ایک ماہر خانساماں کی تلاش ہے۔ خانساماں نے بہت اچھا کھانا پکایا۔ یار‘ ایسا خانساماں مجھے بھی تلاش کردو۔
ایسی گفتگو آپ نے بارہا سنی ہوگی۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ کھانا پکانے والے ادنیٰ ملازم کو خانساماں کیوں کہا جاتا ہے؟ کیا آپ نے کبھی کسی سے پوچھا یا تحقیق کی کہ خانساماں کس زبان کا لفظ ہے؟ اس کا کیا مطلب ہے اور اس کا باورچی یا باورچی خانے سے کیا تعلق ہے؟
یہ خانساماں... اصل میں ''خانِ سامان‘‘ ہے۔
مغلوں کے عہد میں یہ وزیر کے برابر کا عہدہ تھا۔ خانِ سامان شاہی محلات میں فرنیچر اور دیگر ہر قبیل کے سازو سامان کا انچارج تھا۔ اس کے نیچے کئی ماتحت تھے۔ یہ مغلوں کی مرکزی حکومت کا عہدہ تھا۔ صوبائی حکومتوں میں اس کے نمائندے بڑے بڑے افسر ہوتے تھے جنہیں دیوانِ بیوت کہتے تھے۔ اور جو شاہراہوں‘ سرکاری عمارتوں‘ سرکاری سٹورز اور ورکشاپوں کے اعلیٰ عہدیدار تھے۔
مغلوں کی مرکزی حکومت میں پانچ عہدے ایسے تھے جو پوری سلطنت کو منظم کرتے تھے۔ وکیل‘ دیوان‘ میربخشی‘ خانِ سامان اور صدر الصدور۔ وکیل وزیراعظم کی طرح تھا۔ دیوان مالیات کو کنٹرول کرتا تھا۔ میربخشی شاہی فرامین کا نفاذ کرتا تھا۔ خانِ سامان‘ ہر قسم کے سامان‘ سپلائی‘ فراہمی‘ خریدو فروخت کا حاکمِ اعلیٰ تھا۔ صدر الصدور عدالتوں اور قاضیوں کے معاملات سنبھالتا تھا۔ خانِ سامان اہمیت اور شان و شوکت میں تیسرا بڑا منصب تھا۔ یہ منصب انتہائی قابلِ اعتماد فرد کو ملتا تھا کیوں کہ اس کا محلات کے اندر بھی عمل دخل تھا۔ کئی خانِ سامان ایسے تھے جنہیں بعد میں وزیراعظم بنایا گیا۔
پھر انگریز آ گئے۔ کمپنی بہادر نے زمین تیار کی‘ ہل چلایا‘ فصل بوئی۔ جب لہلہا اٹھی تو ملکہ برطانیہ نے براہِ راست اس برصغیر‘ اس سونے کی چڑیا کا انتظام سنبھال لیا۔ 1857ء میں ملکہ کے براہ راست انتظام سنبھالنے سے پہلے‘ 1800ء تک ہندوستانیوں پر حکومت تو کی جاتی تھی۔ ان کی تذلیل نہیں کی جاتی تھی۔ ہم ایک اور تحریر میں بتا چکے ہیں کہ 1800ء سے پہلے انگریز مقامی آبادی سے اس طرح دور نہیں بھاگتے تھے جیسے سیاہ فام غلاموں کو دور رکھا جاتا ہے۔ وہ مقامی خواتین سے شادیاں کرتے تھے۔ اپنے سٹیٹس کے برابر کے ہندوستانیوں میں اٹھتے بیٹھتے تھے۔ ہندوستانی لباس‘ قالین‘ دستر خوان‘ پان‘ سب کچھ اپناتے تھے۔ 1798ء میں لارڈ ولزلی گورنر جنرل ہوکر آیا۔ جب اس کا بحری جہاز جنوبی افریقہ میں رُکا اور اسے وہاں کچھ ایسے انگریز افسر ملے‘ جو ہندوستان میں تعینات تھے‘ تو اس نے وہیں انہیں بتا دیا کہ مقامی لوگوں کو محکوموں کی طرح فاصلے پر رکھنا ہوگا۔ اس کے بعد ہی انگریز مقامی ثقافت سے الگ تھلگ ہوئے۔ دوسرا بڑا واقعہ سلطان ٹیپو کی جدوجہد کا خاتمہ تھا۔ 1799ء میں انگریز سرکار کا یہ سب سے بڑا دشمن شہید ہو گیا۔ اس نے برطانوی استعمار کو لوہے کے چنے چبانے پر مجبور کیا تھا۔ انگریز غصے میں تھے۔ نفرت سانپ کی طرح پھنکار رہی تھی۔ سلطان ٹیپو کی حکومت میں بھی خانِ سامان اہم ترین وزرا میں شمار ہوتا تھا۔ نفرت کے اظہار کا ایک طریقہ یہ اپنایا گیا کہ جو مظاہر
ہندوستانیوں کے‘ بالخصوص‘ مسلمانوں کی ثقافت کے تھے‘ انہیں نشانہ بنایا گیا۔ انگریزوں نے باورچی کو حقارت‘ تضحیک‘ نفرت اور تکبر سے ''خانِ سامان‘‘ پکارنا شروع کیا۔ یہ ایک کمینہ اور تھرڈ کلاس مذاق تھا جو مغل سلطنت اور ٹیپو کی ریاست سے کیا گیا۔
لیکن یہ تو محض آغاز تھا۔ تھوڑے ہی عرصہ میں حجام کو ''خلیفہ‘‘ کہا جانے لگا۔ مغل صوبائی گورنر کو صوبیدار کہتے تھے۔ انگریزوں نے ادنیٰ رینک کے نان کمشنڈ اہلکار کو جو لیفٹیننٹ کا بھی ماتحت تھا‘ صوبیدار کہنا شروع کیا۔ پھر رسالدار اور جمعدار کی باری آئی۔ یہ بھی مسلمان حکمرانوں کے بڑے بڑے عہدیدار تھے۔ رسالدار‘ کیولری یعنی گھوڑ سوار دستوں کا کمانڈر ہوتا تھا۔ جمعدار۔ بڑے بڑے نوابوں کا اعلیٰ ترین پولیس افسر تھا! یہ سارے مناصب ذلیل کیے گئے۔ عزتیں نیلام ہوئیں۔ پھر انگریزی زبان کا نفاذ آ گیا‘ مقامی علماء‘ فضلا‘ راتوں رات جاہل ہو گئے اور سرکارِ انگلشیہ سے آئی ہوئی انگریزی کی چٹھیاں پڑھوانے کے لیے دربدر بھٹکنے لگے۔
پھر مسلمان اشرافیہ کے لباس کی باری آئی۔ انگریزوں نے دستار‘ اچکن‘ پاجامہ اور شلوار اپنے نوکروں‘ پہریداروں‘ بٹلروں‘ بیروں اور دروازے کھول کر سلام کرنے والوں کو پہنا دی جو ''باغیرت‘‘ پاکستانی حکمرانوں کے محلات میں آج بھی جوں کی توں رائج ہے!
لیکن تذلیل کی انتہا اُس وقت ہوئی جب نفرت سے پھنکارتے انگریز حکمرانوں نے اپنے کتوں کے نام ''ٹیپو‘‘ رکھنے شروع کیے۔ ٹیپو سنسکرت زبان کا لفظ ہے۔ اس کا مطلب ہے ''شیر جیسا‘‘۔ مسلمانوں کی ہر زبان میں شیر مسلمان ناموں کا جزو لاینفک ہے۔ عربی میں شیر کو اسد کہتے ہیں۔ ترکی میں ارسلان کہتے ہیں۔ یہ سب نام اسلامی ثقافت کا حصہ ہیں۔ فارسی‘ اردو‘ پنجابی اور ہندی میں بھی شیر مسلمانوں کے نام کا اہم ترین حصہ ہے۔ شیر خان‘ علی شیر‘ شیر احمد‘ احمد شیر‘ شیر علی خان‘ شیر محمد‘ یہ سارے نام مقبولِ عام نام ہیں۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ اس نام کو بگاڑ کر بھی پکارا جائے تو زیادہ سے زیادہ ''شیرا‘‘ کہہ دیا جاتا ہے۔ افسوس! صد افسوس! اس مقدس ثقافتی ورثے کی توہین ہمارے ایک جرنیل اور ایک سیاستدان نے کی ہے۔ جرنیل نے کتے کا تحفہ سیاستدان کو دیا اور اس کتے کا نام شیرو رکھا گیا۔
نہیں معلوم‘ کبھی پہلے بھی اس قسم کی ''جرأت‘‘ کی گئی یا یہ اعزاز ان حضرات کو پہلی بار نصیب ہوا ہے۔ ان جنرل صاحب کا تو اسلامی ثقافت سے اس قدر ''گہرا‘‘ تعلق ہے کہ اقتدار سنبھالتے ہی کتوں کو بغل میں دبا کر تصویر کھنچوائی اور عام کی۔ اپنے عہدِ اقتدار میں اسرائیل کو تسلیم کرنے پر زور دیا۔ ان کے ایک ساتھی نے شہیدوں کے نام پر گھوڑوں کی ریس یعنی قمار بازی کا اہتمام کیا۔ جنرل صاحب کو ناچنے اور طبلہ سیکھنے کا بھی شوق ہے۔ جس سیاستدان نے یہ کتا اُن سے تحفے میں پایا‘ اُس کے بچے ایک مغربی ملک میں پرورش پا رہے ہیں۔ خود بھی اُدھر ہی پلا بڑھا۔ اس کی سیاسی جماعت میں ازحد اہمیت ایک ایسی خاتون کی ہے جو وضع قطع میں ماشاء اللہ خاص ''مشرقی‘‘ اور ''اسلامی‘‘ دکھائی دیتی ہیں۔
ہمیں اس وقت سیاستدان کی جماعتی کارکردگی سے بحث نہیں۔ کلکتہ سے پشاور تک دوڑ دھوپ ہو رہی ہے اور کارکردگی سب کو معلوم ہے۔ جس نام کی توہین کی گئی ہے‘ اس نام کے بادشاہ نے پانچ سال میں کلکتہ سے پشاور تک پورے برصغیر کی شکل تبدیل کردی تھی اور انصاف کا مثالی نظام قائم کر کے دکھا دیا تھا۔ یہاں چند اضلاع کے چھوٹے سے صوبے میں چھ ماہ کے دوران پتہ بھی نہیں ہلا۔ اس جذباتی اور معصوم قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے طالبان کی حمایت بھی کی جا رہی ہے حالانکہ جس طرزِ زندگی اور ثقافت کی نمائندگی طالبان کر رہے ہیں‘ اُس سے آپ کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں‘ لیکن یہ الگ موضوع ہے۔ اس وقت تو مدعا ایک ہی ہے کہ جس طرح اسد نام کی توہین گوارا نہیں کی جا سکتی‘ جس طرح ارسلان اور ٹیپو کے ناموں کی تضحیک ناقابلِ برداشت ہے‘ اسی طرح ''شیر‘‘ کے نام کی تذلیل بھی ناقابلِ برداشت ہے۔ اس نام کا ہماری مقدس ہستیوں‘ بزرگوں اور مشاہیر سے گہرا تعلق ہے۔ ایسا کر کے اُن لاکھوں کروڑوں پاکستانیوں‘ افغانوں‘ تاجکستانیوں اور ایرانیوں کی توہین کی گئی ہے جن کے بچوں اور جن کے بزرگوں کے نام شیر کے نام پر رکھے گئے ہیں۔