خنک پانیوں کا چشمہ

گجرات سے بارہا گزر ہوا ہوگا۔ اس شہر کا نام آتے ہی ذہن صنعت اور سیاست کی طرف چلا جاتا ہے۔ پنکھا سازی میں یہاں کے لوگوں نے شہرت حاصل کی۔ فرنیچر یہاں کا دنیا بھر میں پایا جاتا ہے۔ کفش سازی ایسی کامیاب ہوئی کہ ملک بھر میں آئوٹ لیٹ ہیں۔ سیاسی خاندانوں کی پارٹیوں پر اجارہ داری نے بھی اس شہر کو مشہور کیا لیکن اب کے جو گجرات دیکھا‘ وہ نیا ہی تھا۔ گجرات یونیورسٹی کا کیمپس دیکھ کر شکیب جلالی کا شعر یاد آ رہا تھا ؎ 
ادھر سے بارہا گزرا مگر خبر نہ ہوئی 
کہ زیرِ سنگ خنک پانیوں کا چشمہ تھا 
کیمپس کی وسعت‘ عمارتوں کا پھیلائو اور خوبصورتی اور طلبہ و طالبات کی چہل پہل دیکھ کر بے پایاں مسرت ہوئی۔ اس مسرت کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جن کی ترجیحِ اول دولت نہیں ہوتی! کیمپس میں اگرچہ درختوں کی کمی ہے اور ہریالی کم ہے لیکن یہ ایک دل نشین قریہ ہے جو دولت کمانے والوں اور اقتدار سے محبت کرنے والوں کے شہر کی بغل میں بسایا گیا ہے اور خوب بسایا گیا ہے۔ ضمیر جعفری نے کہا تھا ؎ 
کوئی رومی، کوئی غالب، کوئی اقبال پیدا کر 
کہ شہروں کی بڑائی اس کے میناروں سے ہوتی ہے 
وہ جو اقبال نے رونا رویا تھا کہ ع 
قوتِ افرنگ از علم و فن است 
تو ہم یہ بات آج تک سمجھ نہیں پائے کہ جو لوگ آج کرۂ ارض پر حکمرانی کر رہے ہیں‘ جن کے تصرف میں ہوائیں اور فضائیں ہیں اور جن کے بحری بیڑوں کے لیے عظیم الشان سمندر جھیلوں کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں‘ وہ اس مقام پر دو چیزوں کے طفیل پہنچے۔ یونیورسٹیاں اور لائبریریاں‘ آکسفورڈ یونیورسٹی 1167ء سے پہلے بنی۔ کیمبرج یونیورسٹی 1209ء میں وجود میں آئی۔ گلاسگو یونیورسٹی 1451ء میں بن چکی تھی۔ ایڈنبرا یونیورسٹی میں 1583ء میں کلاسیں شروع ہو چکی تھیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جب مشرق میں مغل‘ ازبک اور عثمانی سلطنتیں ایک طرف تھیں اور ا یران کے صفوی حکمران دوسری طرف تھے۔ قندھار پر قبضہ کے لیے ایران اور ہندوستان ایک دوسرے کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے تھے۔ جہانگیر نے افیون کے تبادلے میں سلطنت کے امور نور جہان کے حوالے کر دیے تھے۔ افسوس! استنبول میں کوئی یونیورسٹی بنی نہ اصفہان میں‘ نہ آگرہ میں۔ 
برطانیہ کے پاس تاج محل ہے نہ شاہی قلعہ لیکن ان کے پاس ایسی یونیورسٹیاں ہیں جن میں قدم دھرنے کے لیے کئی سو سال سے ذہین و فطین طلبہ میں مقابلے ہو رہے ہیں۔ الازہر یونیورسٹی زمانے کا ساتھ نہ دے سکی۔ اسلامی اور غیر اسلامی علوم کی تقسیم نے مسلمانوں کو تباہ و برباد کردیا۔ جس امت کو بتایا گیا تھا کہ علم جہاں بھی ہو مسلمان کی میراث ہے‘ اس امت نے بالعموم اور اس کے علما نے بالخصوص علوم و فنون کو ''غیر مذہبی‘‘ کہہ کر طلاق دے دی اور چند کلیوں پر قناعت کر کے حجرہ نشین ہو گئے۔ اس لکھنے والے نے مراکش کے قدیم شہر فاس (FEZ) میں عالی شان عمارتیں دیکھیں جن میں کبھی یونیورسٹیاں تھیں‘ یہ یونیورسٹیاں کوتاہ نظری اور ضد کی بدولت ''مدرسوں‘‘ میں تبدیل ہو گئیں اور دنیا نے ان سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ 
''گو امریکہ گو‘‘ اور ''مرگ بر امریکہ‘‘ کہنا آسان ہے اور یہ سمجھنا مشکل کہ ہارورڈ یونیورسٹی 1636ء میں بن چکی تھی۔ 1701ء میں ییل یونیورسٹی‘ 1746ء میں پرنسٹن یونیورسٹی اور 1754ء میں کولمبیا یونیورسٹی میں کلاسیں ہو رہی تھیں۔ ان حکومتوں اور عوام نے یونیورسٹیوں کو ایک خاص ماحول دیا جن میں مار دھاڑ تو دور کی بات ہے‘ سیاست اور تفرقہ بازی کی گنجائش ہی نہ تھی۔ برٹرنڈ رسل اپنی آپ بیتی میں لکھتا ہے کہ اس نے یونیورسٹی میں دیکھا کہ کینز (KEYNES) سائیکل پر سوار جا رہا تھا۔ یہ ماحول ہمارے ہاں بھی آیا مگر کسی اور کے طفیل۔ محمد حسین آزاد گھوڑے پر سوار اورینٹل کالج آتے تھے یا کالج سے جاتے تھے تو دائیں بائیں طلبہ کتابیں اٹھائے ساتھ ساتھ ہوتے تھے۔ کچھ نے کتابیں کھولی ہوتی تھیں‘ آزاد چلتے چلتے پڑھاتے جاتے تھے۔ اس ماحول کا آج کے ماحول سے موازنہ کیجیے جب یونیورسٹیوں میں اساتذہ جانیں بچانے کے لیے کونوں کھدروں میں دبک جاتے ہیں۔ طلبہ ڈنڈے اور لاٹھیاں اٹھائے ان کی مرمت کے لیے اِدھر اُدھر بھاگ رہے ہوتے ہیں۔ کچھ مُفسد جو اساتذہ کے گائون پہن لیتے ہیں‘ طلبہ کو اُکسا رہے ہوتے ہیں۔ جس ملک میں سیاسی مذہبی جماعت کا رہنما ٹیلی ویژن پر آ کر بے باکی سے اعتراف کرے کہ ہم نے اسّی فیصد ہوسٹل تو خالی کر ہی دیے ہیں‘ اس ملک میں تعلیم کی حالت پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ع 
تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو! 
سیاسی جماعتوں کے ایامِ تاسیس یونیورسٹیوں کے اندر منائے جاتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر علم دشمنی کیا ہو سکتی ہے! 
اتنا وقت نہیں تھا کہ گجرات یونیورسٹی کی لائبریری دیکھتے۔ اقبال کے حوالے سے تقریب تھی۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ پروفیسر فتح محمد ملک‘ ڈاکٹر خالد مسعود اور خورشید ندیم جیسے سکالر موجود تھے۔ راقم بھی مدعو تھا۔ اقبال کے حوالے سے باتیں ہوئیں اور کھل کر ہوئیں۔ کچھ باتیں ایسی بھی تھیں جو اس ملک میں یونیورسٹی سے باہر شاید کی ہی نہ جا سکیں۔ امید ہے یہ باتیں مدرسہ تک نہیں پہنچائی گئی ہوں گی کہ شاعر کو جب بتایا گیا تھا کہ تمہارے شعروں کی وجہ سے اہلِ مدرسہ تمہیں کافر کہہ رہے ہیں تو اس کا جواب یہ تھا کہ شعرِ من بمدرسہ کہ بُرد؟ میرے اشعار کو مدرسہ میں لے کر گیا کون ہے؟ 
اسلامی فقہ کی تدوینِ نو‘ سیاسیاتِ حاضرہ کے حوالے سے اقبال کی نظم و نثر کا مطالعہ‘ عالمِ اسلام میں موجود دو متحارب نظریاتی گروہ غرض بہت سے موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ آخر میں وائس چانسلر صاحب نے طلبہ کو مقررین سے سوالات کرنے کی اجازت دی۔ ایک سوال بہت ہی دلچسپ اور عبرت ناک تھا۔ ایک صاحب نے پوچھا کہ ساری باتیں تو کی گئی ہیں لیکن یہ کسی نے بتایا ہی نہیں کہ اقبال ولایت کے کس منصب پر فائز تھے؟ اس کا جواب ان سطور کے لکھنے والے نے دیا کہ ولایت کا منصب کسی سرکاری عہدے کی طرح نہیں جس کا گزٹ نوٹیفیکیشن کیا جائے۔ اولیاء اللہ اعلان اور تشہیر نہیں کرتے۔ انہیں تو ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ رہے اقبال‘ تو انہوں نے اپنے آپ کو قلندر کہلانا پسند کیا تھا ؎ 
بیا بہ مجلسِ اقبال و یک دو ساغر کش 
اگرچہ سر نہ تراشد‘ قلندری داند 
تجسس تھا کہ کیا اس خوبصورت یونیورسٹی میں بھی سیاسی جماعتوں کی ''پراکسی وار‘‘ ہو رہی ہے یا تاحال بچی ہوئی ہے؟ یہ سطور لکھتے وقت یونیورسٹی کے فوکل پرسن پروفیسر شیخ عبدالرشید سے معلومات اخذ کرنے کے لیے رابطہ کیا مگر وہ ایک تقریب میں گرفتار تھے۔ دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ یونیورسٹی نام نہاد سٹوڈنٹس پالیٹکس سے محفوظ رہے اور کسی رنگ کے جھنڈے کا بھی یہاں دخل نہ ہو۔ 
ضربِ کلیم میں اقبال نے ایک باب باندھا ہے جس کا عنوان ''تعلیم و تربیت‘‘ رکھا ہے۔ یہ باب اس قابل ہے کہ ہر یونیورسٹی‘ ہر کالج اور ہر مدرسہ کے طلبہ کو پڑھایا جائے۔ اس میں اقبال جہاں کہتے ہیں کہ ؎ 
فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب 
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف 
وہاں یہ دہائی بھی دیتے ہیں کہ ؎ 
شیخِ مکتب کے طریقوں سے کشادِ دل کہاں 
کس طرح کبریت سے روشن ہو بجلی کا چراغ! 
(کبریت ماچس کو کہتے ہیں) 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں