حسرت موہانی کے بارے میں کہتے ہیں کہ عینک کی ٹوٹی کمانی کو دھجی سے باندھ دیتے تھے اور پھر وہی عینک برس ہا برس استعمال کرتے تھے۔ دادیوں‘ نانیوں کے ہاں تو یہ ترکیب عام تھی۔ اب زمانہ بدل گیا ہے۔ عینکوں کے فریم ایک سے ایک بڑھ کر دستیاب ہیں۔ برانڈڈ فریم مہنگے ہیں۔ شوقین پھر بھی خریدتے ہیں۔ دھوپ کے چشمے اور بھی گراں ہیں لیکن مقبولِ عام و خاص! بلکہ دھوپ کے چشموں پر تو اخباری فیچر بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔ اگر شیشہ نیلا ہے تو ہر شے نیلی دکھائی دے گی۔ سبز ہے تو سبز اور اگر سیاہی مائل ہے تو دنیا کالی نظر آئے گی۔
پاکستان میں اب دو قسم کے لوگ رہ گئے ہیں۔ ایک وہ جنہوں نے کسی نہ کسی رنگ کے شیشے چشموں میں نصب کرائے ہوئے ہیں‘ دوسرے وہ جو عینک کے بغیر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اول الذکر کی زندگی آسان ہے۔ سوچ بچار کی ضرورت ہے نہ غورو فکر کی۔ تجزیے کی نہ تحقیق و تفتیش کی! بس جس رنگ کا شیشہ لگایا ہوا ہے‘ اُسی رنگ کو حرفِ آخر سمجھتے ہیں۔ کسی سیاسی پارٹی کی عینک لگی ہے تو ہر مسئلے کو پارٹی کے نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس میں آسانی ہی آسانی ہے۔ پارٹی کے نقطۂ نظر سے کوئی فیصلہ اچھا ہے تو ملک یا عوام کی حیثیت ثانوی ہے۔ کھل کر تائید کریں گے۔ پارٹی کو منظور نہیں تو تردید اور تنقید!
یہی حال مدرسے کی عینک کا ہے۔ آج کل یہ عینک بہت استعمال ہو رہی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف قومی پالیسی ہے یا آئین میں ترمیم‘ بچے شہید ہو رہے ہیں یا فوجی تنصیبات تباہ ہو رہی ہیں۔ رائے دیتے وقت مدارس کی صحت و بقا کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ پوری دنیا کچھ اور دیکھ اور کہہ رہی ہے‘ حقائق سب کے سامنے ہیں۔ عوام کا ردعمل بھی معلوم ہے۔ شہداء کے لواحقین کا غم بھی بجا‘ لیکن چونکہ تعلق کسی نہ کسی مدرسہ سے ہے‘ اس لیے بیان اسی لحاظ سے دیا جائے گا۔
جس نے کوئی عینک نہیں لگا رکھی‘ نیلی نہ سبز نہ کالی‘ اُسے جو دکھائی دے رہا ہے‘ وہی بیان کرے گا۔ اور یہی سچائی رنگین عینک والوں کو بری لگتی ہے۔
جب سے پشاور کا دل گداز واقعہ پیش آیا ہے اور آئینی ترمیم منظور ہوئی ہے‘ ایک خاص نوعیت کے بیانات ہر روز پڑھنے اور سننے میں آ رہے ہیں۔
''مدارس کے خلاف پروپیگنڈا ہو رہا ہے‘‘
''سانحۂ پشاور کی آڑ میں مساجد و مدارس کے خلاف مہم بند کی جائے‘‘۔
''آئینی مسودہ تیار کر کے مدرسوں کے گلے پر چھری چلائی گئی‘‘
''مدارس پر پابندی لگی تو علماء متنفر ہو جائیں گے‘‘
''دہشت گردی کو مذہب سے جوڑنا ظلم ہے‘‘۔
''وزیراعظم مذہب کو بھی لتاڑنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘
''جنگ کو مدارس کے خلاف استعمال کیا گیا تو قومی مفادات کو نقصان پہنچے گا‘‘
''مدارس کو فوکس کیا گیا ہے‘‘
''مساجد اور مدارس کی طرف بری نیت سے بڑھنے والے ہاتھوں کو روکیں گے‘‘
''لگتا ہے کہ وزیراعظم ٹریپ ہوئے‘‘۔
یہ صرف چند بیانات ہیں۔ ورنہ گزشتہ پانچ ہفتوں سے اس قبیل کے لاتعداد بیانات میڈیا پر پڑھے اور سنے جا سکتے ہیں۔ یہ سب بیانات‘ جن میں کچھ دھمکیاں بھی شامل ہیں‘ ایک مخصوص عینک لگا کر دیے جا رہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مذہب اور مدارس کو ایک دوسرے کا مترادف قرار دیا جا رہا ہے۔ اس فقرے پر غور کیجیے... ''وزیراعظم مذہب کو بھی لتاڑنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔ وزیراعظم سے کئی سیاسی غلطیاں ہو رہی ہوں گی مگر وہ مذہب کو لتاڑنے کی کوشش کس طرح کر سکتے ہیں؟ حیرت ہے کہ مدارس کے ساتھ ساتھ مساجد کا بھی ذکر کیا جا رہا ہے!
صورتِ احوال کو غیر جانب داری سے دیکھنے والا طالب علم‘ دوسری طرف جب کچھ مدارس کے ملوث ہونے کی خبریں پڑھتا ہے تو حیران ہوتا ہے کہ اگر سارے مدارس پر الزام لگانا منطقی طور پر درست نہیں‘ تو تمام کو کلین چٹ دینا بھی کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟ روزنامہ ''دنیا‘‘ نے دو دن پیشتر جو خبر دی ہے وہ تمام مدارس کو دہشت گردی سے لاتعلق قرار دینے والوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
''ملک بھر کے 585 مدارس میں فرقہ واریت پر مبنی نصاب باقاعدہ طور پر پڑھایا جاتا ہے جب کہ یہاں کالعدم تنظیموں کے عہدیدار بھی قیام پذیر ہیں۔ ان مدارس کو کئی برسوں سے غیر ملکی فنڈنگ آ رہی ہے جب کہ بعض اہم غیر ملکیوں نے مختلف تنظیموں اور این جی اوز کے تعاون سے مختلف اوقات میں ان مدارس کے خفیہ دورے بھی کیے۔ معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ فرقہ واریت اور انتہا پسندی پھیلانے میں ملوث 31 ایسے افراد کو حراست میں لیا گیا جنہوں نے تسلیم کیا کہ دینی مدارس میں کالعدم تنظیموں کے عہدیداروں کے اجلاس ہوتے رہے اور طلبہ کی باقاعدہ طور پر مختلف صوبوں میں ڈیوٹیاں لگائی جاتی رہیں۔ وہاں کی یونیورسٹیوں میں انہیں داخلے دلوائے جاتے اور پھر یہ طلبہ اپنے منصوبے کے تحت کام کرتے رہے۔ حساس اداروں کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ پنجاب میں 332‘ سندھ میں 119‘ خیبر پختونخوا میں 23 اور
بلوچستان میں 11مدارس میں فرقہ واریت کی باقاعدہ تعلیم دی جاتی ہے‘ جب کہ پنجاب میں 42‘ سندھ میں 17‘ بلوچستان میں 9 اور کے پی کے میں 6 مدارس ایسے ہیں جہاں کالعدم تنظیموں نے اپنے مراکز بنا رکھے ہیں۔ یہیں پر فرقہ واریت سے متعلقہ مواد لکھا اور پھر مخصوص پبلشرز سے چھپوایا جاتا ہے۔ صوبائی دارالحکومت لاہور میں دو مدارس ایسے ہیں جہاں پر کالعدم تنظیموں کے سینئر عہدیداروں کے اہم اجلاس بھی ہوتے رہے ہیں۔ اسی طرح ملتان‘ ساہی وال‘ فیصل آباد اور رحیم یار خان کے گردونواح سمیت شہری علاقوں میں 30 فیصد جب کہ دیہی و مضافاتی علاقوں کے زیادہ تر مدارس میں ایسی ہی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ان مدارس کی مکمل مانیٹرنگ کی گئی اور اساتذہ و طلبہ شدت پسندی کے فروغ میں ملوث پائے گئے‘ جب کہ بعض طلبہ کو باقاعدہ تربیت دیتے ہوئے خاص منصوبہ بندی کے تحت جعلی شناختی کارڈ بنوا کر مختلف تعلیمی اداروں میں داخلے دلوائے گئے جہاں وہ اپنے مشن کی تکمیل کے لیے سرگرم رہے اور ساتھی طلبہ کو انتہا پسندی کی ترغیب دی‘‘۔
ایسی خبریں آئے دن شائع ہوتی ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کچھ مدارس شدت پسندی پھیلا رہے ہیں‘ لیکن حقیقت ایک انتہا پر ہے نہ دوسری انتہا پر‘ بلکہ درمیان میں ہے۔ مدارس کی اکثریت کا دہشت پسندی سے تعلق بالکل نہیں۔ اساتذہ اور طلبہ کی بھاری اکثریت ایسی سرگرمیوں سے کوسوں دور ہے۔ مدارس میں تعلیم دینے والے اساتذہ تو خود ایک مظلوم طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی تنخواہیں مضحکہ خیز اور قابلِ رحم حد تک قلیل ہیں۔ کچھ کو تو فقط آٹھ آٹھ اور دس دس ہزار روپے دیے جا رہے ہیں۔ گوجرانوالہ سے شائع ہونے والے ایک معروف دینی ماہنامے نے کچھ سال پہلے ایک خط شائع کیا جس سے معلوم ہوا کہ کراچی میں کچھ اساتذہ اپنے اور اپنے اہل و عیال کے اخراجات پورے کرنے کے لیے رکشا چلانے پر مجبور ہیں۔ یہ ایک الگ موضوع ہے اور متقاضی ہے کہ ریسرچ کر کے اُس استحصال سے پردہ اٹھایا جائے جو مدارس کے اساتذہ کا کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح طلبہ کی بھاری اکثریت تحصیلِ علوم میں سنجیدہ ہے۔ یہ تاثر بھی حقائق کے خلاف ہے کہ مدارس کے تمام طلبہ غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور معاشی مجبوریوں کی بنا پر مدارس میں چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔ ایک اچھی خاصی تعداد اُن طلبہ کی ہے جو خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہیں جن کے گھرانے معروف اور محدود معنی میں ''مذہبی‘‘ بھی نہیں!
جو حضرات آئینی ترمیم کے خلاف آئے دن بیانات دے رہے ہیں‘ مذہب کو لتاڑنے کی بات کر رہے ہیں اور مدارس کی طرف بڑھنے والے ہاتھوں کو توڑنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں‘ وہ مدارس کے ساتھ مخلص نہیں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ ایسے حضرات کی سیاست‘ لیڈری بلکہ ''معیشت‘‘ مدارس پر منحصر ہے۔ ان کا واویلا ان کی ذاتی اغراض کی نشاندہی کر رہا ہے۔ جو علماء ان ذاتی اغراض سے بے نیاز ہو کر‘ قلیل تنخواہوں میں گزارا کر کے‘ قال اللہ اور قال الرسولؐ کی تعلیم اخلاص سے دے رہے ہیں‘ انہوں نے آئینی ترمیم کے بارے میں کسی تشویش کا اظہار نہیں کیا۔ مدارس کا اپنا مفاد ہی اس میں ہے کہ کالی بھیڑوں کو الگ کیا جائے۔ جو چند مدارس منفی سرگرمیوں میں ملوث ہیں ان کے نام ظاہر کیے جائیں اور سفید کو سیاہ سے اور صحیح کو غلط سے الگ کر کے دکھایا جائے۔ اس سیاق و سباق میں علماء کا یہ مطالبہ بھی درست ہے کہ وزیرداخلہ نے جن دس فیصد مدارس کو مشکوک قرار دیا ہے‘ ان کے بارے میں عوام کو اور اہلِ مدارس کو آگاہ کیا جائے!
رہا یہ دعویٰ کہ مدارس کا فرقہ واریت سے کوئی تعلق نہیں تو صائب تبریزی کا مصرع ہی سنایا جا سکتا ہے کہ ع
معصیت را خندہ می آید بر استغفارِ ما
ترجمہ اس لیے نہیں دیا جا رہا کہ سمجھنے والے سمجھ جائیں گے۔