حفیظ اللہ کے خاندان کا کاروبار تمباکو کا تھا۔ تمباکو کے کھیت، تمباکو کی دکانیں، تمباکو کی فیکٹریاں، حقے اور چلم کا تمباکو، پائپ اور سگار کا تمباکو، تھوک کا کاروبار، پرچون کا کاروبار، ایک ایمپائر تھی جس کے یہ لوگ مالک تھے۔ یہ آٹھ دس بھائی تھے۔ ان میں اتفاق بھی تھا اور رکھ رکھائو بھی۔ ہر ایک اپنی جگہ ایک ادارہ تھا۔ خلق خدا ان کی عزت کرتی تھی۔
اتفاق تھا یا بدقسمی، ان میں سے ایک بھائی کو اغوا کرلیا گیا۔ کچھ عرصہ کے بعد تاوان کا مطالبہ موصول ہو گیا۔ مہینے گزر گئے۔ کسی نے تاوان ادا کیا نہ خبرلی۔ پھر کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ مغوی کو کسی اور ''پارٹی‘‘ کے ہاتھ بیچ دیا گیا ہے۔ بہرطور کسی کے کان پر جوں رینگی نہ قلق ہوا۔ سب کچھ معمول کے مطابق چلتا رہا۔ کھیت تمباکو اگاتے رہے۔ فیکٹریاں سگار اور سگریٹ بناتی رہیں۔ دکانوں پر گاہکوں کا ہجوم آتا رہا اور نمٹایا جاتا رہا۔ تھوک بھی چلتا رہا اور پرچون بھی۔ ایمپائر نہ صرف قائم رہی، اس کی حدود میں اضافہ بھی ہوتا رہا۔ نئی زمینیں، نئی مارکیٹیں، نئی فیکٹریاں قائم ہوتی رہیں۔ کبھی کبھی کوئی مغوی کا ذکر کردیتا۔ تشویش کا اظہار ہوتا، کبھی وہ بھی نہ ہوتا۔
آپ کا کیا خیال ہے ایسا ہوسکتا ہے؟ خاندان کا ایک فرد اغوا ہوجائے، سلطنت کا ایک حصہ غارت ہو جائے۔ تخت کا ایک پایہ گر جائے، تو کیا سب کچھ معمول کے مطابق چلتا رہے گا؟ کیا اتنے بڑے نقصان، اتنے بڑے صدمے، اتنے بڑے چیلنج سے تغافل برتاجا سکتا ہے؟
نہیں، ایسا نہیں ہوسکتا، تاہم پنجاب اسمبلی میں ایسا ہوسکتا ہے۔ مسلم لیگ نون کی حکومت میں ایسا ہوسکتا ہے۔ مملکت پاکستان میں ایسا ہوسکتا ہے۔ جہاں عزت کا احساس اتنا ''بلند‘‘ ہو کہ ملک کا بازو کٹ جانے پر اتنا بھی افسوس نہ ہو جتنا دکاندار کوچار آنے گم ہو جانے پر ہوتا ہے،جہاں کمیشن کی رپورٹیں کھالی جائیں اور پی لی جائیں، جہاںحکمران دشمن ملک میں جا کر سرکاری دوروں کے درمیان اپنے ذاتی کاروباری مفادات کی نگہبانی کریں، جہاں دشمن ملک سے کروڑوں روپوں کی مبینہ خریداریاں کی جائیں، وہاں ایک رکن اسمبلی کے اغوا کو کون اہمیت دے گا۔
مئی کا آخری دن تھا جب حکمران جماعت کے پنجاب اسمبلی کے رکن کو دارالحکومت جاتے ہوئے نہ صرف یہ کہ پنجاب کی حدود کے اندر بلکہ موٹروے کے ایک پررونق اور آباد انٹرچینج پر اغوا کرلیا گیا۔ اس کی اہلیہ بھی ساتھ تھی جسے بعدازاں رہا کردیا گیا اور تاوان کی رقم مانگی گئی۔
اگر آپ یہ توقع کر رہے ہیںکہ پنجاب اسمبلی میں اس اغوا پر ایک حشر برپا ہوا ہوگا تو آپ شدید غلط فہمی میں ہیں۔ اگر کوئی ایسا ملک ہوتا جس میں عوامی نمائندے پڑھے لکھے ہوتے، دیانتدار ہوتے، ایک ایک پائی ٹیکس ادا کرنے والے ہوتے، ڈیرے چلانے والے نہ ہوتے، مجرموں کو پناہ دینے والے نہ ہوتے، تھانوں پر حملے کرنے والے نہ ہوتے، ملزمان کو حوالات سے چھڑالے جانے والے نہ ہوتے، وزیراعلیٰ کے ساتھ سچی بات کرنے والے ہوتے اور دست بستہ ہو کر فدوی کا کردار ادا کرنے والے نہ ہوتے تو حکومت سے پوچھا جاتا کہ یہ کونسا لاء اینڈ آرڈر ہے جو صوبے میں رائج ہے؟ اگر اسمبلی کا منتخب نمائندہ محفوظ نہیں تو اور کون محفوظ ہوسکتا ہے؟ پھر وہ ایک ایسی جگہ سے اغوا ہوا جو سرحدوں سے قریب بھی نہیں۔ صوبے کا تقریباً وسطی مقام ہے۔ اسمبلی حکومت سے پوچھتی کہ کیا حکومت کے پاس نقل مکانی کرکے آ بسنے والوںکا ریکارڈ موجود ہے؟ کیا حکومت کو معلوم ہے کہ صوبے کے کیا بڑے شہر اور کیا چھوٹے قصبے، غیر ملکیوں سے بھرچکے ہیں۔ کیا حکومت نے کوئی ایسا طریقہ، کوئی ایسا میکانزم بنایا ہے جس کے تحت دوسرے صوبوں سے ہجرت کرکے آنے والوں کی جانچ پڑتال ہو رہی ہو۔ کیا حکومت نے مکانات اور جائیدادیں فروخت کرنے والوں کو کسی ضابطے، کسی طریقہ کار کا پابند کیاہے؟ نمائندے حکومت سے پوچھتے کہ میڈیا میں طرنول سے لیکر فتح جنگ اور فتح جنگ سے لیکر جنڈ تک کے علاقے کو ''منی وزیرستان‘‘ کا نام دیاگیا ہے تو اس ''صحتمندانہ‘‘ انتقال آبادی کا ذمہ دار کون ہے؟ بالخصوص یہ نام ان علاقوں کو دیا گیا ہے جہاں پوچھ گچھ، چھان بین اور جانچ پڑتال دوسرے علاقوں کی نسبت بوجوہ کئی گنا زیادہ ضروری تھی!
عوامی نمائندہ صوبے کے درمیان سے اغوا ہوگیا۔ کوئی ردعمل ہوا نہ احتجاج، تاہم موج مستی کا عالم دیکھیے کہ مراعات میں کئی گنااضافہ کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔جس دن صوبے کا وزیرداخلہ منتخب نمائندوں کو یہ خوش خبری دے رہا تھا کہ ان کے معزز ساتھی کو، جو پانچ ماہ قبل اغوا ہوا تھا، افغانستان فروخت کر دیا گیا ہے، ٹھیک اسی دن صوبے کے منتخب نمائندوں نے اپنے اس مطالبے کو بل کی صورت میں جمع کرایا، جو ہمہ گیر اضافے پر مشتمل ہے۔ مطالبات بہت معصوم ہیں۔ بنیادی تنخواہ پانچ گنا بڑھائی جائے۔ ڈیلی الائونس 650 روپے سے بڑھا کر پانچ ہزار یعنی تقریباً آٹھ گنا اضافہ، کنوینس الائونس چار سو سے بڑھا کر ایک ہزار، ٹریولنگ الائونس پانچ روپے فی کلومیٹر سے بڑھا کر پندرہ روپے فی کلومیٹر، ایڈیشنل ٹریولنگ الائونس 75000 روپے سے بڑھا کر دو لاکھ روپے، رہائش الائونس پندرہ سو روپے روزانہ سے بڑھا کر پانچ ہزار روزانہ، آفس کی آرائش کا الائونس دس ہزار سے پچیس ہزار، یوٹیلیٹی الائونس تین ہزار سے بڑھا کر بیس ہزار روپے، ٹیلی فون الائونس پانچ ہزار سے دس ہزار، اس کے علاوہ سٹینو ٹائپسٹ، کلرک، نائب قاصد مہیا کرنے کا مطالبہ بھی کر دیا گیا ہے۔ چار اسلحہ لائسنس، جی ہاں، چار اور چاروں کے چار سرکاری فیس پر دینے کا ہلکا پھلکا مطالبہ بھی بل میں ڈالا گیا ہے۔ بل پر ایک سو ستر ارکان نے دستخط کر دیئے ہیں۔ ایک سو پچاسی کی حمایت درکار ہے۔ گویا یہ بل پاس ہونے کا امکان سو فیصد ہے۔ ٹیکس دہندگان کی جھکی ہوئی پشت پر کئی گنا اضافے کا بوجھ لادنے والے عوامی نمائندوں کا ساتھی فروخت ہو کر سرحد پار پہنچ چکا ہے۔ وہ سوچتا ہو گا کہ اس کے رفقائے کار اس کی رہائی کیلئے حکومت کو لوہے کے چنے چبوا رہے ہوں گے اور لاہور سے کابل تک قاصدوں اور سفارتکاروں کا جال بچھ چکا ہوگا۔ یہاں مراعات کی فکر ہے۔ وہ شخص یاد آ رہا ہے جو ہانپتا ہوا گھرمیںداخل ہوا تھا اور کہہ رہا تھا کہ پچھلے چوک پر بڑے بھائی کو جوتے پڑ رہے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ عزت بچا کر آ گیا ہوں۔
پس نوشت: ایک معروف بین الاقوامی ادارے نے اسلام آباد ایئرپورٹ کو دنیا کا بدترین ایئرپورٹ قراردیا ہے۔ یہ ریٹنگ چار اجزا کے معیار کو سامنے رکھ کر کی گئی ہے۔ صفائی، آرام، سہولت اور مسافروں کی خدمت۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایئرپورٹ ایک مرکزی جیل کے مماثل ہے۔ ہجوم کو کنٹرول نہیں کیا جاتا، کرپشن جڑوں تک پھیل چکی ہے۔ سکیورٹی کی جانچ پڑتال سے دوسروں کو آزار پہنچایا جاتا ہے۔ صفائی ہے نہ ٹیکنالوجی، کل لندن سے آنے والے ایک مہمان کو لینے کیلئے ایئرپورٹ جانا ہوا۔ اس امر میں کوئی مبالغہ نہیں کہ سولہویں صدی میں جب قافلے اترتے تھے تو جو ہڑبونگ اونٹوں کے بلبلانے، خچروں اور گھوڑوں کے ہنہنانے، مسافروں کی چیخ پکار، سرائے کے ملازمین کی بلند آوازوں اور گرد کے ہر طرف منڈلاتے بادلوں سے مچتی تھی، اس سے بدتر عالم ایئرپورٹ کا تھا۔ مسافر سامان کیلئے ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کرتے رہے۔ اس اثنا میں متعلقہ محکموں کا کوئی ذمہ دار افسر دکھائی نہ دیا۔ جتنی تعداد مسافروں کی تھی، اس سے ذرا ہی کم ان ملازمین کی تھی جو مٹرگشت کرتے ہوئے ایک دوسرے سے چہلیں کرتے پھر رہے تھے۔ جہاں ایک کی ضرورت ہو اور بھرتی بیس کیے جائیں ،وہاں یہی عالم ہوتا ہے۔ یہ ریٹنگ، یہ ''حسن انتظام، یہ مسافروں کی دعائیں‘‘! حکومت کی ٹوپی میں سرخاب کا ایک اور پر!
مبارک...صدمبارک!