مگر تم نے مری جاں! مسئلہ سمجھا نہیں ہے

اب یہ معلوم نہیں کہ صبح چار بج کر پچیس منٹ پر وہ خود چل کر آیا یا اس کے قدم ڈگمگا رہے تھے اور کسی اہلکار نے اسے سہارا دے رکھا تھا۔ تاریخ ہر واقعہ کی تفصیل بتا تو دیتی ہے مگر افسوس! صد افسوس! جب بتاتی ہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے!
تختے پر کھڑا ہوتے وقت اس کے ذہن میں ہنگامہ تھا یا سناٹا؟ کچھ معلوم نہیں! ماں کی صورت آنکھوں کے سامنے پھری ہوگی۔ باپ کا چہرہ نظر آیا ہوگا۔ بیوی کا خیال آیا ہوگا اور اپنے بیٹے کا کھِل کھلاتا‘ مہکتا‘ ہنستا چہرہ تو بار بار سامنے آیا ہوگا۔ پھر اسے یقینا وہ تین اشخاص یاد آئے ہوں گے جنہیں وہ جانتا ہی نہیں تھا‘ زندگی میں کبھی ان سے ملا ہی نہ تھا۔ نہ وہ ہی اس سے متعارف تھے۔ اسے تو بس یہ حکم ملا تھا کہ انہیں‘ یا ان میں سے ایک کو۔ ہمیشہ کے لیے چپ کرانا ہے۔ کتنا طاقت ور تھا وہ اُس وقت! کیسے کیسے طاقتور افراد اُس سے مخاطب ہوتے تھے۔ وہ حد درجہ اہمیت کا حامل تھا۔ جیسے ستون چھت کے لیے اہم ہوتے ہیں۔
تاریخ کے مذاق عجیب بے رحم ہوتے ہیں۔ کیا کسی کو رومانیہ کے آمر سی سیسکو کا انجام یاد ہے؟ وہ اور اس کی ملکہ چوہوں کی طرح دیوار سے لگے تھے جب انہیں گولیاں ماری گئیں۔ کیا کعبہ پر حملہ کرتے وقت حجاج نے سوچا تھا کہ ایک دن مردہ اور نیم مردہ امویوں پر قالین بچھا کر‘ اس پر بیٹھ کر‘ عباسی دعوت اڑائیں گے؟ کیا آدھی دنیا کے حکمران برمکیوں کو توقع تھی کہ ان کا انجام تاریخ میں عبرت کا مستقل عنوان باندھے گا؟ جب نصرت بھٹو نے اعلان کیا تھا کہ بھٹو تو پیدا ہی حکومت کرنے کے لیے ہوتے ہیں‘ تو کیا اس کے وہم و گمان میں تھا کہ تینوں بہن بھائی غیر طبعی موت کا سامنا کریں گے؟
تاریخ کے مذاق بے رحم ہی نہیں‘ سفاک بھی ہوتے ہیں۔ ایک بارہ مئی وہ تھی جب جنوب کے ساحلی شہر پر پتا تو کیا‘ زمین پر نظر آنے والا حقیر ترین کیڑا بھی صولت مرزا اور اس کے ساتھیوں کی اجازت کے بغیر اپنا بے بضاعت سفر جاری نہ رکھ سکتا تھا۔ شہر کے گرد فصیل تھی نہ فصیل میں کوئی دروازہ تھا مگر شہر میں پھر بھی صولت مرزا اور اس کے گروہ کے اشارۂ ابرو کے بغیر کوئی نہیں داخل ہو سکتا تھا۔ کسی نے کوشش کی تو گلی کوچے لاشوں سے بھر گئے۔ شاہراہیں مسدود ہو گئیں۔ یہ بارہ مئی ہی تھی جس کا ذکر اُس وقت کے حاکمِ مطلق نے فخر سے کیا تھا کہ ہاں! یہ ہماری طاقت کا مظاہرہ تھا۔ اور یہ بارہ مئی ہی ہے جب صولت مرزا کو تختۂ دار پر لٹکایا گیا۔ بارہ مئی کبھی کیسی ہوتی ہے اور کبھی کیسا روپ دھار لیتی ہے۔
صولت مرزا کا تختہ دار پر لٹکنا محض ایک قاتل کا انجام نہیں‘ ایک علامت ہے اس حقیقت کی کہ ایک نظام یہاں اس نظام کے علاوہ بھی کارفرما ہے جو ہمیں نظر آتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم اُس پر تو غور کرتے ہیں جو دکھائی دیتا ہے‘ مگر اس سے غافل رہتے ہیں جو موجود ہے مگر نظر نہیں آتا ؎
نظر آتا ہے جو کچھ‘ اصل میں ایسا نہیں ہے
مگر تم نے مری جاں مسئلہ سمجھا نہیں ہے
سترہ سال۔ دو سو چار مہینے۔ صولت مرزا موت سے بچتا رہا۔ بچایا جاتا رہا۔ اتنی بڑی طاقت اتنے بڑے سیٹ اپ کے لیے ایک قاتل کو بچانا کیا مشکل تھا! صوبہ کیا‘ وفاق بھی جیب میں تھا۔ جو لفظ منہ سے نکلتا‘ قانون بنتا تھا۔ جو خواہش ظاہر کی جاتی‘ اُسے اسلام آباد کی پہاڑیوں سے لے کر کراچی کے ساحلوں تک‘ پورا کرنے کے احکام صادر ہو جاتے۔ ذرا مزاج بگڑتا دارالحکومت سے وزیر دوڑے جاتے اور اوقیانوس کے مشرقی کنارے دستہ بستہ کھڑے ہو جاتے۔ وضاحتیں ہوتیں‘ معذرتوں کے ڈول ڈالے جاتے۔ وفاق کی وزارتیں تو جاگیر سے زیادہ نہیں تھیں۔ عشروں پر عشرے گزرتے گئے‘ کیا مجال کہ نشان زدہ وزارتوں پر کسی اور کو براجمان کرنے کے بارے میں کوئی سوچ بھی سکتا!
1997ء کے اُس زرد‘ خوفناک‘ مرگ آسا دن‘ جب تین افراد کو صولت مرزا نے بھون ڈالا تھا‘ اگر کوئی صولت مرزا کو کہتا کہ تم پھانسی چڑھ جائو گے تو وہ زور سے قہقہہ لگاتا اور کہنے والے کے کندھے پر زور سے ہاتھ مار کر کہتا کہ کیا بکواس کر رہے ہو؟ مجھے پھانسی دینے والا ابھی پیدا ہی نہیں ہوا‘ ہم پورے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ سترہ سال بعد بارہ مئی کی صبح‘ جب ابھی سورج کی پہلی کرن بھی نہیں پھوٹی تھی‘ صولت مرزا کو وہ سارے وعدے‘ وہ ساری یقین دہانیاں‘ وہ ساری تسلیاں یاد تو آئی ہوں گی جو اسے ان سترہ سالوں پر پھیلے ہوئے دو سو چار مہینوں کے دوران دی گئی تھیں ؎
زمیں پہ زائچے کہتے رہے کچھ اور مجھے
وہ آسماں پہ ستارے مرے بدلتا رہا
صولت مرزا کی پھانسی صرف اُس سیاسی گروہ کے لیے نشانِ عبرت نہیں‘ جس سے صولت مرزا منسلک تھا۔ یہ ہر اُس فرد اور ہر اُس گروہ کے لیے غیب کا آوازہ ہے جو طاقت کے نشے میں مدہوش ہے۔ اقتدار‘ طاقت‘ قوت‘ جبر‘ جلال‘ آخر کتنا عرصہ رہ سکتا ہے؟ پانچ سال؟ پندرہ سال؟ تیس سال؟ ایک خاندان کب تک حکومت کر سکتا ہے؟ ماہ و سال کے حصار سے باہر تو نہیں بھاگ سکتا۔ تقویم کی حدود تو پار نہیں کر سکتا! کہاں ہے وہ فرزند ارجمند جسے حسنی مبارک اپنی جانشینی کے لیے تیار کر رہا تھا؟ اور وہ کڑیل جوان کہاں ہے جس نے قذافی کی مسند سنبھالنا تھی! حافظ الاسد کی کرسی بشارالاسد کو مل گئی مگر تابہ کے‘ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔
افسوس! کوئی عبرت نہیں پکڑتا! ہیہات! کوئی سبق نہیں سیکھتا! بھائی بھائی کی فکر میں ہے‘ باپ بیٹے کی اور کہیں اور کوئی بھائی‘ سب اختیارات اپنی بہن کے ہاتھ میں دیکھنا چاہتا ہے۔ کہاں کے عوام؟ کون سی جمہوریت اور کدھر کی اخلاقیات؟ ایک جنگ ہے زرگری کی اور تخت نشینی کی جو چاروں طرف بپا ہے۔
کھولو! خدا کے لیے آنکھیں کھولو! صولت مرزا کی بے جان لاش کو دیکھ نہیں سکتے تو تصور میں تو لائو۔ اس نظام سے ڈرو جو اس کائنات کو چلا رہا ہے مگر تمہیں نظر نہیں آ رہا۔ ایک رہٹ ہے جو کہیں چل رہا ہے۔ تم اسے دیکھ نہیں سکتے مگر اس نے جن نالیوں کو سوکھا رکھنا‘ اور جنہیں سیراب کرنا ہے نشان زد ہو چکی ہیں۔ ایک چکی ہے جو پیسی جا رہی ہے‘ مسلسل پیسی جا رہی ہے اور جس نے بھی اُس کے پتھروں کے بیچ سفوف بننا ہے‘ اسے ہر حال میں بننا ہے۔ اُس پرندے کو تلاش کرو جو بارہ مئی کی صبح‘ جب ابھی ستارے ماند نہیں پڑے تھے‘ مچھ جیل سے اُڑا۔ اللہ کے بندو! اُسے ڈھونڈو‘ اُسے تلاش کرو۔ چھتوں پر چڑھ جائو‘ وہ بادلوں کے اردگرد ہی ہوگا۔ وہ لاڑکانہ سے بھی نظر آئے گا اور نواب شاہ سے بھی۔ کراچی کی اُس شاہراہ سے بھی نظر آئے گا جس پر ایک مدت دیوار نے‘ لوگوں کی آمدورفت مسدود کیے رکھی۔ یہ پرندہ رائے ونڈ سے بھی دکھائی دے گا‘ لاہور سے بھی۔ بنی گالہ سے بھی اور پشاور سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان تک۔ آسمان کے تمام ٹکڑوں پر‘ شکستہ آئینے کے ہر ریزے میں ضرور نظر آئے گا!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں