گھر تو خوبصورت تھا۔ عالی شان‘ پائیں باغ بھی تھا۔ پھولوں سے بھری ہوئی روشیں تھیں‘ شمشاد اور صنوبر کے درخت بھی۔ خواب گاہوں میں مر مر کے فرش تھے اور شاہ بلوط سے بنے فرنیچر کے دیدہ زیب‘ دل آویز آئٹم۔ دالانوں میں عود اور لوبان سلگتا تھا تو لگتا تھا مصر کے قدیم بادشاہوں کے محلات میں بیٹھے ہیں۔
لیکن پھر گھر کے مالک نے ایک عجیب کام کیا۔ اس نے گھر کے نیچے‘ دور گہرائی میں‘ خندق کھودنا شروع کردی۔ جب خندق تیار ہو گئی تو اس نے اس میں بارود بھر دیا۔ اب حالت یہ ہے کہ خوبصورت مکان بارود کے ڈھیر پر کھڑا ہے۔ صرف دیا سلائی دکھانے کی دیر ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ مالک خود بھی اسی مکان میں رہتا ہے ع
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے
مکان نہیں‘ اس کا اپنا گھر تباہی کے دہانے پر ہے۔
یہ کہانی ہے نہ تمثیل۔ یہ اسلام آباد کی صورتِ حال ہے۔ حقیقی صورتِ حال... اور ذمہ دار کون ہے؟ اسلام آباد کے حکام... ترقیاتی ادارہ‘ ضلع اور کمشنری کے افسر!
گاڑیوں کے ازدحام‘ رہنے کے لیے محلاّت‘ غیر ملکی دورے‘ تزک و احتشام‘ ترقیاں‘ بیرونِ ملک تعیناتیاں‘ تنی ہوئی گردنیں‘ ایک ایک فُٹ لمبے پائپ‘ فرنگی سوٹوں کے باہم مقابلے‘ بیگمات کی منعقد کردہ پارٹیاں‘ بزم ہائے نشاط و انبساط‘ لمبی چوڑی خریداریاں‘ ڈرائنگ روموں میں سجے مُلکوں مُلکوں جمع کیے گئے کرسٹل‘ بلور کے جام‘ خشک میوے‘ قسم قسم کے مشروبات اور نااہلی کی حالت دیکھیے سرکار خود اعلان کر رہی ہے کہ اسلام آباد براہ راست القاعدہ‘ لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان کے نشانے پر ہے اور یہ کہ وفاقی دارالحکومت میں تینوں گروپ پوری قوت کے ساتھ موجود ہیں۔
یہی وفاقی دارالحکومت اگر رائے ونڈ کی طرح کسی کی ذ اتی جاگیر ہوتا یا کسی سیٹھ کی جائداد ہوتا تو اس میں چڑیا پر نہ مار سکتی لیکن سارا المیہ یہ ہے کہ یہاں عوام رہتے ہیں۔ رہے خواص تو وہ ریڈزون میں ہیں۔
ایک عام سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی بخوبی جانتا ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں تین علاقے ایسے ہیں جو دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناگاہوں کا کام کر رہے ہیں۔ ان میں پہلا علاقہ بارہ کہو ہے جو ایوانِ وزیراعظم سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ وزیر داخلہ اور سیکرٹری داخلہ تو دور کی بات ہے‘ اسلام آباد کے چیف کمشنروں نے بھی کبھی اس بارود کے ڈھیر کو نزدیک آ کر نہیں دیکھا۔ بے ہنگم آبادیوں کا ایک جنگل ہے جو مسلسل وسیع سے وسیع تر ہو رہا ہے۔ لاکھوں ''غیر ملکی‘‘ آباد ہیں اور سالہا سال سے آباد ہیں۔ افغان سرحدوں سے بستیوں کی بستیاں اٹھیں اور یہاں آ کر بس گئیں۔ یہ سب اس طرح محفوظ ہیں جیسے بتیس دانتوں کے
درمیان زبان۔ مری روڈ پر دونوں طرف بیسیوں قریے ہیں جو لاقانونیت کے ماڈل ہیں۔ پھر سملی ڈیم روڈ ہے‘ جس پر کسی قانون‘ کسی ضابطے‘ کسی رُول کا اطلاق نہیں ہوتا۔
اس سے بھی زیادہ عبرت ناک حقیقت یہ ہے کہ دارالحکومت کے عین درمیان میں ایک پورا سیکٹر ترقیاتی ادارے نے قبضے سے مستثنیٰ کر کے کھلا چھوڑ دیا۔ اسے سیکٹر جی بارہ کہتے ہیں۔ مکینوں کی بے حسی اور بزدلی کا یہ عالم ہے کہ اس ''علاقہ غیر‘‘ کے اردگرد جتنے سیکٹر آباد ہیں‘ بالخصوص جی گیارہ‘ جی تیرہ اور ایف گیارہ۔ ان میں پڑنے والے ڈاکوں‘ وارداتوں اور چوریوں کا سرچشمہ یہی جی بارہ ہے۔ مکین جانتے ہیں لیکن اُف تو کیا‘ چُوں تک کوئی نہیں کرتا ع
سب کر رہے ہیں آہ و فغاں، سب مزے میں ہیں
دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے نے کن مگرمچھوں کی خاطر اس سیکٹر کو مستثنیٰ کیا‘ اس کا عقدہ شاید کبھی بھی نہ کھلے۔ یہاں کوئی سیکٹر ہے نہ سب سیکٹر‘ کوئی سٹریٹ ہے نہ گلی۔
جرائم پیشہ افراد کی جنت ہے اور وہ بھی دارالحکومت کے عین وسط میں... یہاں جھونپڑے بھی ہیں اور محلات بھی۔ حویلیاں بھی ہیں اور ڈیرے بھی۔ درجنوں مافیا یہاں پھل پھول کے تناور درخت بن چکے ہیں۔ یوں سمجھیے‘ دہشت گردوں کو پلیٹ میں رکھ کر پناہ گاہیں پیش کی گئی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ ''جزیرہ‘‘ اتنا ہی محفوظ ہے جتنا افغان سرحد پر واقع علاقہ غیر!!
تیسرے نمبر پر ترنول کا علاقہ ہے جو فتح جنگ تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ بھی ''غیر ملکیوں‘‘ کی جنت ہے! باغات ہیں اور فارم! اور سب کو معلوم ہے کن کے ہیں! درجنوں دہشت گرد یہاں سے وقتاً فوقتاً گرفتار کیے گئے۔ گویا پانی کے بوکے (ڈول) نکالے گئے مگر مردار جانور کو کنوئیں کے اندر ہی رہنے دیا گیا!
آپ ترقیاتی ادارے اور ضلعی انتظامیہ کی ''مستعدی‘‘ اور ''احساسِ ذمہ داری‘‘ کا اندازہ لگایئے کہ ترنول کی بغل میں واقع سیکٹر جی چودہ/ ون اور جی چودہ/ ٹُو کے پلاٹ کاغذوں پر بنا کر سرکاری ملازموں کو الاٹ کیے گئے لیکن ان کاغذی پلاٹوں پر وہ گائوں ابھی تک آباد ہیں جو کاغذوں پر اپنا وجود کھو چکے ہیں۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ ریٹائرڈ سرکاری ملازم سات آٹھ سال سے یہ الاٹمنٹ لیٹر گھروں میں رکھ کر انہیں چاٹ رہے ہیں لیکن غیر قانونی آبادی نہ صرف یہ کہ ختم نہیں ہو رہی‘ اس میں مزید تعمیراتی کام ہو رہا ہے یعنی مزید غیر قانونی مکان اور دکانیں بنتی جا رہی ہیں۔ کئی ریٹائرڈ سرکاری ملازم الاٹمنٹ لیٹروں کو چاٹتے چاٹتے قبرستانوں کو سدھار چکے ہیں۔ ان کے پس ماندگان خس و خاشاک کی طرح گلیوں میں رُل رہے ہیں مگر غیر قانونی آبادیوں کی طرف میلی آنکھ سے بھی کوئی نہیں دیکھ سکتا۔
آج اگر سرکار خود اعلان کر رہی ہے کہ وفاقی دارالحکومت القاعدہ‘ لشکر جھنگوی اور طالبان کے براہ راست نشانے پر ہے تو ان گروہوں کو محفوظ پناگاہیں بھی تو اداروں کی ناک تلے ہی مہیا ہوئی ہیں۔ ترقیاتی ادارہ غالباً وزارتِ داخلہ کے ماتحت نہیں‘ لیکن ضلعی انتظامیہ تو وزارت ہی کا حصہ ہے ؎
میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روزِ سیہ
خود مرے گھر کے چراغاں نے دکھایا ہے مجھے
ہم اپنا فرض ادا کرتے ہوئے چودھری نثار علی خان کی خدمت میں ادب کے ساتھ گزارش کرتے ہیں کہ ترقیاتی ادارے اور ضلعی انتظامیہ کے علم میں لائے بغیر‘ پرائیویٹ اور غیر سرکاری انتظام کے ذریعے (1)بارہ کہو (2)ترنول اور (3)جی بارہ کا تفصیلی دورہ کریں۔ بھیس بدل کر کریں تو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ خوبصورت مکان کے نیچے کتنی بڑی خندق ہے جو بارود سے بھری ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ خندق اب پوشیدہ بھی نہیں رہی۔ سب کو نظر آ رہی ہے سوائے اُن کے جنہیں سب سے پہلے نظر آنی چاہیے تھی!