی پیشانیوں پر کلمے اور درود لکھے ہیں اور اندر جھوٹ، وعدہ خلافی، ملاوٹ اور ٹیکس چوری کا کاروبار ہوتا ہے۔ تمہارے مکانوں پر'' ہٰذا من فضل ربی‘‘ لکھا ہوتا ہے اور اندر نوکروں کو مارا پیٹا جاتا ہے، انہیں وہ کھانا دیا جاتا ہے جو خود تم نہیں کھاتے اور وہ پہننے کو دیا جاتا ہے جو خود تم نہیں پہننا پسند کرتے۔ تمہاری گاڑیوں میں سورہ یٰسین لٹکی ہوئی ہوتی ہے اور تم ٹریفک کے ہر قانون کی خلاف ورزی کرتے ہو۔ تم بارہ ربیع الاوّل منانے کے لیے کروڑوں خرچ کرتے ہو اور پورا سال اپنے رسولﷺ کی تعلیمات کو پس پشت ڈالتے ہو۔ ہمارا ہر دن بارہ ربیع الاوّل ہے۔ ہم جو کچھ بھی ہیں اس لیے ہیں کہ محمدﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں جو اس جہان کے لیے بھی رحمت ہیں جس میں ہم رہتے ہیں ۔ ہمیں امید ہے کہ محمدﷺ کا خدا ہمیں ایمان سے بھی سرفراز کرے گا۔ تم دیکھ لو، ہم میں سے جو مسلمان ہو رہے ہیں ان میں وہ برائیاں نہیں پائی جاتیں جن میں تم خاندانی مسلمان سر تا پا غرق ہو!‘‘
میں اس شام بس میں بیٹھ کر قرطبہ چلا گیا۔ نہیں معلوم وہ مسلمان تھی یا نہیں، گمان غالب یہ ہے کہ وہ مسلمان تھی یا کچھ عرصہ بعد مسلمان ہو گئی ہو گی‘ لیکن میں ہر بارہ ربیع الاوِّل کو سوچتا ہوں کہ مسلمان کہلوانے کے قابل ہوں یا نہیں!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں