برصغیر کی جوشاہراہیں تاریخ کی گواہ ہیں، ان میں ایک بڑی گواہ ، ایک معتبر گواہ ، وہ شاہراہ ہے جو ٹیکسلا اور حسن ابدال کے سامنے سے گزر رہی ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ یہاں سے گزرتے وقت تاریخ کے ہجوم نے گھیر نہ لیا ہو۔ افغانستان پر جب بھی فوج کشی کی، اورنگزیب نے یہاں کیمپ کیا۔ کابل جاتے ہوئے اور واپسی پر، اکبر ضرور ٹھہرتا۔ برطانیہ نے سرحدی علاقہ پر قبضہ کرنے کے لیے ہیڈ کوارٹر یہیں رکھا۔ لیکن یہ تو قریب کے زمانے کی تاریخ ہے۔ ٹیکسلا نام ہی تاریخ کا ہے۔ بخارا اور سمرقند کو ''شہر کا شہر عجائب گھر‘‘ (سٹی میوزیم) کہا جاتا ہے اور دنیا بھر سے سیاحوں کے غول کے غول آتے ہیں۔ اس قلم کار نے سینکڑوں امریکی طلبہ کے قافلے وہاں اترتے دیکھے۔ اس لیے کہ سیاحت کا محکمہ اس ملک میں اور بہت سے دوسرے ملکوں میں سیاحت کے فروغ کے لیے کام کرتا ہے۔ ہمارے ہاں سیاحت کا محکمہ مخصوص افراد کی مالی منفعت اور سیاست دانوں کی '' تالیف قلب‘‘ کے لیے کام کرتا ہے۔ اغوا برائے تاوان اور قتل کا دھڑکا اس کے علاوہ ہے۔ ورنہ ٹیکسلا کہ عجائب گھروں کا عجائب گھر ہے، سیاحوں کے قافلوں کا مستقل مستقر ہوتا! خدا مغفرت کرے افسانہ نویس اور ڈرامہ نگار احمد دائود کی... کہا کرتا تھا کہ ٹیکسلا کے گلی کوچوں میں ایسے افراد زندہ چل پھر رہے ہیں جن کی صورتیں عجائب گھر میں رکھے مجسموں سے ملتی ہیں۔
سواریوں سے چھلکتی یہ شاہراہ ، جو ٹیکسلا کے دامن کو چومتی گزر رہی ہے، تاریخ کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹے سے گروہ پر بھی گواہ ہے جو افراتفری اور روا روی کے اس پُرآشوب عہد میں ہر بدھ کو انجینئرنگ یونیورسٹی کی بغل میں ، ایک کمرے میں بیٹھ کر ادب،فلسفہ اور تاریخ کی گتھیاں سلجھاتا ہے۔ یہ گروہ جس میں فوجی افسر بھی ہیں، اساتذہ بھی اور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے فارغ التحصیل انجینئر بھی‘ طالب علم بھی اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے دانشور بھی، اس ہنگامے اور شور وغوغا سے بے نیاز، جو چاروں طرف برپا ہے‘ اس روایت کو نبھائے جارہا ہے جس نے سینکڑوں سال پہلے ٹیکسلا میں تشکیل پائی۔ شعر، ادب، مصوری، فلسفہ اور تاریخ ٹیکسلا کی گھٹی میں پڑا ہے۔ اس کا مقام ایک زمانے میں وہی تھا جو آج ہارورڈ، کیمبرج یا آکسفورڈ کا ہے۔
ایک احساس جرم تھا جس نے گزشتہ ہفتے ٹیکسلا بھیجا۔ آل پاکستان مشاعرے منعقد کرنا ٹیکسلا کے ادب دوستوں کا وتیرہ ہے۔ اس بار یہ مشاعرہ 14اگست کو ہونا تھا۔ صدارت کے لیے اس بے نوا شاعر کو حکم دیاگیا۔ اس سے دو دن پہلے ایک نجی کام سے لاہور جانا ہوا۔ اس اثنا میں دھرنوں کا موسم شروعw ہوگیا اور دارالحکومت جانے والے راستے کنٹینروں سے اٹ گئے۔ 14اگست کو لاہور سے آنا ممکن ہی نہ رہا۔ اگرچہ یہ غیر حاضری عمداً نہیں تھی؛ تاہم ایک احساس جرم بار بار ذہن کے نہاں خانے میں سر اٹھاتا تھا۔ اس سے چھٹکارا پانے کے لیے خوش فکر شاعر حفیظ اللہ بادل کو کہ حلقۂ تخلیق ادب کے مدارالمہام ہیں، فون کیا کہ اس بدھ کو اہل دانش کی بزم میں یہ طالب علم بھی حاضر ہوگا۔
تین چار گھنٹوں پر مشتمل اس نشست میں جو تخلیقات پیش کی گئیں‘ ان پر جو گفتگو ہوئی‘ بحث کا جو معیار دیکھا، تہذیب، شائستگی، برداشت اور اظہار اختلاف کے جو اسالیب سامنے آئے، انہیں دیکھ کر ، بار بار ایک آواز اندر سے اٹھتی تھی کہ ملک میں ادب اور کلچر کا مستقبل تابناک ہے۔ بسا اوقات اہل سیاست پر کم علموں بلکہ بے علموں کی اجارہ داری دیکھ کر یاس طاری ہوجاتی ہے۔ پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کمپیوٹر کا زمانہ ہے‘ ٹیکنالوجی کا دور ہے‘ ادبیات کو کون پوچھے گا لیکن اس بزم میں اور اس قبیل کی دیگر مجالس میں بیٹھ کر یاس کی اس کیفیت سے رہائی ملتی ہے۔ ظفر اقبال نے کہا ہے ؎
درِ امید سے ہو کر نکلنے لگتا ہوں
تو یاس روزنِ زنداں سے آنکھ مارتی ہے
لیکن یہاں معاملہ الٹ ہے۔ یاس راستہ روکتی ہے اور امید انگلی پکڑ کر آگے لیے چلتی ہے۔ گیارہویں جماعت اور سائنس کے مضامین کا ایک طالب علم اس بزم میں جس اعتماد اور جس علمیت کے ساتھ گفتگو کررہا تھا، حیران کن تھا۔ اور شعر سنائے تو کاٹ دار ؎
کیوں معترض ہیں یار مرے حرف خام پر
مشق سخن یہ کی ہے، سخن تو نہیں کیا!
رہا یہ اعتراض کہ ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ ادب کا کس کو ہوش ہوگا تو معترض حضرات بھول جاتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کے دور میں بھی ہنسی تو آئے گی اور آنسو بھی بہیں گے۔ لوگ اپنے پیاروں سے جدا بھی ہوں گے اور وصال کی خواب گاہیں بھی سجیں گی۔ ان مواقع پر جذبات کو اظہار بھی درکار ہوگا۔ سو، جذبات کو لفظ دینے کے لیے ادب پر تکیہ کرنا ہی پڑے گا۔ صورت میں ڈھالنے کے لیے مصوری کا سہارا لینا ہی ہوگا۔ لٹریچر یوں بھی اپنا راستہ خود نکالتا ہے۔ 1979ء میں چین میں ون چائلڈ (صرف ایک بچہ) پالیسی کا آغاز ہوا۔ اس پالیسی کے بہت سے نتائج سامنے آئے ۔ منفی بھی اور مثبت بھی؛ تاہم ایک نسل جوان ہوئی تو اسے معلوم ہی نہ تھا کہ بہن کیا ہوتی ہے اور بھائی کس چڑیا کا نام ہے۔ کچھ وقت اور گزرا تو ماموں‘ خالہ اور چچا بھی ناپید ہوگئے۔ اب جو ناولوں میں ان رشتوں کا ذکر پڑھتے تھے تو یوں جیسے زمین پر رہنے والے سیاروں اور کہکشائوں کا ذکر پڑھتے ہیں۔ کیفیت معلوم‘ نہ صورت! 2007ء میں جب چین کی پیپلز Consultativeکانفرنس کا اجلاس ہوا تو تیس مندوبین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ون چائلڈ پالیسی ختم کی جائے۔ جو دلائل دیے گئے ان میں یہ بھی مذکور تھا کہ سماجی پراگندگی اس قدر پھیلنے لگی ہے کہ رشتوں کا تصور اجنبی ہوگیا ہے اور جو ادب تخلیق ہورہا ہے اور جس کی تفہیم ہوسکتی ہے، وہ کھوکھلا ہے اس لیے کہ رشتوں کا علم نہ ہو تو کردار کیسے سمجھ میں آئیں گے؟
کرپشن کا اندھیرا چاروں طرف چھا رہا ہے۔ غربت، بے روزگاری اور ناخواندگی ناسور کی طرح پھیل رہی ہے۔ کتابیں پہلے کی نسبت کم تعداد میں شائع ہونے لگی ہیں‘ اس کے باوجود یہ طے ہے اور روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ادب کے دلدادگان پیدا ہوتے رہیں گے۔ ہنگاموں سے دور، اپنے گوشہ ہائے تہذیب بساتے رہیں گے۔ ایک شاعر یا ایک کہانی کار کوٹھی کی آرزو پالتا ہے نہ کار کی۔ اسے بینک بیلنس کا شوق ہے نہ بزنس ایمپائر اس کا خواب ہے۔ وہ تو صرف ایسا معاشرہ دیکھنا چاہتا ہے جس میں امن ہو، محبت ہو، عافیت ہو اور کرنسی نوٹوں کے بجائے قدروں سے پیار کیا جائے۔ جب تک ادیب زندہ ہے، جب تک شاعر موجود ہے، روشنی ظلمت کا مقابلہ کرتی رہے گی اور فتح یاب ہوتی رہے گی۔
غزل سناتے وقت یہ احساس مسلسل لَو دے رہا تھا کہ علم اور تہذیب کے اس موقع میں شاعری سنانا کتنا بڑا اعزاز ہے۔ جہاں علم کے طلب گار کپڑوں کے ایک جوڑے ، کھڑائوں اور چھتری کے سوا اپنے پاس کچھ رکھتے تھے‘ نہ کسی شے کی تمنا ہی کرتے تھے !! کیا عجب غزل گوتم بدھ کی سماعت کا اعزاز بھی حاصل کررہی ہو ؎
میں زندگی اور بخت پانی سے ڈھالتا ہوں
کبھی سفینے، کبھی جواہر اچھالتا ہوں
یہ پیاس سے جاں بلب ہیں منکر مرے ہنر کے
میں سنگ خارا سے آب شیریں نکالتا ہوں
میں جا پہنچتا ہوں چاہ سے شاہ کے محل میں
نکل کے زنداں سے میں حکومت سنبھالتا ہوں
زمیں سے اور آسماں سے پانی، اور ایک کشتی
میں سینکڑوں سال اس مصیبت کو ٹالتا ہوں
میں اپنی توقیر عشق میں بھولتا کہاں ہوں
میں چاند کے سامنے ستارہ اجالتا ہوں
تم اپنی اقلیم سے زر و سیم جمع کر لو
میں اپنی گدڑی سے ایک آیت نکالتا ہوں