بیکی اینڈرسن مشہورعالم صحافی اور اینکر پرسن ہے۔ مانچسٹر میں پیدا ہونے والی اس خاتون نے معاشیات اور فرانسیسی زبان کی تعلیم اپنے وطن سے حاصل کی۔ پھر امریکہ سے ابلاغ عامہ کی ڈگری لی۔ اس کی وجہِ شہرت اس کا پروگرام Connect the Worldہے جو وہ کئی سال سے سی این این پر کررہی ہے۔
بیکی اینڈرسن کو کبھی لفظ تلاش نہیں کرنے پڑے۔ لغت اس کے سامنے دستہ بستہ کھڑی رہتی ہے۔ جیسی بھی صورتِ حال ہو، اس کی روانی، زبان پر اس کی گرفت ، مخاطب کو خاموش کردینے کی صلاحیت کبھی کم نہیں ہوتی۔ بس ایک بار وہ ہار گئی۔ اس کی زبان گنگ ہوگئی۔ اس کے دماغ میں موجیں مارتا لغت کا سمندر سوکھ گیا۔ الفاظ، جو اس کے سامنے غلاموں کی طرح تھے ،بغاوت کرگئے اور وہ انہیں ڈھونڈتی رہ گئی۔یہ2012ء کی بات ہے۔ وہ وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی کا انٹرویو کررہی تھی۔ انٹرویو کے دوران وہ اپنا کمال فن برابر دکھاتی رہی۔ اس نے کئی بار وزیراعظم کو ٹوکا، مداخلت کی اور حاوی رہی، لیکن آخر میں یوسف رضا گیلانی نے بیکی کو شکست دے دی۔
بیکی نے پاکستان کے وزیراعظم کو بتایا کہ تازہ ترین سروے کے مطابق پاکستانیوں کی ایک تہائی تعداد ملک سے چلے جانا چاہتی ہے۔ وزیراعظم کا جواب تھا...'' تو پھروہ چلے کیوں نہیں جاتے؟‘‘ بیکی یہ سن کر ہکا بکا رہ گئی۔ اس کی زبان گنگ ہوگئی۔ کیمرہ اس کے چہرے پر پڑرہا تھا اور اس کا چہرہ زبانِ حال سے کہہ رہا تھا کہ ...'' یہ ہے پاکستان کی لیڈر شپ !‘‘
اب وہ چاہتی تھی کہ صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے وزیراعظم کچھ حاضر جوابی دکھائے اور ایسی بات کرے جس سے بہتر معنی نکل سکیں۔ وہ خاموش رہی۔ وہ وزیراعظم کو موقع دینا چاہتی تھی، لیکن یوسف رضا گیلانی آگے سے مسکرا رہے تھے ۔ ان کا دوسرا فقرہ پہلے سے بھی بڑا بم تھا...'' انہیں کس نے روکا ہے؟ ...‘‘ اس کے بعد وہ مسکرائے۔ مسکراہٹ ایک کان کی لَو سے دوسرے کان کی لَو تک پھیل گئی۔ بیکی اینڈرسن کی سٹی گم ہوگئی !
پاکستانیوں کو ملک چھوڑ دینے کی یہ '' نصیحت‘‘ وزیراعظم کی طرف سے تھی نہ یوسف رضا گیلانی کی طرف سے ۔ یہ پورے حکمران طبقے کی طرف سے تھی۔ دوسرے لفظوں میں ایک دولت مند بااثر شخص کہہ رہا تھا کہ ...'' یہ ملک ہمارا ہے۔ اس میں وہ ہوگا جو ہم چاہیں گے۔ قانون، آئین، سیاست، پارلیمنٹ، ہر شے ہمارے مفادات کے تحفظ کے لیے ہے۔ ہم جسے چاہیں گولی ماریں، جسے چاہیں جیل میں پھینکیں، اگر کسی کو یہ سب کچھ منظور نہیں تو وہ یہاں سے چلا جائے۔‘‘
پاکستانیوں کو ملک چھوڑ دینے کی نصیحت کرتے وقت یوسف رضا گیلانی کسی ایک پارٹی کی نمائندگی نہیں کررہے تھے۔ وہ یہ تجویز ساری پارٹیوں، سارے سیاست دانوں کی طرف سے پیش کررہے تھے ۔ کیا مسلم لیگ نون، کیا پیپلزپارٹی، کیا قاف لیگ، کیا بی این اے ، کیا جے یو آئی ، سب یہی چاہتے تھے اور سب یہی چاہتے ہیں۔
مہینے گزر گئے ہیں، ماڈل ٹائون میں چودہ پاکستانی مار دیے گئے۔ چھیانوے زخمی کیے گئے۔ لیکن آج تک شنوائی ہوئی نہ انصاف ۔ پوری دنیا جانتی ہے ایف آئی آر کے مسئلہ کے ساتھ کیا سلوک کیاگیا۔ کیوں ؟ اس لیے کہ طاقت ور طبقہ ملوث تھا ! پیغام واضح تھا... ''ہم جسے چاہیں مار دیں، ہمیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ...‘‘ پارلیمنٹ میں جب حکمران پارٹی کی پشت پناہی کرتے ہوئے اس طبقے کے ارکان نے تقریروں سے شور قیامت برپا کیا تو فضل الرحمن سے لے کر اچکزئی تک۔ خورشید شاہ سے لے کر اعتزاز احسن تک۔ کسی نے مقتولین کا ساتھ نہیں دیا ! مسئلہ کلاس کا تھا!
اب یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کے گارڈ نے ایک بے قصور نہتے 23سالہ پاکستانی شہری کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ فضل الرحمن سے لے کر اچکزئی تک ، خورشید شاہ سے لے کر رضا ربانی اور اعتزاز احسن تک ۔ اسفند یار ولی سے لے کر شاہی سید تک۔ کسی نے احتجاج کیا ہے نہ اظہار افسوس! اس لیے کہ کلاس کا مسئلہ ہے۔ مارنے والا خاندان ان حضرات کے اپنے طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ پیغام اب کے بھی واضح ہے...'' ہم جسے چاہیں موت کے گھاٹ اتار دیں۔ کسی کو اعتراض ہے تو ملک چھوڑ جائے ...‘‘
کیا یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے کو پکڑنے کے لیے خادم اعلیٰ حکم دیں گے؟ کبھی نہیں ! میاں نوازشریف کو بچانے کے لیے آصف علی زرداری بنفس نفیس ، چل کر رائے ونڈ پہنچے۔ 74ڈشیں پکائی گئیں... تو اب زرداری صاحب کی جماعت کے ممتاز رکن کے صاحبزادے کو پکڑ لیاجائے ؟ یہ کیسے ممکن ہے۔ دلیل یہ دی جائے گی کہ صاحبزادے نے تو گولی نہیں چلائی۔ گولی تو گارڈ نے چلائی۔ ان سے کوئی پوچھے کہ اگر یہ اصول صحیح ہے تو ان سب کے مربی و محسن جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو کیوں پھانسی دی تھی ؟ قصور کے نواب پر بھٹو نے تو گولی نہیں چلائی تھی !!
23سالہ بے گناہ مقتول طاہر ملک کا جنازہ پرسوں اٹھا تو اس کی ماں کو غشی کے دورے پڑ رہے تھے۔ اس کی بہنیں بین کررہی تھیں۔ مقتول کے والد تنویر ملک کا کہنا ہے کہ اس کے بیٹے کوقتل کردیاگیا لیکن عبدالقادر گیلانی نے گاڑی روکی تک نہیں ! تنویر ملک کو کون بتائے کہ چیونٹیاں اور کیڑے مکوڑے گاڑیوں کے نیچے آجائیں تو گاڑیاں روکی نہیں جاتیں ! تنویر ملک یہ بھی کان کھول کر سن لے کہ جب تک شہباز شریف صوبے کے تخت پر بیٹھے ہیں، قتل کرنے والے گارڈ کے مالک کا بال بھی بیکا نہیں ہوسکتا۔ تنویر ملک یہ بھی اچھی طرح جان لے کہ بہت جلد گارڈ بھی چھوٹ جائے گا۔ تنویر ملک کو یہ سب کچھ پسند نہیں تو ملک چھوڑ دے ۔ آخر اس کے اور بیٹے بھی تو ہیں۔ کیا ان کی زندگی اسے نہیں درکار؟
تنویر ملک ! ہجرت کرجائو ! یہ ملک تمہارا نہیں ! یہ ملک ان کا ہے جو جسے چاہیں مار دیں اور ان کا ہے جو ان کے ساتھ ہیں !!