سچی بات یہ ہے کہ پطرس کے بعد اردو مزاح نگاری میں جو مقام شفیق الرحمن کا ہے وہ شاید ہی کسی اور کو نصیب ہو! شفیق الرحمن صاحب کی ایک تو افتاد طبع ایسی تھی کہ وہ تقاریب سے پرہیز کرتے تھے۔ جن دنوں اکادمی ادبیات کے سربراہ تھے‘ بیرون ملک سے آئے ہوئے مہمان ادیبوں کیلئے جو فنکشن منعقد ہوتے تھے، ان میں کچھ گفتگو کرتے تھے ورنہ نہیں! دوسرے اس زمانے میں ٹیلی ویژن کی دنیا سرکاری پردۂ سیمیں تک محدود تھی۔ ابھی یہ رواج نہیں پڑا تھا کہ ٹیلی ویژن والے ادیبوں کو دعوت دیں، وہ اپنے شاہکار پڑھ کر سنائیں‘ انہیں نشر کیا جائے اور لوگ دیکھیں بھی اور سنیں بھی۔ شفیق الرحمن صاحب نے اپنی تحریروں کو ثقیل حد تک مفرس (Persianised) کیا‘ نہ آورد اور تصنع کو نزدیک آنے دیا۔ نہ ہی ان کی تحریریں پڑھتے ہوئے، رخساروں کو ہاتھوں سے پکڑ کر کانوں کی طرف کھینچنا پڑتا ہے کہ ہنسی کا تاثر قائم ہو۔ مارچ 2000ء میں جب ان کا انتقال ہوا تو یہ قلم کار لاہور میں سٹاف کالج ''کر‘‘ رہا تھا۔ پورے گروپ میں الحمدللہ کوئی رفیق کار ایسا نہیں تھا کہ اس کی ہم نشینی میں غم بٹ سکتا۔ ''نیلی جھیل‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا اور تنہائی میں بیٹھ کر انہیں یاد کیا۔
شفیق الرحمن ایک کہانی میں ایک ترقی پسند دانشور کا ذکر کرتے ہیں جو طبقاتی کشمکش کو نظام عالم کا مرکزی نکتہ قرار دیتا ہے۔ وہ پسے ہوئے طبقوں کا رونا روتا ہے اور کارخانہ داروں کو غاصب سمجھتا ہے۔ بندئہ مزدور کے تلخ اوقات خلق خدا کو دکھانے کیلئے مزدور کا انٹرویو لیتا ہے، تاہم انٹرویو ریورس گیئر میں چل پڑتا ہے۔ مزدور سے سوال کرتا ہے کہ جب تم ایک لحیم شحیم فربہ شخص کو جہازی سائز کی کار میں بیٹھا دیکھتے ہو تو تمہارا خون کھول اٹھتا ہوگا۔ ایسے میں تم کیا محسوس کرتے ہو؟ مزدور جواب دیتا ہے کہ خون کھولنے کی اس میں کوئی بات نہیں۔ کار اس کی اپنی ہے اور اس کی قیمت ادا کی ہے۔ پھر وہ مزدور سے اس کے صبح و شام تک کی قابل رحم مشقت کی تفصیل پوچھتا ہے۔ لیکن مزدور جو روٹین بتاتا ہے وہ دردناک ہرگز نہیں۔ صبح اٹھ کر وہ ڈنٹر پیلتا ہے، ورزش کرتا ہے اور کھاتا پیتا ہے! شام کو سیر کرتا ہے ۔ دن کو تھوڑی بہت مزدوری بھی کرلیتا ہے!!
یہ سارا تذکرہ بلا سبب نہیں! پنجاب کے ''کارخانہ دار‘‘ وزیراعلیٰ کے ''استحصالی‘‘ رویہ کے مقابلے میں تین چھوٹے صوبوں کے ''مزدور‘‘ وزرائے اعلیٰ کی کہانی بالکل یہی ہے۔ سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ کا جو عمل دخل وفاقی معاملات میں خاص کر امور خارجہ میں، توازن کی حد پار کر رہا ہے، اس پر اکثر کالم نگاروں! تجزیہ کاروں اور اداریہ نویسوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ایک معروف تجزیہ کار پروفیسر صاحب نے تو ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام میں باقاعدہ دہائی دی کہ ملک کے اس وقت تین وزرائے خارجہ ہیں جن میں سرفہرست خادم اعلیٰ ہیں۔ وزیراعظم بیرونی دوروں پر جائیں یا دوسرے ممالک کے حکمران ہمارے ہاں آئیں، پیش منظر پر چھوٹے میاں صاحب چھائے رہتے ہیں۔ تاہم یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ باقی تین صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کا اس ضمن میں اپنا رویہ کیا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ مدعی سست گواہ چست؟ رشتہ دار وزیراعلیٰ کے ''سرمایہ دارانہ‘‘ شب و روز دیکھ کر ان ''مزدوروں‘‘ کو غصہ آتا ہے نہ دھیان احتجاج کی طرف جاتا ہے۔ وہ تو مزے سے ڈنٹر پیل رہے ہیں، بیٹھکیں نکال رہے ہیں، پارکوں اور باغوں میں سیر کر رہے ہیں۔ اچھے کھانے کھا رہے ہیں۔ پنجاب کا وزیراعلیٰ جو کچھ حاصل کر رہا ہے، اس کی اپنی محنت ہے!!
افغان صدر کے حالیہ دورے پر بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ نے جو کچھ کہا ہے‘ اس پر بھی اگر چھوٹے صوبوں کے حکمران ردعمل نہیں دکھاتے تو اس کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے۔ اور وہ یہ کہ اگر یہ تینوں وزرائے اعلیٰ کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے تو جس صوبے کا وزیراعلیٰ متحرک ہے‘ اسے نمایاں ہونے سے کیوں اور کیسے روکا جائے؟
شہباز شریف نے اسلام آباد میں افغان صدر سے ملاقات کی۔''دوطرفہ‘‘ دوستانہ تعلقات اور قریبی باہمی تعاون کے پہلوئوں پر تبادلۂ خیال ہوا۔ وزیراعلیٰ نے ''دوطرفہ‘‘ تجارت کی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مضبوط قریبی تعلقات ضروری ہیں۔ دونوں ممالک کو سکیورٹی کے مسائل حل کرنا ہونگے۔ خبر کا آخری حصہ دلچسپ ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ''پنجاب اور کابل‘‘ کے درمیان تجارت ، سروسز، تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے کی گنجائش موجود ہے اور اس مقصد کیلئے موثر اقدامات کیے جائیں گے۔ افغان صدر نے وزیراعلیٰ پنجاب کو کابل کے دورے کی دعوت دی جو قبول کرلی گئی۔
گویا افغانستان کی طرح پنجاب بھی الگ ملک ہے اور وزیراعلیٰ کابل سے معاملات اس طرح طے کر رہے ہیں جیسے دو ملک طے کرتے ہیں۔ اور اگر ایسا نہیں ہے اور اگر ہے اور قابل اعتراض نہیں ہے تو خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ کہاں ہیں؟ ان دونوں صوبوں کی تو طویل سرحدیں بھی افغانستان کے ساتھ مشترک ہیں۔ یہ دونوں صوبے افغانستان اور ایران کے ساتھ کئی شعبوں میں اشتراک کرسکتے ہیں۔ کیا انہوں نے کوئی پیش قدمی کی؟ کوئی initiative لیا؟ وفاقی حکومت سے شکوہ تب کیا جائے جب ان وزرائے اعلیٰ کو کسی پیش رفت سے روکا گیا ہو۔ یہ حضرات اگر سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ کسی دوسرے صوبے کے مقابلے میں اچھا سلوک نہیں کیا جا رہا تو انہوں نے احتجاج کب کیا ہے؟
رہے وزیراعلیٰ سندھ، تو ان کی ترجیح صوبہ چلانا نہیں، وزارت اعلیٰ بچانا ہے۔ سندھ سے باہر، وفاق کی طرف یا سرحد پار وہ تب دیکھیں جب خواب استراحت سے بیدار ہوں۔ کیا خبر ان سے اگر پوچھا جائے کہ سندھ کی سرحد بھارت کی کن ریاستوں سے ملتی ہے تو وہ آسام یا جھاڑکھنڈ کا نام لیں۔ یوں بھی سندھ کا صوبہ چلانے والوں میں ان کا نام اہمیت کے اعتبار سے نویں یا دسویں نمبر پر آتا ہے۔