…ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں!

جنوب کے ساحلی شہر سے شوکت عابد آئے۔ نغزگو شاعر اور Practicing صوفی! ایسے کہ خلقِ خدا سے چھپتے پھریں۔ اُن تاجروں سے یکسر مختلف جو ہر ''تصنیف‘‘ کے ٹائٹل پر روحانیت یا فقیر کا لفظ چسپاں کرتے ہیں اس لیے کہ تشہیر ایک فن ہے! تقاریظ کے ڈھیر لگاتے ہیں اور ہٹی چمکاتے ہیں۔ شوکت عابد اور دل نشین شاعری کرنے والے احمد جاوید دونوں جناب سیف اللہ اخوند زادہ سے بیعت ہیں۔ اخوند زادہ مزار شریف سے منڈی کس آئے اور وہاں سے لاہور۔ یوں سمجھیے اہلِ شعر نے شوکت عابد اور احمد جاوید کے ہاتھ پیلے کیے اور رخصتی کردی۔ اب طریقت ان کا سسرال ہے اور شاعری میکہ۔ احمد جاوید نے ''ترکِ رذائل‘‘ پر کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب کی ہم پاکستانیوں کی سو فیصد تعداد کو اشد ضرورت ہے۔ 
شوکت عابد سے طویل عرصہ بعد ملاقات ہوئی۔ یادیں بند گوشوں سے یوں نکلیں جیسے پرانے ٹرنک کا ڈھکنا اٹھائیں تو خوشبوئیں بے حال کر دیتی ہیں ؎ 
گرم کپڑوں کا صندوق مت کھولنا ورنہ یادوں کی کافور جیسی مہک 
خون میں آگ بن کر اتر جائے گی یہ مکاں صبح تک راکھ ہو جائے گا 
اصل دوستی شوکت کے بڑے بھائی ثروت حسین سے تھی۔ ثروت حسین‘ جمال احسانی‘ افضال احمد سید اور یہ لکھنے والا۔ یہ ایک گروہ تھا جو ستر کے عشرے کے ا وائل میں غزل کے خاص ڈکشن اور لفظوں کی بنت سے الگ پہچانا گیا۔ جلیل عالی بھی اسی گروپ میں تھے لیکن ذرا سینئر‘ آج کل عالی کے بھاگ جاگے ہیں۔ نعتیں کہہ رہے ہیں‘ تسلسل اور خشوع خضوع کے ساتھ! نظموں میں بھی اور غزلوں میں بھی! 
ثروت حسین نے کمال کی شاعری کی۔ لیکن شکیب جلالی کی راہ پر چل نکلا ؎ 
سحر ہوگی تارے چلے جائیں گے 
یہ ساتھی ہمارے چلے جائیں گے 
تو کیا اِن اندھیرے مکانوں میں ہم 
یونہی دن گزارے چلے جائیں گے 
اُسے اندھیرے مکان راس نہ آئے۔ ملیر ریلوے سٹیشن سے گزرتی ٹرین کے گھومتے گونجتے پہیوں کے ذریعے وہ ابدی روشنی کی طرف چلا گیا۔ 
جمال احسانی جتنا خوبصورت شاعر تھا‘ اتنا ہی دلکش انسان تھا۔ کراچی ہی میں مشاعرہ تھا۔ کمپیئر سے کہنے لگا فلاں شاعر کو سب سے پہلے پڑھوائو۔ اس نے جواب دیا کہ سب سے پہلے ہی پڑھے گا۔ جمال نے کہا نہیں! یار! اسے مزید پہلے پڑھوائو۔ شاید ہی کبھی ایسا ہو کہ کراچی میں نازل ہونے کا اسے علم ہوا ہو اور لنچ یا ڈنر پر مدعو نہ کیا ہو۔ بیمار ہو گیا اور بہت زیادہ بیمار۔ لیکن پرہیز اس کی سرشت میں نہ تھا ؎ 
تمام تیشہ بدست حیرت میں گم ہوئے ہیں 
چراغ سے کاٹ دی ہوا کی چٹان میں نے 
وہ ستارہ بدست رخصت ہو گیا ؎ 
یہ لالٹین ہے کہ چوکیدار کے 
نحیف ہاتھ میں کوئی ستارہ ہے 
افضال احمد سید‘ ایک زمانہ تھا کہ شمال کی طرف آتے تو کلبۂ احزاں کو رونق بخشتے۔ اب کراچی میں گم ہیں اور کراچی ان میں... غزل سے نظم کی طرف گئے اور واپس نہ آئے۔ 
کیا زمانہ تھا کہ کراچی میں سیکٹر کمانڈر نہیں‘ شاعر اور ادیب ہوتے تھے‘ امن و عافیت تھا اور یورپ سے لوگ بسنے آتے تھے۔ قمر جمیل کہ سلیم احمد کے بعد شاعروں کی پناہ گاہ تھے‘ ان دنوں الاعظم سکوائر سے ذرا شمال کی طرف یُوکے پلازا میں قیام پذیر تھے۔ اس لکھنے والے کی محبت میں بہت سے دوستوں کو بلایا۔ پہلی بار رساؔ چغتائی کو وہیں دیکھا۔ چھریرا بدن‘ شیروانی‘ سبزۂ خط‘ جیسے بانکے تھے اور ابھی ابھی لکھنؤ سے آئے تھے۔ مدتوں بعد تاشقند کے چغتائی بازار میں گھومتے ہوئے رساؔ یاد آتے رہے ؎ 
لڑ رہا ہوں رساؔ قبیلہ وار 
میر و مرزا کے خاندان سے دور 
رساؔ جتنے با کمال شاعر تھے‘ ساحلی شہر نے اتنی پذیرائی ان کی نہیں کی! یوں بھی اس شہرِ بے مثال کے باشندوں نے شاعری کو دفتر بے معنی گردانتے ہوئے غرقِ مئے سیاست کردیا! مشاعرے پیشہ ور گویوں نے شاعر بن کر ترنم سے لُوٹ لیے۔ ساتھ ہی سیاسی مافیا کی ادب و شعر میں دراندازی شروع ہوئی جو ختم ہونے میں آ ہی نہیں رہی۔ بس یہی وہ دونوں سیہ بختیاں ہیں جنہوں نے اعلیٰ تخلیق کاروں کو گوشۂ تنہائی میں بند کردیا اور ایک ایک دو ''مترنم‘‘ غزلیں تھیلے میں ڈالے کچھ اصحاب پوری دنیا میں اس شہر کی نمائندگی کرتے پھر رہے ہیں! پھیکی اور بے اثر نمائندگی! 
پھر ایک عرصہ ذکاء الرحمن کا گھر ہمارا چوپال بنا رہا۔ کراچی جاتے‘ سامان ہوٹل میں رکھتے اور ڈیفنس میں گِزری اور سعودی قونصلیٹ کے قریب واقع ذکا کے گھر کا رُخ کرتے۔ صغیر ملال مرحوم بھی وہیں آ جاتا۔ شعر و فلسفہ پر گفتگو رہتی۔ ذکا کی مسحور کُن خارا شگاف نثر سنتے‘ یوں ہی صبح ہو جاتی۔ ایک بار مزدوری کے سلسلے میں بمبئی جانا تھا۔ رات بھر ذکا کے گھر میں بحث مباحثہ رہا۔ صبح سویرے فلائٹ تھی۔ آنکھوں میں تیرتی نیند‘ دن بھر مزدوری‘ شام کو فضیل جعفری کا اپارٹمنٹ تلاش کرنا تھا۔ تلاش کیا کرتے‘ رکشے میں بیٹھتے ہی نیند نے دبوچ لیا! 
آج وہی شہرِ بے مثال‘ عاشق کا پیرہن بن گیا ہے۔ گریباں چاک‘ دامن تارتار‘ دھجی دھجی الگ‘ بخیہ بخیہ ادھڑا ہوا‘ پیوند تک پارہ پارہ ہو رہے ہیں۔ کوئی ہے جو شہر آشوب لکھے؟ 
جس کے لیے اک عمر کنوئیں جھانکتے گزری 
وہ ماہِ کراچی مہِ کنعاں کی طرح تھا 
جینا تو غضب ہے مگر اے عمر عجب ہے 
تجھ کو تو خبر ہے وہ مری جاں کی طرح تھا 
پورے سائوتھ ایشیا اور پورے شرقِ اوسط میں جو شہر عافیت کا مرکز تھا‘ حسن و جمال کا گہوارہ تھا‘ تجارت‘ صنعت اور بینکنگ کا ابھرتا ہوا نیویارک اور ٹوکیو تھا‘ آج خون میں نہا رہا ہے۔ تاجر محفوظ رہے نہ کارخانہ دار‘ دکاندار‘ نہ گھر میں چھپ جانے والا۔ کہیں گینگ وار ہے‘ کہیں پولیس کے جوانوں اور افسروں کو چُن چُن کر قتل کیا جا رہا ہے۔ کہیں اغوا برائے تاوان انڈسٹری کی طرح پھل پھول رہا ہے‘ کہیں بھتہ خوری عروج پر ہے۔ ریاست عنقا ہے‘ حکومت کا یہ حال ہے کہ پولیس کے سازو سامان کی خریداری میں بھی کمیشن کھانے کے معاملات ہیں۔ کہیں سوتیلا بھائی ہے‘ کہیں صاحبزادے نے کابینہ تک الگ بنا رکھی ہے۔ شہر خون میں نہا رہا ہے اور حکومتی کارندوں کو دبئی میں طلب کیا جاتا ہے۔ وزیراعظم‘ وزیر داخلہ‘ وزیراعلیٰ‘ کوئی کسی ایک پیج پر نہیں! اجلاس منعقد ہوتے ہیں۔ انعقاد ہی پر لاکھوں روپے صرف ہو جاتے ہیں۔ پروٹوکول کا غلغلہ ہے۔ موٹروں کے جلوس ہیں۔ ضیافتیں ہیں۔ مراعات سے چھلکتے مناصب ہیں جن پر وہی فائز ہوتے ہیں جو نواب شاہ یا رائے ونڈ تک رسائی رکھتے ہیں۔ سکیورٹی کا یہ عالم ہے کہ جو صرف دو بار لُٹتا ہے‘ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہے۔ رینجرز الگ حیران ہیں کہ صوبائی حکومت اور وفاق کا کسی نکتے پر اشتراک ہی نہیں۔ کبھی علما قتل ہو رہے ہیں کبھی ڈاکٹر‘ کبھی سیاستدان کبھی جج۔ سعدی نے بغداد کا مرثیہ لکھا تھا ع 
آسمان را حق بود گر خون ببارد برزمین 
کہ آسمان زمین پر خون بھی برسائے تو جائز ہے! اندازہ لگایئے‘ صورت حال کیا ہے۔ کراچی شہر میں گورنر ہے‘ وزیراعلیٰ ہے‘ سیاسی جماعتوں کے سرپرست ہیں‘ ہر جماعت کے بیسیوں عمائدین ہیں۔ اس کے بعد وزیروں کی فوج ظفر موج ہے۔ ہر وزیر کی اپنی ایمپائر ہے۔ پھر سیکرٹری ہیں جو درجنوں ہیں۔ پولیس کے بڑے افسر ہیں۔ افسر شاہی کے جتھوں کے جتھے ہیں۔ یہ سب محلات میں رہتے ہیں۔ ان کے دفاتر بھی محلات جیسے ہیں۔ ہر دفتر میں مہمانوں کی نشست گاہیں‘ گراں ترین ٹیلی ویژن‘ کئی کئی ٹیلی فون‘ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے کنکشن ہیں۔ سرکاری گارڈ ہیں۔ سرکاری مراعات ہیں۔ سرکاری اسلحہ ہے۔ سرکاری فنڈ ہیں۔ تعیناتیاں‘ ترقیاں اور تبادلے ہیں۔ دوڑیں لگ رہی ہیں۔ گورنر‘ وزیراعلیٰ‘ وزرا اور سیاسی پارٹیوں کے عمائدین ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں تو حاجب‘ نقیب اور پہریدار ہٹو بچو کا شور برپا کرتے ہیں۔ غرض کروڑوں کے اخراجات ہیں اور اربوں کے بجٹ ہیں... اور اس سب کا حاصل؟ خون میں نہاتے اور خوف سے تھرتھر کانپتے عوام!! 
جون ایلیا نے درست کہا تھا: 
گزشتہ عہد گزرنے ہی میں نہیں آتا 
یہ حادثہ بھی لکھو معجزوں کے خانے میں 
جو رد ہوئے تھے جہاں میں کئی صدی پہلے 
وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں