یہ اگست 2012ء کا ایک دن تھا۔ ہمارے ہوسٹل میں صفائی ستھرائی کرنے والی خاتون جس کی عمر پچاس کے لگ بھگ ہوگی، لنگڑا کر چل رہی تھی۔ میں نے پوچھا اماں! کیا ہوا؟ کہنے لگی بیٹا کچھ دن پہلے پائوں پر چوٹ لگی تھی، ابھی تک ٹھیک نہیں ہوئی۔ ایک دودن سے دردکچھ زیادہ ہو رہا ہے۔ پوچھا‘ آپ ڈاکٹر کے پاس گئیں؟ کہنے لگی‘ مہینے کی دس تاریخ کو تنخواہ ملے گی تو جائوں گی۔ ابھی پیسے نہیں ہیں۔ میں نے پائوں کو غور سے دیکھا۔ زخم تھا اور گہرا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے بروقت علاج نہ ہونے سے خراب ہو رہا ہے۔ میں نے اپنے کزن کوبلایا۔ ہم اماںکو قریب کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں لے گئے۔ ڈاکٹرنے زخم کا معائنہ کیا تو سیخ پا ہوا۔ دو دن اور نہ آتے تو شاید پائوں ہی کاٹنا پڑ جاتا۔ آپ لوگوں کوشرم نہیں آتی۔ کب کا لگازخم بگڑ چکا ہے۔ ڈاکٹر کی لعن طعن سن کر، جو ہمارے لئے تھی، اماں کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگ گئے۔ ڈاکٹر سے مخاطب ہو کر کہنے لگی۔ ''پتر! بے شک میری جیب چیک کرلو، ایک روپیہ بھی نہیں ہے۔ تم ڈاکٹر لوگ ادھار بھی نہیں کرتے۔ کیسے آتی!‘‘ اماں کے میاں کی وفات ہو چکی تھی۔ ایک معذور بیٹی کی پرورش بھی اس کی ذمہ داری میں شامل تھی۔ ہم نے اس کا علاج کرایا۔ اللہ نے اسے صحت دی۔
اس واقعہ نے ہمیں ایک نئے پہلوسے روشناس کرایا کہ ہم سوشل میڈیا پر اوراپنے اپنے حلقوں میں انسانی دکھوں پرنوحہ خوانی کرتے رہتے ہیں۔ مگر معاملہ نوحہ خوانی سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔ یہ اور بات کہ ہمیں ایک نفسیاتی تسکین حاصل ہو جاتی ہے کہ ہم دردمند ہیں اور پسے ہوئے طبقات کی فکر کرتے ہیں! مگر عملی طور پر کسی کے دکھ کا مداوا نہیں ہوتا۔ ہم چند دوستوں نے اللہ کا نام لے کر گھروں میںکام کرنے والی عمر رسیدہ خواتین کیلئے اپنی جیبوں کی مدد سے مالی منصوبہ بندی کی۔ بے سہارا خواتین کی تعداد اچھی خاصی تھی۔ ہم نے ہر تین ماہ بعد اپنے محدود پیمانے پر راشن، ادویات اور کپڑے مہیا کرنے کا کام شروع کیا۔ رمضان اور عید پر اس کے علاوہ بندوبست کیا۔ چراغ سے چراغ جلتا گیا۔ پھر کچھ غریب طلبہ بھی رابطے میں آئے جو دورافتادہ دیہات اور چھوٹے چھوٹے قصبوں سے تعلیم حاصل کرنے لاہور آئے تھے۔ مگر تعلیمی اخراجات پورے کرتے تھے تو رہائش ان کی استطاعت سے باہر ہو جاتی تھی اور سر چھپانے کا انتظام کرتے تھے تو فیسیں ادا نہ کرپاتے تھے۔ ہم نے ان کی مدد کی۔ پھر کسی نیک دل نے مشورہ کیا کہ اس کام کو منظم صورت میں کرو۔ ہم نے کچھ اور دوڑ دھوپ کی اور جہاں ساز کے نام سے ادارے کی بنیاد رکھ دی۔
یہ تحریر نوجوانوں کے ایک گروہ کی ہے۔ خدمت خلق کا یہ کام جو نوجوان کر رہے ہیں وہ خوشحال طبقے سے تعلق نہیں رکھتے۔ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو پارٹ ٹائم ملازمتیں کرکے اپنے تعلیمی اخراجات پورے کر رہے ہیں اور اوسط معیار کی رہائش گاہوں میں رہ رہے ہیں۔ کچھ لاہور سے ہیں اور کچھ باہر سے آئے ہوئے ہیں۔ مگر بے غرضی اور عزم صمیم کے ساتھ، جو کچھ ان کی بساط میں ہے، اپنے سے نیچے والوں کو سنبھالنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ کوئی تعاون کردے تو ٹھیک۔ ورنہ اپنی محدود آمدنیوں کا ایک حصہ اپنے ''مشغلے‘‘ پر صرف کر رہے ہیں۔ اس ''مشغلے‘‘ سے انہیں وہی لطف حاصل ہوتا ہے‘ جوکچھ اورنوجوانوں کو دوسری قبیل کی تفریح سے ملتا ہے۔
اب ایک اور منظر دیکھئے۔ ایک ٹیلی ویژن چینل پر رمضان کی پذیرائی کا پروگرام چل رہا ہے۔ اینکر کو ماشاء اللہ زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے۔ ایک دو سالہ بچے کو پیش کیا جاتا ہے جو پیدائشی معذور ہے۔ اس کے ہاتھ پائوں نارمل نہیں ہیں۔ بچے کی ماں کو سکرین پر لایا جاتا ہے۔ وہ عفیفہ رو رو کر داستان الم سناتی ہے۔ اس کا جس طبقے سے تعلق ہے، وہ ہسپتالوںکے خراجات نہیں برداشت کرسکتا۔ جبکہ ڈاکٹروں نے ایک نہیں یکے بعددیگرے متعدد آپریشن تجویز کر رکھے ہیں۔ اخراجات کا تخمینہ پچیس تیس لاکھ روپے کا ہے۔ ناظرین سے درخواست کی جاتی ہے کہ اپنی نیک کمائیوں سے کچھ حصہ اس بچے کی معذوری دور کرنے کیلئے مختص کریں۔ تین لاکھ کا بندوبست فوراً ہو جاتا ہے مگر یہ کل اخراجات کا صرف دس فیصد بنتا ہے۔ مزید کیلئے التماس کی جاتی ہے۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس پروگرام میں ایک معروف مذہبی اور کاروباری شخصیت بھی موجود ہے جس کے ملک گیر بزنس کے سامنے پچیس تیس لاکھ روپے کی وقعت وہی ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرے کی ہوگی۔ ثقہ راویوں کا کہنا ہے کہ وہ ہرماہ ایک خطیر رقم ان مدارس کو نذر کرتے ہیں جو اٹلانٹک پار چل رہے ہیں۔ تعجب اس پر ہوا کہ عطیات مانگنے میں وہ بھی اپنا حصہ ڈال رہے تھے اور ناظرین کو بتا رہے تھے کہ اس کارخیرکا اجر کتنا عظیم ہے!
اس میں کیا شک ہے کہ من حیث القوم ہم تضادات کا ایسا مجموعہ ہیں جو سمجھنے کا ہے نہ سمجھانے کا! ایک طرف بتایا جاتا ہے کہ خیرات و صدقات (Charity) اور فلاحی کاموں کے اعتبار سے پاکستان دنیا میں ممتاز مقام رکھتا ہے۔ ایدھی ٹرسٹ سے لے کر الخدمت فائونڈیشن، الرشید ٹسٹ اور جماعت الدعوۃ کے عوامی بہبود کے منصوبوں تک پورے ملک میں ایک جال بچھا ہے جو زلزلوں، سیلابوں اور دیگر ارضی و سماوی آفات کے وقت متاثرین کی دستگیری کرتاہے۔ ماہ رمضان کے دوران مسجد نبوی میں افطار کے دستر خوانوں کے لیے ہمارے ہاں سے کروڑوں روپے بھیجے جاتے ہیں، دوسری طرف معذور بچے کی ماں کو پچیس تیس لاکھ روپوں کے لیے سکرین پر آ کر کروڑوں ناظرین کے سامنے سسکیاں اور ہچکیاں لینا پڑتی ہیں اور اس سے چند منٹ کے فاصلے پر ایسی شخصیات موجود ہیں جن کا محض اشارہ ابرو اس رقم کا چند ثانیوں میں انتظام کر سکتا ہے۔ ابھی چند ہفتے پیشتر ایک کالم نگار کو قارئین کی توجہ اس نادار مریض کی طرف مبذول کرانا پڑی جس نے لیور ٹرانسپلانٹ کرانا تھا۔ ملک میں لاکھوں مفلوک الحال مریض ڈایالیسز کی سہولت سے محروم ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں جا کر دیکھیے، پسے ہوئے طبقات سے تعلق رکھنے والے معصوم بچے اور خواتین عام ادویات کے لیے بھی گھنٹوں کیا پہروں انتظار کی اذیت جھیلتی ہیں۔ پرائیویٹ شفا خانے روپے کی جو مقدار طلب کرتے ہیں، چند ہی خوش نصیب اس کی استطاعت رکھتے ہیں۔ بوڑھی عورتیں جو خود زندگی کے اس مرحلے پر ہیں کہ دیکھ بھال کی مستحق ہیں، گھروں میں صفائی اور برتن دھونے کی مشقت کرتی
پھرتی ہیں۔ ستر ستر سال کے بوڑھے سارا دن ریڑھیوں پر پھل بیچ کر، یا مکی کے بھٹے بھون کر، دو وقت کی روٹی کا بندوبست کر رہے ہیں۔ اگر ہم صدقات و خیرات اور فلاحی کاموں میں ممتاز مقام رکھتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ کثیر تعداد میں بے بس، بے کس، بوڑھے، بیمار اور نادار افراد ان صدقات سے‘ اس خیرات سے اور ان فلاحی سرگرمیوں سے کوئی استفادہ نہیں حاصل کر پا رہے؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے لاشعور میں یہ بٹھا دیا گیا ہے کہ صدقات و خیرات کے بہترین مستحق مدارس ہیں۔ ہماری چیریٹی کا بہائو ایک خاص سمت میں ہے۔ آخر کیوں؟ ہمیں یہ تو بتایا جاتا ہے کہ فی سبیل اللہ کا معنی ''فی اقامت دین اللہ‘‘ ہے مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ کلام پاک میں ''طعام المسکین‘‘ کی کیا اہمیت بیان کی گئی ہے! مساجد سے لے کر، موٹر وے کے ریسٹ ایریا تک چندے کی صندوقچیاں رکھنے والے ہمیں یہ نہیں تلقین کرتے کہ سائل کو جھڑکنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔
کاش ! کوئی ایسا فلاحی ادارہ بھی اس ملک میں قائم ہو جو ایک نظام کے تحت، مستحق مریضوں کو مطلوبہ رقوم پہنچا سکے یا ان کے علاج معالجے کا بندوبست کر سکے یوں کہ انہیں کروڑوں لوگوں کے سامنے آ کر گر یہ وزاری نہ کرنی پڑے۔ لائق لیکن غریب طالب علموں کاہاتھ پکڑا جاسکے اور بوڑھوں، بیوائوں اور سفید پوشوں کے کانپتے کندھوں کو سہارا مل سکے۔ چھوٹی چھوٹی تنظیمیں تو بے شمار ہیں لیکن ایک مربوط اور خود کار نظام دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا۔ ایسے میں کوئی ضرورت سے زیادہ حاصل کر لیتا ہے اور کسی کو روٹی کا ایک ٹکڑا نصیب نہیں ہوتا۔ جگر مراد آبادی نے ہمارے تضادات ہی کا شاید ماتم کیا تھا ؎
جہلِ خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انساں، بڑھ گئے سائے