شیخ رشید کے بہت سے رویوں سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ خاص کر اُن کی اس خواہش سے کہ وہ ہر وقت پردۂ سیمیں پر رہیں اور مسلسل ایسی باتیں کرتے رہیں جنہیں سننے والا چار پر تقسیم کرتا رہے۔ ناصر کاظمی نے کہا تھا ؎
کم نما ہم بھی ہیں بہت پیارے
خود نما تجھ سا پر کہاں دیکھا
لیکن راولپنڈی اسلام آباد کے جڑواں شہروں کی سکیورٹی کے متعلق جب وہ خطرات کی نشان دہی کریں تو اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اپنے شہر اور شہریوں سے شیخ صاحب کی وفاداری پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ گراس روٹ سے اٹھنے والے سیاست دان اور اوپر سے آ کر یک دم رہنما بن جانے والے شخص میں یہی فرق ہوتا ہے جو شیخ رشید اور عمران خان میں ہے۔ شیخ رشید نے دو دن پہلے ٹیلی ویژن پر آ کر وارننگ دی کہ روات سے بارہ کہو تک (انہوں نے درمیان میں واقع ایک علاقے کا نام بھی لیا) کوئی حکومت ہے نہ گورننس۔ وزیراعظم‘ عمران خان سے ملنے گئے تو انہوں نے پارک پر قبضہ گروپ کے تسلط کا ذکر کیا حالانکہ اُن کے گھر سے بچہ بھی کنکر پھینکے تو اس آبادی پر آ گرے جو ان کے وسیع و عریض مکان کی بالکل پشت پر ہے اور جہاں کچھ عرصہ پہلے حقانی گروپ کا ایک اہم شخص قتل ہوا اور جو غیر ملکیوں سے بھری پڑی ہے۔
نااہلی‘ نااہلی اور نااہلی... اس کے علاوہ کوئی اور لفظ سوچا ہی نہیں جا سکتا۔ نااہلی کا سب سے بڑا ثبوت ترجیحات کا عجیب و غریب ہونا ہے۔ جڑیں گل رہی ہوں اور شاخوں پر پیوندکاری کی جا رہی ہو تو اسے نااہلی کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے۔ وفاقی دارالحکومت بالخصوص اور پنجاب بالعموم غیر ملکیوں اور دوسرے صوبوں سے لاکھوں کی تعداد میں آنے والوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ کل کے روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ دنوں میں سات لاکھ افراد دوسرے صوبے سے پنجاب منتقل ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے معتبر لوگ ایک موجودہ وفاقی وزیر کی موجودگی میں کہہ چکے ہیں کہ لاہور غیر ملکیوں کے محاصرے میں ہے۔ حیرت ہے کہ وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں میں کسی نے نہ پوچھا کہ یہ غیر ملکی کیوں بسے ہیں اور حکومت کی اس سلسلے میں کیا پالیسی ہے؟ یہ ہمارا قومی شعار بن چکا ہے کہ غیر قانونی بستیاں متعلقہ اداروں کی ناک تلے آباد ہوتی ہیں اور برسوں بعد یہ ادارے دہائی دینے لگ جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے پرسوں کہا ہے کہ... ''سی ڈی اے کی مہربانی سے غیر قانونی ہائوسنگ سکیمیں بنیں...‘‘ کسی اور ملک میں سب سے بڑی عدالت یہ کہتی تو طوفان برپا ہو جاتا۔ اب ایک دن وہ بھی آئے گا جب پانی سر سے گزرے گا اور پھر کوئی عدالت ریمارک دے گی کہ ''غیر ملکی اور دوسرے صوبوں سے آنے والے مسلح اشخاص وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی آنکھوں کے سامنے آ آ کر آباد ہوتے رہے‘‘ اس میں شک نہیں کہ ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں آ کر آباد ہونا ہر شہری کا حق ہے لیکن یہ حق کہیں نہیں دیا جا سکتا کہ ساتھ اسلحہ کے انبار بھی آئیں اور دشمنیاں بھی ساتھ ہی منتقل ہوں۔ کسی خوفِ تردید کے بغیر یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ وفاق اور سب سے بڑے صوبے کے حکمرانوں کے پاس اعدادو شمار ہی نہیں کہ باہر سے آ کر منتقل ہونے والوں کی تعداد کیا ہے؟ سالانہ یا ماہانہ شرح کیا ہے؟ کیا کسی پالیسی ساز ادارے نے اس ضمن میں کوئی پالیسی وضع کی ہے؟ کیا اس امر کا انتظام کیا جا رہا ہے کہ یہ آبادکار مخصوص علاقوں میں اکثریت نہ حاصل کریں؟ اگر بڑی بڑی تنخواہوں پر پلنے والے ان میں سے کسی سوال کا جواب دے دیں تو خوشی میں بکرے ذبح کیے جائیں گے۔ لیکن چونکہ ان امور پر عوام کی سلامتی کا دارومدار ہے اس لیے یہ غیر ضروری ہیں۔ سلامتی صرف ریڈ زون کی مطلوب ہے!
نااہلی کا ایک شاخسانہ یہ بھی ہے کہ سائیکل کی ہر شے بجتی ہے سوائے گھنٹی کے۔ ہر وزیر ہر معاملے پر بیان دیتا ہے سوائے اپنے دائرہ کار کے۔ یہ جو طوفان اٹھا ہے تو سوال یہ ہے کہ ریلوے کا جنرل پرویز مشرف کے معاملے سے کیا تعلق تھا؟ آخر ریلوے کے وزیر کو کیا ضرورت تھی کہ پبلک میں بیان بازی کریں۔ وہ اپنے جذبات اور تحفظات کا اظہار پارٹی میٹنگ میں بھی کر سکتے تھے اور کابینہ اجلاس میں بھی! اب ایک وزیر صاحب نے کہا ہے کہ ریاست دلیل سے بات کرنے والوں کے ساتھ ہے‘ ان کے ساتھ نہیں جو غلیل کے ساتھ بات کرتے ہیں ع
بجا کہتے ہو سچ کہتے ہو پھر کہیے کہ ہاں کیوں ہو؟
وہ بھول رہے ہیں کہ غلیل کے ساتھ بات کرنے والوں کے ساتھ کون کھڑا ہے؟ خیبرپختون خوا میں سرکاری اہلکاروں اور تنصیبات پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔ پانچ پانچ اہلکاروں کی نماز جنازہ اکٹھی ادا کی جا رہی ہے اور یہاں اعلان ہو رہے ہیں کہ ہم غلیل والوں کے ساتھ نہیں‘ دلیل والوں کے ساتھ ہیں۔ گویا دہشت گرد لوگوں کو ہلاک کرنے کے لیے دلیل استعمال کر رہے ہیں؟
بے باک صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملہ باعثِ تشویش ہے۔ اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ حامد میر جیسا صحافی قوم کے لیے اثاثہ ہوتا ہے۔ جس پر حملہ کیا جائے اور وہ بھی قاتلانہ‘ اس کے اہل و عیال کے بیانات کی اور بات ہے لیکن یہ حضرات کون ہیں جو سٹیپ ڈائون کی تجویزیں دے رہے تھے؟ یہ وہی انتہا پسند ہیں جو کل مذاکرات کی مخالفت کرنے والوں کے بارے میں آتشیں بیانات دے رہے تھے کہ مذاکرات کی مخالفت وہ لوگ کر رہے ہیں جو شراب پیتے ہیں‘ قادیانیوں کے حامی ہیں اور ڈالر وصول کرتے ہیں۔ کیا کوئی صحیح الدماغ شخص ایسے الزامات لگا سکتا ہے؟ ان عناصر کو کل لگام دی جاتی تو آج وہ قومی اداروں پر نہ جھپٹتے!
یہ لکھنے والا اس سے پہلے بھی یہ نکتہ بیان کر چکا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج وہ واحد رکاوٹ ہیں جس نے بھارت کی توسیع پسندی کو روک رکھا ہے۔ ورنہ آج پورا شرقِ اوسط بھارتی چراگاہ ہوتا؛ تاہم اپنے خاندانوں کو پوری قوم اور اپنے شہروں کو پورا ملک سمجھنے والوں کو ان حساس حقیقتوں کا ادراک نہیں ہو سکتا۔ پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر‘ لیکن وژن کی گنجائش نہ ہو تو وژن نہیں آ سکتا۔ وژن ہو تو برادریوں کے زور پر قبائلی انداز میں جمہوری ملک نہیں چلائے جاتے!