یہ دو مریضوں کی کہانی ہے جو اپنے اپنے گھروں میں صاحبِ فراش ہیں۔ ایک ہی ڈاکٹر دونوں کا علاج کر رہا ہے۔ دونوں کو یکساں ہدایات دی گئی ہیں۔ صبح اور شا م ہلکی ورزش‘ ہر روز آدھ گھنٹہ سیر‘ کھانے میں چکنائی‘ چینی اور تلی ہوئی اشیا سے پرہیز‘ وقت پر سونا اور وقت پر جاگنا اور کچھ دیگر ہدایات۔
پہلے مریض (الف) کے گھر میں سخت جھگڑا بپا ہے۔ گھر کے کچھ افراد نے ان ہدایات کا چارٹ مریض کے کمرے کی دیوار پر لٹکا دیا ہے۔ اسی گھر کے دوسرے افراد ہدایات کا یہ چارٹ دیوار پر لگانے کے سخت مخالف ہیں۔ دونوں گروہوں کے اپنے اپنے دلائل ہیں۔ وہ مریض کے کمرے میں جمع ہو جاتے ہیں اور بحث کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ بحث لڑائی کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ پہلا فریق مصر ہے کہ چارٹ دیوار پر لگانا مریض کی صحت کے لیے ضروری ہے۔ اس کے پاس اپنا موقف درست ثابت کرنے کے لیے کئی دلائل ہیں جو وہ شدومد سے دیتا ہے۔ دوسرا فریق کہتا ہے کہ دیوار پر لگانا غلط حرکت ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں میں سے ایک فریق کی توجہ بھی اس امر پر نہیں کہ مریض کا کیا حال ہے؟ عملی صورتِ حال یہ ہے کہ مریض ورزش کر رہا ہے نہ سیر‘ وقت پر سوتا ہے نہ جاگتا ہے۔ ہر وہ شے کھا رہا ہے جس سے ڈاکٹر نے منع کیا تھا۔ حالت دن بدن بگڑتی جا رہی ہے۔ بغیر سہارے کے چلنا دوبھر ہو رہا ہے۔ غشی کے دورے اکثر پڑنے لگے ہیں۔ مگر گھر کے افراد مریض کی طرف دیکھتے تک نہیں۔ وہ مسلسل اس بات پر جھگڑ رہے ہیں کہ ڈاکٹر کی ہدایات چارٹ کی شکل میں دیوار پر نصب کرنی چاہئیں یا نہیں!
دوسرے مریض (ب) کے گھر والے ساری توجہ مریض پر دے رہے ہیں۔ کمرے کی دیوار پر کوئی چارٹ نہیں لگایا گیا نہ ہی اس کے بارے میں جھگڑا ہوا ہے۔ گھر کے سارے افراد نے مریض کی نگہداشت سنبھالی ہوئی ہے۔ کوئی صبح ورزش کرواتا ہے کوئی شام کو اور کسی کی ڈیوٹی سیر پر لے جانے کی ہے۔ کھانا مکمل پرہیزی ہے۔ مریض اب روبصحت ہے اور صورت حال نارمل ہوتی جا رہی ہے۔
آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ پہلا مریض (الف) پاکستان ہے۔ یہاں یہ جھگڑا زوروں پر ہے کہ آئین شریعت کے مطابق ہے یا نہیں۔ ایک فریق آئین کو درست سمجھ رہا ہے‘ دوسرا غلط‘ آئین کا ایک حصہ قراردادِ مقاصد ہے۔ اس پر بھی جھگڑا ہے۔ قراردادِ مقاصد 1949ء میں منظور کی گئی۔ بعد میں اسے آئین کا حصہ بنا دیا گیا۔ یہ وہ چارٹ ہے جو مریض کے کمرے میں دیوار پر لٹکایا گیا۔ کچھ لوگ اس کے حق میں تھے کچھ آج بھی مخالف ہیں۔ مریض یعنی پاکستانی عوام کس حال میں ہیں۔ آیئے‘ دیکھتے ہیں۔
قراردادِ مقاصد میں لکھا ہے کہ مملکت حکمرانی کے اختیارات عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔ عملی صورت حال یہ ہے کہ قراردادِ مقاصد کے باوجود ملک کی تاریخ کا بیشتر حصہ فوجی آمریت کے سائے میں گزرا۔ ایوب خان ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے طویل عرصہ اور یحییٰ خان نے بھی کچھ عرصہ‘ اس شق کی دھجیاں اڑائیں۔
قراردادِ مقاصد کی رو سے جمہوریت‘ حریت‘ مساوات‘ رواداری‘ برداشت اور سماجی عدل کے اصولوں کو‘ اسلام کی تشریح کے مطابق‘ ملحوظ رکھا جانا تھا۔ عمل کے لحاظ سے اس شق کا تصور بھی پاکستان میں ناممکن ہے۔ مساوات اور سماجی عدل؟ یہ محض دیوانے کا خواب ہے۔ حکمران شاہراہوں سے گزرتے ہیں تو راستے بند کر دیے جاتے ہیں۔ حاملہ عورتیں سڑکوں پر بچے جنم دیتی ہیں۔ مریض ایمبولینسوں میں مر جاتے ہیں۔ طلبہ کمرۂ امتحان تک اور مسافر ہوائی اڈوں پر نہیں پہنچ پاتے۔ آصف زرداری کے محل کی وجہ سے شاہراہوں پر دیواریں کھڑی کردی گئی ہیں۔ پنجاب کے شاہی خاندان کی حفاظت پر ہزاروں سرکاری اہلکار مامور ہیں۔ حال ہی میں بلوچستان اسمبلی میں اس بات پر پولیس کو ذلیل کیا گیا کہ ایک رکن کے ذاتی محافظ‘ جو بڑی تعداد میں تھے‘ اسمبلی کے احاطے میں داخل نہ ہونے دیے گئے۔ سرکاری ملازموں کی تعیناتیاں‘ کیا ملک کے اندر اور کیا بیرونِ ملک‘ تعلقات اور سفارش کی بنیاد پر طے ہوتی ہیں۔ جن بڑے لوگوں پر کروڑوں اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات ہیں‘ کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں۔ جن جرنیلوں نے ڈنکے کی چوٹ اعتراف کیا کہ انہوں نے سیاستدانوں میں بھاری رقوم تقسیم کی تھیں‘ سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود آزاد پھر رہے ہیں۔ کسی میں ہمت نہیں کہ ان پر مقدمے چلائے۔ ''عدل‘‘ کا یہ عالم ہے کہ پورا ملک ڈاکوئوں‘ اغوا کاروں اور بھتہ گیروں کی دسترس میں ہے۔ حکمرانوں نے عملی طور پر‘ عوام کی حفاظت سے ہاتھ اٹھا لیے ہیں۔
قراردادِ مقاصد کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جانا تھا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو ''اسلامی تعلیمات‘‘ کے مطابق ترتیب دے سکیں۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ پاکستان جھوٹ‘ وعدہ خلافی‘ عہد شکنی اور خیانت میں دنیا بھر میں سرفہرست ہے۔ لوگ عام زندگی میں وعدہ پورا کرنے کا کوئی تصور ہی نہیں رکھتے۔ آپ سے ایک شخص وعدہ (یا معاہدہ) کرتا ہے کہ شام پانچ بجے آپ کے پاس آئے گا یا فلاں چیز پہنچا دے گا۔ نوے فی صد لوگ اس کی پاسداری نہیں کریں گے۔ کوچہ و بازار میں بسوں اور ٹرینوں میں ہر شخص عورتوں کو گھور رہا ہوتا ہے۔ تاجروں کی اکثریت بظاہر متشرع ہے لیکن ملاوٹ‘ ٹیکس چوری اور جعلی ادویات عام ہیں۔ ذخیرہ اندوزی کو برا نہیں سمجھا جاتا۔ شے بیچتے وقت نقص بتانے کا کوئی تصور نہیں۔ خریدا ہوا مال واپس ہوتا ہے نہ تبدیل جو سراسر غنڈہ گردی ہے۔ پچانوے فی صد تاجروں نے دکانوں اور کارخانوں کے سا تھ زمینوں پر تجاوزات کی شکل میں ڈاکہ مارا ہوا ہے جس کی وجہ سے ان کی آمدنیاں حرام پر مشتمل ہیں لیکن اس ڈاکہ زنی کو برا نہیں سمجھا جاتا۔
قراردادِ مقاصد کی رو سے اقلیتوں کو اپنے اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے اور اپنے کلچر و ثقافت کی ترویج کی آزادی ہونی تھی۔ عملی صورتِ حال یہ ہے کہ غیر مسلم یہاں سے بھاگ رہے ہیں۔ پارسیوں اور عیسائیوں کی بڑی تعداد ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں پاکستان چھوڑ گئی۔ ان کی عبادت گاہوں پر حملے عام ہیں اور برملا کہا جاتا ہے کہ یہ حملے شریعت کے مطابق ہیں۔ سندھ میں ہندوئوں اور خیبرپختونخوا میں سکھوں کے اغوا اور قتل کی خبریں آئے دن قومی پریس میں شائع ہوتی ہیں۔ حال ہی میں کچھ غیر مسلم خاندانوں نے بیرونِ ملک سے واپس آنے سے انکار کردیا ہے۔
قراردادِ مقاصد میں عوام کے بنیادی حقوق کی گارنٹی کا اور آزاد عدلیہ کا بھی ذکر ہے ع
قیاس کن زگلستانِ من بہارِ مرا
دوسری طرف جن مغربی ملکوں میں کروڑوں مسلمان ہجرت کر کے جا بسے ہیں‘ مسلسل جا رہے ہیں اور جانے کی سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں‘ وہاں کسی آئین پر جھگڑا ہے نہ کسی قراردادِ مقاصد پر۔ لیکن سماجی عدل صاف نظر آتا ہے۔ خاکروب اور اسمبلی کا رکن ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں۔ وزرائے اعظم ٹرینوں میں سفر کرتے ہیں یا سائیکلوں پر سوار ہو کر دفتروں میں آتے ہیں۔ ملاوٹ‘ جعلی ادویات‘ ٹیکس چوری اور نقص والی اشیا بغیر بتائے فروخت کرنے کا تصور تک ناپید ہے۔ ہزاروں مولوی صاحبان ان ملکوں میں جا کر آباد ہونے کے لیے تیار ہیں اور لاکھوں ان ملکوں کی مساجد میں آزادی سے مذہبی فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ لاکھوں کروڑوں گھر ان ملکوں میں چار دیواری اور گیٹ کے بغیر ہیں اور محفوظ ہیں۔
یہ سب وہاں کیوں ہے اور ہمارے ہاں کیوں نہیں؟ دیوانِ حافظ سے فال نکالی تو جواب دلچسپ ملا ؎
مباحثی کہ در آن مجلسِ جنوں می رفت
ورائی مدرسہ و قال و قیلِ مسئلہ بود
یہ بات مدرسہ اور اہلِ مدرسہ کی سمجھ سے باہر ہے!