یہ بارہ بھائی تھے۔ الگ الگ گھروں میں رہتے تھے۔ کوئی گھر کسی گلی میں تھا‘ کوئی کسی کوچے میں‘ کچھ کی دیواریں مشترک تھیں‘ مگر سب کی بجلی‘ گیس‘ پانی اپنا اپنا تھا۔ یہ سب آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے تھے۔ کبھی بیویوں کے کہنے سننے پر‘ کبھی بچوں کی وجہ سے‘ کبھی دو تین بھائیوں نے کسی مشترکہ کاروبار کا آغاز بھی کیا تو ابتدا ہی سے رخنے پڑنا شروع ہو گئے‘ جلد ہی کاروبار بھی ٹھپ اور بول چال بھی بند۔ اس صورت حال میں بھی بوڑھے والد کو ایک ہی دھن تھی کہ یہ سب بھائی ایک گھر میں اکٹھے رہیں۔ ان کا باورچی خانہ ایک ہو‘ ان کا بجلی‘ پانی‘ گیس‘ ٹیلی فون کا ایک بل ہو۔ ان کے بچے ایک صحن میں کھیلیں اور ان کے کنبے ایک ساتھ رہیں۔ بابے کو جب بھی کوئی مشورہ دیتا کہ بزرگو! ایک گھر میں یہ اکٹھے کیا رہیں گے‘ یہ تو الگ الگ گھروں میں رہ کر بھی ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر پا رہے۔ پہلے یہ تو کرو کہ یہ اپنے اپنے گھروں میں رہتے ہوئے ہی آپس میں ملنا جلنا شروع کریں۔ عید محرم کے موقع پر ہی اکٹھے ہو جائیں۔ بیماری ہی میں ایک دوسرے کا خیال رکھ لیں۔ ان میں جو بھائی سب سے زیادہ غریب ہے‘ آسودہ حال بھائی اسی کی مدد کردیں۔ مگر بابا اس قسم کا مشورہ سنتے ہی بھڑک اٹھتا۔ ''تم ہمارے دشمن ہو۔ تم میرے خاندان کا اکٹھا ہونا نہیں دیکھ سکتے۔ تم حسد کرتے ہو‘ تم ہمارے اتحاد کے خلاف ہو‘‘۔
یہ ایک مثال ہے اُس سراب کی جو مسلمان عوام کو دکھایا جا رہا ہے اور ماضی میں بھی دکھایا جاتا رہا ہے۔ پورے عالم اسلام میں ایک حکمران تلے ایک حکومت قائم کرنے کا سراب!! ایک خواب جس کے پیچھے مسلمان عوام کو دوڑایا جا رہا ہے۔ بھوکے ننگے عوام‘ تن پر کپڑا نہیں‘ کھانے کو روٹی نہیں‘ پینے کو صاف پانی نہیں میسر‘ اکثریت کے پاس بیت الخلا تک نہیں! ہسپتال مفقود‘ تعلیمی ادارے ناپید‘ مزارعوں اور ہاریوں کی ہزاروں‘ لاکھوں بیویاں اور بیٹیاں زمینداروں‘ چودھریوں اور وڈیروں کے گھروں میں لونڈیوں کی طرح کام کر رہی ہیں اور عملاً محبوس ہیں‘ سرداروں کا راج ہے‘ ''مجرموں‘‘ کے بدن پر گڑ کا شیرہ مل کر انہیں چیونٹیوں بھرے غاروں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ ان میں سے کسی چیز کی فکر نہیں! کسی مسئلے کا حل نہیں! کسی فریاد کی دادرسی نہیں! جانوروں کی سی زندگی گزارنے والے ان بے بس بے کس عوام کو پوری دنیا میں ایک اسلامی حکومت کے قیام کا لولی پاپ دیا جا رہا ہے۔
زمینی حقائق یہ ہیں کہ مسلمان حکومتوں کے درمیان علاقائی تعاون بھی ممکن نہیں نظر آتا۔ انڈونیشیا‘ ملائیشیا اور برونائی ایک خطے میں ہیں۔ زبان تقریباً ایک ہے۔ کلچر یکساں ہے۔ لباس اور خوراک وہی ہے۔ مگر تینوں میں کسی اتحاد کا نام و نشان تک نہیں۔ نہ اقتصادی حوالے سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ خارجہ پالیسیوں میں موافقت!
برصغیر میں دو مسلمان ریاستیں ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش۔ پہلے ایک ملک تھا۔ نہیں چل سکا۔ الگ الگ ہو گئے۔ دونوں میں اتحاد اور اشتراک کا شائبہ تک نہیں! ایک میں ابھی تک ان سیاستدانوں کو پھانسیاں دی جا رہی ہیں جو 44 سال پہلے پاکستان کی فوج کا ساتھ دے رہے تھے۔ دوسرا اس پر احتجاج کر رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں پہلے عراق کویت پر چڑھ دوڑا۔ پھر عراق اور ایران میں طویل جنگ چھڑ گئی۔ قطر‘ بحرین‘ یو اے ای‘ سب کی خارجہ پالیسیاں اپنا اپنا منہ دوسری طرف کیے ہیں۔ بیرونی طاقتوں کے اڈے جگہ جگہ قائم ہیں۔ کچھ ملک پڑوسی ملکوں میں فرقوں کی بنیاد پر پریشر گروپ وجود میں لا رہے ہیں۔ کچھ باغیوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ آگے چلیے۔ شمالی افریقہ میں الجزائر‘ مراکش‘ لیبیا اور تونس ہیں‘ ساتھ مصر ہے‘ مصر کے جنوب میں سوڈان ہے۔ کیا ممکن ہے کہ مراکش‘ لیبیا اور الجزائر کا‘ یا لیبیا اور تونس ہی کا اتحاد قائم ہو جائے؟ مصر اور سوڈان ایک مشترکہ خارجہ پالیسی یا اقتصادی حکمت عملی اپنا لیں؟
اللہ کے بندو! خواب دکھانے کے بجائے‘ سراب کے پیچھے بھاگنے کے بجائے‘ جو کرنے کے کام ہیں وہ کرو! ان ملکوں کی حکومتوں سے کہو کہ اپنے عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر اقتصادی تعاون کا آغاز کریں۔ انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے مشترکہ تنظیمیں وجود میں لائیں۔ تعلیمی میدان میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔ صحت کے شعبے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ اپنے اپنے عوام کو پینے کا صاف پانی مہیا کریں اور کھیتوں میں جانے کے بجائے بیت الخلا کا کلچر اپنائیں۔ پوری دنیا میں ایک اسلامی حکومت قائم کرنے والے پہلے یہ تو دیکھیں کہ شرقِ اوسط کی منڈی میں پاکستانیوں پر بھارتیوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ بازاروں پر ہندوئوں کا غلبہ ہے۔ تعلیمی اداروں‘ کمپنیوں‘ دفتروں‘ کارخانوں میں انہی کو فوقیت دی جاتی ہے۔ پہلے وہاں تو امتِ مسلمہ کا درد پیدا کر لو!
گھر کی حالت یہ ہے کہ انڈر پاس بنانے کی اہلیت تک مفقود ہے‘ پورے صوبے کے بجائے ایک شہر کو مرکزِ نگاہ بنایا گیا۔ وہاں بھی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ ہر انڈر پاس کی بلندی دوسرے سے مختلف ہے! پھر بورڈ تک نہیں لگائے گئے‘ جن پر بلندی لکھی ہوئی ہو! گاڑیوں کا پھنسنا معمول بن چکا ہے۔ درجنوں کیا بیسیوں شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس میں تو کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں تھی! ایک عام ضرورت تھی جو مستریوں نے پوری کرنی تھی! جو حکمران اتنا نہیں کر سکتے وہ عالم اسلام میں ایک حکومت کیا بنائیں گے۔ وفاقی حکومت نے ''فیصلہ‘‘ کیا ہے کہ گیارہ لاکھ افغان مہاجرین کو افغان کیمپوں میں ''واپس‘‘ لائے گی اور دس لاکھ غیر رجسٹرڈ مہاجرین کا ڈیٹا اکٹھا کرے گی! سولہ لاکھ مہاجرین میں سے صرف 37 فیصد کیمپوں میں اور 63 فیصد باہر رہائش پذیر ہیں۔ جائدادوں سے لے کر کاروبار تک بہت کچھ ان کا ہے! کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ اب ان کے اثاثوں کی فہرستیں بنیں گی۔ سوال یہ ہے کہ اگر انہیں کیمپوں میں رکھنا ضروری ہے تو اب تک یہ کام کیوں نہیں کیا گیا؟ نہ کرنے والے کون ہیں؟ کس کی ذمہ داری تھی؟ کوئی پوچھ گچھ؟ کوئی مقدمہ؟ کوئی سزا؟ اور اگر اب تک یہ ضروری نہ تھا تو اب کیوں ضروری ہو گیا ہے؟
مسلح افواج کی پریڈ کے دوران علاقے میں قائم مدارس اور مزارات ایک ہفتے کے لیے بند کیے جا رہے ہیں؟ آخر کیوں؟ اگر ان سے خطرہ ہے تو باقی دنوں میں وہ کیوں کھلے رہیں اور خطرے کا باعث بنیں؟ کیا صرف پریڈ سے متعلقہ لوگوں کی جانیں قیمتی ہیں؟
یہ ہیں باہم متناقض پالیسیوں کی چند مثالیں! الل ٹپ وقتی فیصلے‘ باسی کڑھی میں ابال۔ وہ بھی کبھی کبھی! تسلسل ہے نہ دانش مندی! مستقل مزاجی ہے نہ غیر جانبداری! آرمی چیف‘ پولیس کو غیر سیاسی بنانے کی نصیحت کر رہے ہیں‘ اس نصیحت کی نوبت ہی کیوں آئی؟ سول سروس پرزے پرزے‘ لیر لیر‘ بخیہ بخیہ ہو چکی! اقربا پروری عروج پر ہے۔ سب کچھ ان بنیادوں پر ہوتا ہے کہ فلاں کس شہر سے ہے‘ فلاں کس برادری کا چشم و چراغ ہے اور فلاں کی پشت پر کس گردن بلند کا ہاتھ ہے! اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی حیثیت اُس ڈاکخانے سے زیادہ نہیں جو ایک چھوٹی سی گلی میں واقع ہو اور جس کا انچارج بابو ہر روز چھٹی کا انتظار کرنے کے علاوہ کچھ نہ کرتا ہو! سول سرونٹس کے کیریئر چارٹ؟ جہاں تعیناتیاں اوپر سے آنے والے ٹیلی فون پر ہوتی ہوں وہاں پر یہ چارٹ کیسے بنیں گے! سعدی نے کہا تھا ؎
تو کارِ زمیں را نکو ساختی؟
کہ با آسمان نیز پرداختی!
کیا زمین کے معاملات سنور چکے کہ اب آسمان کا رُخ کر رہے ہو؟ یورپی یونین ایک دن میں نہیں بنی۔ اس کی پشت پر صدیوں کا ارتقا ہے۔ پہلے ان ملکوں نے اپنی اپنی حالتیں سنواریں! پھر اتحاد کی طرف گامزن ہیں۔ وہ بھی پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے!!