ایک خوش آئند آغاز

واحد ناشاد سول سروس کے رکن تھے۔ ساری ملازمت دیانت داری سے کی۔ حد درجہ احتیاط کرتے رہے۔ اپنے کام سے کام رکھا۔ کسی کی کبھی غیبت کی نہ بدگوئی! ایسے ایسے مناصب پر رہے جہاں بہت سوں نے اپنے ''حالات‘‘ بہت بہتر کر لیے‘ مگر انہوں نے کسی سے چائے کا کپ بھی پینا روا نہ جانا۔ 
پھر انہیں وہ پُل صراط پار کرنا پڑا جسے سول سروس میں سٹاف کالج کہا جاتا ہے۔ گریڈ اکیس میں ترقی پانے کے لیے پانچ چھ ماہ کا یہ دشوار گزار‘ سخت‘ کورس کرنا لازم ہے۔ یہ پانچ چھ مہینے شدید مصروفیت کے ہوتے ہیں۔ سٹاف کالج والے کوشش کرتے ہیں کہ جو کچھ کسی کے اندر ہے‘ باہر نکل آئے اور جو کوئی جتنے پانی میں ہے‘ دریافت کر لیا جائے۔ اس میں وہ تقریباً کامیاب ہی رہتے ہیں! اگر کوئی لکھنے میں ماہر ہے تو اس کا پتہ چل جاتا ہے اور اگر کوئی قوتِ تقریر سے‘ ابلاغ سے‘ فنِ گفتگو سے‘ وافر حصہ نہیں پا سکا‘ تو اس کی بھی نشان دہی کردی جاتی ہے۔ 
واحد ناشاد صاحب نے یہ کورس کامیابی سے طے کر لیا۔ بہرطور‘ سٹاف کالج نے جو تحریری رپورٹ ان کے بارے میں حکومت پاکستان کو ارسال کی‘ اس میں ایک آدھ نکتہ منفی تھا۔ صرف ایک آدھ نکتہ! بدقسمتی سے اُن کی بے شمار خوبیاں محرومِ توجہ ہو گئیں اور یہ ایک آدھ منفی نکتہ سامنے رکھ لیا گیا۔ یوں وہ ترقی سے محروم رہے اور خاموشی اور صبر کے ساتھ ایک دن ریٹائر ہو کر گھر چلے گئے۔ 
یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ سٹاف کالج کا کورس سول سروس میں ریڑھ کی ہڈی کی اہمیت رکھتا ہے۔ اس بلند سطح پر‘ بلند تر ذمہ داریاں تبھی سونپی جاتی ہیں جب سٹاف کالج مثبت رائے سے نوازے۔ مگر حکومت پاکستان میں کچھ بھی ہو سکتا ہے! کسی نے پوچھا تھا کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں؟ جواب ملا‘ ہاں! حکومت پاکستان میں برابر ہو سکتے ہیں! واحد ناشاد صاحب کی ریٹائرمنٹ کے کچھ برس بعد ایک اور صاحب سٹاف کالج سے کورس کر کے نکلے۔ ان کے بارے میں سٹاف کالج نے واضح طور پر لکھا کہ ان کی قابلیت اوسط درجے کی ہے اور وہ بھی صرف اپنے شعبے کے میدان میں! سٹاف کالج نے حکومت پاکستان کو ہدایت کی کہ انہیں اگر ترقی دی بھی جائے تو ''روٹین‘‘ کی ذمہ داری دی جائے۔ ان صاحب کی مجموعی طور پر گریڈنگ ''اوسط‘‘ ہی رکھی گئی۔ پھر ترقی کے لیے ان کی قابلیت (Potential) ''محدود‘‘ بتایا گیا۔ یہ بھی واضح طور پر بتایا گیا کہ وہ کسی بھی تربیتی ادارے کے لیے قطعاً غیر موزوں ہیں۔ یہ بھی ہدایت کی گئی کہ انہیں اپنے محکمے سے باہر نہ تعینات کیا جائے۔ 
یہ وہی صاحب ہیں جنہیں گزشتہ ہفتے سپریم جوڈیشل کونسل نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے آئینی منصب سے برطرف کرنے کی سفارش کی۔ اس سفارش پر عمل کرتے ہوئے صدر پاکستان نے انہیں برطرف کردیا۔ 
سپریم جوڈیشل کونسل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس‘ سپریم کورٹ کے دو سینئر ججوں اور صوبائی ہائی کورٹوں سے دو سینئر ترین ججوں پر مشتمل ہوتی ہے اور آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت کسی جج یا آڈیٹر جنرل کے خلاف برطرفی کی سفارش کر سکتی ہے۔ یہ واقعہ اس لحاظ سے تاریخ ساز ہے کہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ جیسا کہ کہا جا رہا ہے‘ پوری دنیا میں پہلی بار کسی آڈیٹر جنرل کو مِس کنڈکٹ (بدعنوانی) کے الزامات پر برطرف کیا گیا ہے۔ 
سٹاف کالج کی واضح ہدایات کے برعکس اُس وقت کی حکومت نے ان صاحب کو ترقی دے کر محکمے سے باہر ایک وزارت میں ایڈیشنل سیکرٹری لگایا۔ اُس وقت کے وزیراعظم کے ساتھ مبینہ طور پر ان کے ذاتی مراسم تھے۔ پھر انہیں گریڈ بائیس دیا گیا اور پھر آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے منصب پر تعینات کردیا گیا۔ میڈیا نے نشان دہی کی کہ وہ کینیڈا کے شہری ہیں۔ ان پر ایک خاتون افسر کو ہراساں کرنے کے الزامات بھی تھے۔ ملٹری اکائونٹس کے ایک نیک نام اور دیانت دار افسر غلام انبیا نے ان صاحب کے خلاف انکوائری کی تھی اور ہراساں کرنے کے الزام کی تصدیق کی تھی۔ پھر آڈیٹر جنرل نے ایک اور اچھی شہرت رکھنے والے افسر ایس ایم عارف کو انکوائری افسر مقرر کیا مگر ایک درخواست وزیراعظم کو بھیجی گئی کہ انکوائری افسر پر اعتماد نہیں۔ بہر طور... پھر انکوائری ہوئی اور معاملہ ''صاف‘‘ ہو گیا۔ حلف لینے سے پہلے اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ نے صدر پاکستان کو مکتوب لکھا کہ ان صاحب کے خلاف فلاں فلاں الزامات ہیں مگر ایوانِ صدر سے معاملہ ''کلیئر‘‘ کردیا گیا؛ تاہم جب ان صاحب سے چیف جسٹس نے حلف لیا تو ساتھ ہی سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے مبینہ الزامات کی فہرست بھی پڑھ کر سنائی۔ ایسا بھی تاریخ میں غالباً پہلی بار ہوا! 
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے آئینی منصب پر تعینات ہونے کے بعد ان صاحب نے بدقسمتی سے ان تمام اداروں سے مخاصمت مول لے لی جن سے آڈیٹر جنرل کا شب و روز کا واسطہ تھا۔ کنٹرولر جنرل آف اکائونٹس یکے بعد دیگرے جتنے بھی آئے‘ ان سے معاندانہ سلوک روا رکھا گیا۔ معاملہ عدالتوں تک جا پہنچا۔ پھر پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کردیا گیا۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی پارلیمنٹ کا حصہ ہے۔ آڈیٹر جنرل کا وجود ہی پارلیمنٹ کا مرہونِ منت ہے۔ وہ آڈٹ کے فرائض اس لیے سرانجام دیتا ہے کہ آڈٹ کی رپورٹیں پارلیمنٹ (یعنی پبلک اکائونٹس کمیٹی) کے سامنے پیش ہوں۔ اس عجیب و غریب انکار کے بعد سارا کام تعطل میں پڑ گیا‘ یہاں تک کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سربراہ جناب خورشید شاہ کو سارا معاملہ سپیکر کے علم میں لانا پڑا۔ 
جن افسروں کو گزشتہ آڈیٹر جنرل حضرات نے مختلف الزامات کی بنا پر ملازمت سے برطرف کردیا تھا‘ وہ عدالتوں سے بحال ہو کر ایک ایک کر کے دوبارہ واپس آ گئے۔ ان صاحب نے آڈیٹر جنرل بننے کے بعد اس قسم کے افسروں کو اپنے نزدیک کر لیا اور انہیں حساس مناصب پر تعینات کردیا۔ اس کی صرف ایک مثال یہ ہے کہ اکائونٹنٹ جنرل پنجاب کا منصب گریڈ اکیس کا ہے مگر وہاں گریڈ انیس کے ایک افسر کو لگایا گیا اور وہ بھی اُس وقت جب مالی سال ختم ہونے کو تھا اور ادائیگیوں کا رش تھا(!)۔ صوبائی حکومت کو ایسے میں بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ 
پھر یہ شکایات منظرِ عام پر آنا شروع ہو گئیں کہ آڈیٹر جنرل اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی تنخواہ اور مراعات میں ناروا اضافہ کر رہے ہیں۔ حکومت آخرکار شکایت لے کر سپریم جوڈیشل کونسل پہنچ گئی۔ ایک افسر عرفان جہانگیر وٹو نے بھی جس کے ساتھ مبینہ طور پر تعیناتی اور ترقی کے سلسلے میں زیادتی ہوئی تھی‘ متعدد ثبوت لے کر کونسل میں مقدمہ دائر کردیا۔ وہ خاتون افسر بھی کونسل کے سامنے پیش ہوئی جسے ہراساں کرنے کا الزام منظر عام پر آیا تھا۔ کئی ماہ مقدمہ چلتا رہا۔ بالآخر سپریم جوڈیشل کونسل نے آڈیٹر جنرل کو برطرف کرنے کی سفارش کردی اور صدر پاکستان نے 23 مئی کو ان صاحب کو برطرف کردیا۔ 
اب جناب اسد امین نے نئے آڈیٹر جنرل کے طور پر حلف اٹھایا ہے۔ اسد پیشہ ورانہ امور میں مہارت رکھتے ہیں۔ وہ دیانت داری اور مثبت شہرت کے حامل ہیں۔ وزارت خزانہ میں سیکرٹری رہے اور پھر دو سال وزارت خزانہ ہی میں مشیر کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے۔ تحریر اور تقریر دونوں پر دسترس رکھتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ میرٹ کو پیش نظر رکھنے کے لیے مشہور ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ اس آئینی منصب کو دوسرے اہم اداروں سے خواہ مخواہ کی مخاصمت مول لینے میں جو نقصان ہوا‘ اس کا ازالہ ہوگا اور پارلیمنٹ کی مؤثر طریقے سے معاونت کی جائے گی! ادارے مضبوط ہوں گے تو ملک میں قانون کی برتری ہوگی! ادارے اسی صورت میں مضبوط ہو سکتے ہیں جب اہل افراد کو ان کا سربراہ بنایا جائے۔ اقربا پروری اور دوست نوازی کا رویہ ریاستی ڈھانچے کو گُھن کی طرح کھا جاتا ہے۔ اس سے احتراز کرنا ہوگا! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں