ہم سلہٹ سے شمال کی طرف جا رہے تھے۔ بھارتی سرحد چالیس میل کے فاصلے پر تھے۔ تمابیل اس سرحدی چوکی کا نام تھا۔ درخت گھنے تھے۔ پھر باغات آ گئے۔ دفعتاً ایک موڑ آیا اور جیپ رک گئی۔ آگے خاردار تارتھی۔ سامنے بھارت تھا اور پہاڑ اس پار تھا۔ دو چمکتے آبشار بلندی سے گر رہے تھے۔ تھوڑی سی جگہ چھوڑ کر ایک اور خاردار تار تھی۔ وہ بھارت کی تھی۔ درمیانی جگہ نومین لینڈ تھی۔ ایک چھوٹا سا محرابی ستون سرحد کی نشان دہی کر رہاتھا۔ اس پر لکھا تھا۔''1275۔ پاکستان‘‘ غالباً یہ سرحد کا 1275 واں ستون تھا۔
یہ سڑک آسام کے دارالحکومت شیلانگ کو جا رہی تھی۔ انگریز آئے تو شیلانگ کے اردگرد پہاڑیوں نے انہیں سکاٹ لینڈ یاد دلایا۔ اس کے بعد شیلانگ کو مشرق کا سکاٹ لینڈ کہا جانے لگا۔ سلہٹ سے شیلانگ کا زمینی راستہ ایک سو 71 کلومیٹر تھا۔ تقسیم سے پہلے سلہٹ آسام ہی کا حصہ تھا۔
ایک مدت بعد... احباب کے اصرار پر...یادداشتیںترتیب دینے کا مشکل کام شروع کیا۔ کیسا جانکاہ کام ہے۔ اگر انصاف سے کہا جائے تو سانس پھول پھول جاتی ہے۔ ہاںاگر ضابطہ یہ ہو کہ دوسروں کے بارے میں سارا سچ اور اپنے متعلق صرف وہ لکھو‘ جو راس آئے تو اور بات ہے۔ سبزہ زاروں اور پارکوں کے شہر میلبورن میں یہ کام... جو چیونٹی کی رفتار سے بڑھ رہا ہے... آغاز کیا۔ انہی دنوں مارک ٹوین کی خودنوشت منظر عام پر آئی۔ چالیس ڈالر میں فوراً خریدی۔ سات سو ساٹھ صفحات پر مشتمل یہ صرف حصہ اول تھا! موصوف 1910 ء میں اس دنیا سے روٹھے اور وصیت کر گئے کہ خودنوشت سو سال بعد شائع کی جائے کیونکہ اس طرح وہ ہر بات ''فرینک‘‘ ہو کر لکھیں گے۔ مصیبت یہ آن پڑی کہ مارک ٹوین کو تو ہر شخص جانتا ہے۔ جن کے بارے میں انہوں نے''فرینک‘‘ ہو کر سب کچھ لکھ ڈالا‘ انہیں اب سو سال بعد کوئی بھی نہیں جانتا۔ لیکن یہ ساری باتیں ضمنی ہیں۔ بتانا یہ مقصود تھا کہ مارک ٹوین نے کمال کا ایک ضابطہ طے کیا اور دوسروں کو بھی یہی مشورہ دیا۔ کوئی ضروری نہیں کہ خودنوشت پیدائش سے شروع ہو اور زمانی ترتیب سے چلے۔ مڑ کر اپنی زندگی پر نظر ڈالو۔ جو قطعہ حیات دل کو خوش آتا ہے، اسی سے شروع کر دو... چنانچہ زندگی کی کہانی ڈھاکے یونیورسٹی میں قیام سے ابتدا کی کہ عمر کا یہ ٹکڑا باغوں سے بھرا ہوا اور بادلوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ بڑے اور محرومِ توجہ شاعر جعفر طاہر نے اپنی معرکہ آراء شعری تصنیف...ہفت کشور... میں لکھا تھا۔ عمرڈھکنی سے اک شہر ڈھکا اور ڈھاکہ جس کا نام!!
تمابیل کی بھارتی سرحد کا لکھتے وقت یونہی ایک خیال سا آیا کہ پلوں کے نیچے سے پانی بہت بہہ چکا ہے۔ کیا اب بھی شیلانگ ہی آسام کا دارالحکومت ہے؟ جھانکا تو دنیا ہی بدل چکی تھی۔ کونسا شیلانگ اور کونسا آسام؟ بھارت نے آسام کے بطن سے ایک اور ریاست (کہ صوبے کو وہاں ریاست کہا جاتا ہے) نکالی۔ نام اس کا ''میگھا لایا‘‘ رکھا۔ شیلانگ میگھالایا کو ملا۔ آسام کو نیا دارالحکومت ڈھونڈنا پڑا۔ قرعہ فال گوہاٹی کے نام نکلا۔
نئے صوبوں کے حوالے سے ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کالج کے لڑکوں کی طرح جھگڑ رہے ہیں۔ سندھ سے تحریک انصاف کے لیڈر اکمل لغاری نے سندھ کی تقسیم کے خلاف بیان دیا۔ جواب آں غزل کے طور پر ایم کیو ایم نے پارلیمنٹ سے واک آئوٹ کا مظاہرہ کیا۔ پھر تین تلوار چوک پر دھرنا دیا جس سے خوش گفتار خوش بخت شجاعت نے خطاب کیا۔ ایم کیو ایم نے Euphemism کی چھتری تلے پناہ لی اور کہا کہ ہم تو نئے صوبوں کی بات ہی نہیں کر رہے۔ ہم تو انتظامی یونٹ بڑھانے کی بات کر رہے ہیں۔ یہ ایک جائز، منطقی اور ضروری مطالبہ ہے۔ تحریک انصاف اگر اندرون سندھ اثرورسوخ بڑھانے کیلئے اس کی مخالفت کر رہی ہے تو اصولی غلطی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ یہ غلطی کل اس کے گلے بھی پڑ سکتی ہے۔ خود طاہرالقادری صاحب نے دھرنے کی ابتدائی تقریروں میں ایک درجن ملکوں کی مثالیں دی تھیں جہاں صوبوں، ریاستوں یا انتظامی اکائیوں کی تعداد کثیر ہے! ایران میں تیس صوبے ہیں۔ اٹلی کے بیس ریجن ہیں اور ایک سو دس صوبے ہیں۔
لیکن اصل سوال اور ہے۔ کیا ہم لسانی بنیادوں پر نئے صوبوں کے متحمل ہوسکتے ہیں؟ بھارت نے 1956ء میں... ریاستوں کی تنظیم نو ایکٹ پاس کیا جس کی روسے لسانی خطوط پر نئی ریاستیںوجودمیں آئیں۔ ابھی چند ماہ پہلے آندھرا پردیش کو دو حصوں میں بانٹ کر تلنگانہ ریاست بنائی گئی۔ 2000ء میں چھتیس گڑھ ریاست ابھری۔1966ء میں ہریانہ بنا۔ 1971ء میں ہماچل پردیش۔2000ء میں ہی جھاڑکھنڈ ریاست بنائی گئی۔ تری پورہ بنگلہ دیش کی سرحد پر کھڑی کی گئی۔ اترکھنڈ، یوپی سے نکالی گئی۔
لیکن بھارت اور پاکستان میں فرق ہے۔ وہاں تو عشروں سے علیحدگی پسند تحریکیں چل رہی ہیں۔ اب تک کوئی علیحدگی ہوئی نہ ان کے عساکر نے سول حکومت کے سامنے کبھی سر اٹھایا۔ ادارے وہاں مضبوط ہیں۔ اس حد تک کہ الیکشن کمیشن، ایک وزیر کو انتخابی مہم سے روکنے پر قادر ہے کہ اس نے سرکاری گاڑی کا استعمال کیا! وہاںکسی کو غدار کہا جاتا ہے نہ پاکستانی ایجنٹ۔
سندھ میں صوبے بنائیں یا انتظامی یونٹ لیکن اس امرکا خیال رہے کہ لسانی تلوار کی دھار زیادہ تیز نہ ہو جائے۔ وہ بیج جو آمر کے بیٹے نے جلوس نکال کر اور ٹیلنٹڈ کزن نے مار پیٹ کر بویا تھا‘ اگر پودا بن چکا ہے تو خدا کیلئے اسے تناور درخت نہ بننے دیجیے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کراچی ہی کو دو یا تین حصوں میں تقسیم کرکے ہر نئے یونٹ کا صدر مقام بنایا جائے تاکہ اس ساحلی شہر سے احساس محرومی کا شکار کوئی اکائی نہ ہو۔
آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے۔ ہر قدم الٹا پڑتا ہے اور ہر وار اپنے ہی سینے پر۔ پہلے ون یونٹ بنایا گیا تاکہ مشرقی پاکستان کی عددی اکثریت کو ٹیکنیکل مار دی جائے۔ رجعت قہقری کی یہ بدترین مثال تھی۔ کوتاہ نظر رہنما مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت سے عاری تھے۔ آنکھوں کی پتلیوں پر مفادات کی جھلی تھی جو جلد ہی سفید موتیے میں تبدیل ہو گئی۔
یحییٰ خان نے 1970ء میں ون یونٹ تحلیل کیا تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی نوشتہ دیوار بن چکی تھی۔ تب سے آج تک صوبے کہیں یا انتظامی یونٹ، اتنے ہی ہیں۔ شمالی علاقہ جات کا صوبہ بنا۔ یہ ایک مستحسن اقدام تھا۔ مزید صوبے نہ بنائے گئے تو خود بن جائیں گے۔ خود بن جانا، بنائے جانے سے بدتر اقدام ہوگا۔ اے این پی کے بزرجمہروں نے نئے نام میں ایک لفظ کا اضافہ کرکے صوبے کے غیر پختون عناصر کو احساس محرومی کے گڑھے میں دھکیلا۔ جنوبی پنجاب کا صوبہ منطقی اور اقتصادی ضرورت ہے۔ وسطی پنجاب کا حکومتی ٹولہ پنجاب کے مغربی اضلاع سے مکمل طور پر بے نیاز ہے اور غافل...
اگلے وقتوں کے دارالحکومتوں میں ہر پیشے کے ماہرین آباد کیے جاتے تھے۔ یہ تعداد بتیس سے بھی زیادہ ہوتی تھی۔ تاہم محاورہ بتیس ذاتوں کا ذکر کرتا ہے۔ ان میں زین ساز بھی ہوتے تھے‘ شمشیر ساز بھی اور جلد ساز بھی۔ ان کی نظریں آج کے فیصلہ سازوں کی نظر سے زیادہ تیز ہوتی تھیں۔ ہے کوئی طبیب جو کہیں سے انہیں کوئی سرمہ لا دے!!