آپ کا کیا خیال ہے بلاول بھٹو زرداری سکھر تشریف لے گئے تو ان کے ''قافلے‘‘ میں کتنی گاڑیاں تھیں؟پانچ‘ دس‘ پندرہ۔ نہیں! جناب! پینتیس ۔ خفیہ والوں کی قسم قسم کی گاڑیاں‘ جو شہر کے مختلف حصوں میں آدم بو آدم بو کرتی پھر رہی تھیں‘اس کے علاوہ تھیں۔ تمام محلے بازار گلی کوچے بند تھے۔شہر کو سیل کر دیا گیا۔شہری اپنے گھروں کی کھڑکیوں سے عظیم الشان قافلے کو دیکھتے رہے۔کیا خوش قسمتی ہے سکھر کے شہریوں کی۔ایک ہی جست میں تین ساڑھے تین سو برس کا فاصلہ طے کر کے جہانگیر اور شاہ جہان کے عہد ہمایونی میں پہنچ گئے۔شہزادوں کے قافلے ہاتھیوں پر سوار‘ آگرہ‘ دہلی اور لاہور کے گلی کوچوں سے گزرتے تھے تو گلی کوچوں میں ہو کا عالم ہوتا تھا۔شہر اسی طرح سائیں سائیں کرتا تھا جیسے سکھر کا شہر بلاول بھٹو زرداری کی آمد پر سائیں سائیں کر رہا تھا۔یہاں یہ وضاحت لازم ہے کہ سائیں سائیں سے مراد وہ سائیں نہیں جو ''مینڈا سائیں‘‘ ہوتا ہے۔اس سے مراد وہ سائیں سائیں ہے جس کا ذکر ناصر کاظمی نے کیا ہے ؎
دل تو میرا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
پیپلز پارٹی کے باقی زعما کو تو چھوڑیے‘طالب علم کا اتنا حق تو ہے کہ اعتزاز احسن اور رضا ربانی جیسے چوٹی کے دانشوروں سے دستہ بستہ سوال پوچھے کہ کیا یہ وہ جمہوریت ہے جس کے لیے پارلیمنٹ میں دھواں دار تقریریں کی گئی ہیں؟پھر خیال آتا ہے کہ پیپلز پارٹی میں دانش کی قدر ہی کیا ہے! پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے اعتزاز احسن نے اپنی اور اپنے خاندان کی خدمات کا ذکر کیا۔یہ ایک نسل کی نہیں‘تین نسلوں کی جدوجہد کی کہانی تھی۔رضا ربانی کے والد گرامی قائد اعظم کے ساتھ کام کرتے رہے۔کتاب تصنیف کی۔ رضا ربانی کی آئینی اور دستوری حوالے سے نمایاں خدمات ہیں لیکن وزارت عظمیٰ کے لیے ''پارٹی‘‘ کی نظر پڑی تو پہلے جناب یوسف رضا گیلانی پر اور بارِ دگر پڑی تو جناب راجہ پرویز اشرف پرع
ببین! تفاوتِ رہ از کجاست تا بہ کجا
پھر پارٹی کے لیے ان دانشوروں کی یہ خدمات کیا کم ہیں کہ حج سکینڈل زمین سے آسمان تک جا پہنچا۔ ڈیزائنر سوٹوں سے بھرے ہوئے کنٹینروں اور ٹرکوں کی رپورٹیں گلف نیوز تک جا پہنچیں‘ایم بی بی ایس کا مطلب میاں بیوی بچوں سمیت مشتہر ہو گیا‘ صاحبزادے نے تنک کر اعلان کیا کہ ایک کیا‘ ایسی بلٹ پروف گاڑی ایک اور خرید سکتا ہوں لیکن چوٹی کے دانشور چوٹی سے نہ اترے۔اُف تک نہ کی‘احتجاج کی کوئی صورت نہ اپنائی۔تو پھر شہزادے نے مغل دور کی یاد تازہ کر دی تو احتجاج کیا‘ہلکا سا سایہ بھی ردِ عمل میں کس طرح دکھائی دے!!
کیا کوئی پوچھ سکتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی آمد پر شہر کے گلی کوچے کیوں بند ہوئے۔درجنوں گاڑیاں کس حساب سے ساتھ تھیں؟وہ حکومت میں نہیں ہیں(ہوتے بھی تو کیا یہ جائز تھا؟) کیا ان کی کوالی فکیشن یہ ہے کہ وہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے فرزند ہیں؟ کیا یہ اہلیت بادشاہی جلوس کا جواز پیدا کرتی ہے؟پارٹی کے چیئرمین ہیں! کیسے؟کس حساب سے؟کیا پارٹی کے اندر انتخابات ہوئے؟کیا انہوں نے چیئرمین کا الیکشن لڑا؟ان کے مقابلے میں کون تھا؟یہ الیکشن کس کس صوبے میں کس کس مقام پر لڑا گیا‘انہیں کتنے ووٹ ملے؟وہ کتنے عرصہ کے لیے پارٹی کے چیئرمین ہیں؟جناب خورشید شاہ کو تو مرفوع القلم گردانیے‘ جناب اعتزاز احسن اور جناب رضا ربانی ہی ان سوالوں کے جواب مرحمت فرما دیں!!
اب اس بے تصویر المناک داستان کا دوسرا حصہ سنیے۔وزیر اعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کے لیے نیو یارک پہنچ رہے ہیں۔وہ ایک گراں بہا لگژری ہوٹل میں قیام فرمائیں گے۔امریکی صدر اوباما بھی اسی ہوٹل میں قیام کریں گے۔حکام تو خیر حکام ہیں‘ذاتی ملازمین بھی وہیں ٹھہریں گے‘کل تعداد وفد کے ارکان کی پچیس بتائی جا رہی ہے۔یہ دورہ اس بھوکی ننگی قلاش نادار قوم کو‘ سی این جی کے لیے دس دس گھنٹے سڑکوں پر گزارنے والی اس سیاہ بخت قوم کو‘ پانچ کروڑ ساٹھ لاکھ روپے میں پڑے گا۔ یہ تخمینہ ہے ۔اصل میں یہ رقم کہاں جا پہنچے گی‘ واپسی پر معلوم ہو گا ۔وہ بھی اس صورت میں کہ کسی نے حساب لگایا تو۔
کیا آپ نے نوٹ نہیں کیا کہ امریکی صدر اور پاکستانی وزیر اعظم کا معیارِ زندگی ایک ہی ہے۔صرف نیو یارک میں قیام کی حد تک!ورنہ امریکی صدر رائے ونڈ کے محلات اور لندن کی جائیدادکا تصور تک نہیں کر سکتا۔اوباما جس ملک کا صدر ہے اس ملک کی فرماں روائی پورے کرہ ارض پر ہے۔پانامہ کی نہر سے لے کر فجی کے جزیروں تک۔ پتا بھی اس ملک کی مرضی کے بغیر نہیں ہل سکتا۔جنہوں نے نافرمانی کی‘مزا چکھ لیا۔صدام حسین اور معمر قذافی یوں مٹے جیسے تھے ہی نہیں۔ افغانستان پتھر کے زمانے میں پہنچ گیا۔سڑک ہے نہ کارخانہ‘ سکول ہے نہ تھانہ!اس طاقت ور ترین ملک کا صدر اوباما جس ہوٹل میں ٹھہرے گا‘ بھوک سے ایڑیاں رگڑتے اور نسلوں تک قرضوں میں جکڑے پاکستان کا وزیر اعظم اور اس کے ذاتی ملازمین بھی سرکاری خرچ پر اسی ہوٹل میں قیام کریں گے!!
عمران خان اور طاہر القادری کیا جانیں کہ طمطراق اور تزک و احتشام کیا ہوتا ہے ع
توں کیہ جانیں بھولیے مجَھے نارکلی دیاں شاناں
دخل در معقولات دینے والے یہ ناعاقبت اندیش! بادشاہوں اور شہزادوں‘ملکانیوں اور شہزادیوں کے مقام سے ناآشنا یہ گستاخ!یہ گنوار!! انہیں کیا خبر کہ ٹیکس دہندگان کے پیسے سے لطف اندوزی کیا چیز ہے! انہیں تو حکومت کرنے کا تجربہ ہی نہیں! جنہیں تجربہ ہے‘ ان سے پوچھئے کتنے مزے ہیں!