اُونٹوں کو پکڑیے! اُونٹوں کو

اللہ کے بندو!کوئی ہے جو اس ہا ہا کارمیں چھوٹے مرزا کی بھی فکر کرے!
شور ہے اورغضب کا شور ہے۔ کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی!کچھ ہوش کرو! کہیں ایسا نہ ہو کہ جن اونٹوں کو پکڑنا ہے، وہ صحرا کی بے کنار وسعتوں میں گم ہو جائیں اور تم لومڑیوں کو پکڑتے پھرو! ساری باتیں تمہاری درست ہیں مگرمجھے ڈر ہے کہ چھوٹے مرزا کا انجام وہ نہ ہو جس سے لومڑی ڈر رہی تھی!
مرزا صاحب، یعنی بڑے مرزا صاحب، تقسیم کے وقت آئے تو لکھنئو میں اچھی خاصی بڑی حویلی چھوڑ کر آئے تھے۔ لالوکھیت میں دو کمروں کا کوارٹرنما مکان ملا تو اسی پر خوش ہوگئے۔ دو کمروںکا بھی یوں کہ ایک تو کمرہ تھا اوردوسرا چھپر تھا۔ پاکستان بن جانے کی اور پھر پاکستان پہنچ جانے کی مسرت اس قدر تھی کہ مقابلے میں باقی چیزیں ہیچ لگ رہی تھیں۔ وہاں لیکچرار تھے۔ یہاں چھوٹی سی کلرکی کو بھی غنیمت جانا!
مرزا صاحب اس نسل سے تھے جس نے پاکستان کیلئے جدوجہد کی تھی اور وہ بھی اس علاقے میں جہاںمسلمان اقلیت میں تھے۔ یوپی کے مسلم لیگیوںکو معلوم تھا کہ ان کا صوبہ پاکستان میں شامل ہونے سے رہا، مگر اقبال نے خطبہ بھی تو الہ آباد میںدیا تھا! مسلمان اقلیت میں سہی، مگر نظریاتی مرکز تحریک پاکستان کا وہیں تھا!
بس! یہی وہ خطوط تھے جن پر بڑے مرزا صاحب نے چھوٹے مرزا کی تربیت کی۔پاکستان اول۔ پاکستان آخر۔ یوپی کے تھے مگر وہ تو تاریخ ہے۔ اب ہم پاکستانی ہیں۔ پاکستانی رہیں گے۔ پاکستانی مریں گے!
پھر مرزا صاحب رخصت ہوگئے۔ چھوٹے مرزا نے دل میں اور دماغ میں وہ چراغ جلائے رکھا جس کی لو بڑے مرزا صاحب اونچی کر گئے تھے۔
مگر یہ لو، کچھ اور دلوں میں، مدھم ہونے لگی۔ کچھ اور دماغوں میں پاکستان پیچھے اوردوسری خواہشات آگے ہونے لگیں۔
زمین پہ زائچے کہتے رہے کچھ اور مجھے
وہ آسماں پہ ستارے مرے بدلتا رہا
چھوٹے مرزا نوکری کے لئے جہاںجاتے، انٹرویو اچھا ہو جاتا مگر نتیجہ کچھ نہ نکلتا۔ تعیناتی کی چٹھی نہ آتی۔ جوتیاں چٹخاتے چٹخاتے انہیں معلوم ہونے لگا کہ اصل کھیل اور ہے۔ کہتا کوئی نہیں مگر دیکھتے یہ ہیںکہ امیدوار سندھی ہے یا پنجابی۔ بلوچی ہے یا کشمیری! چھوٹے مرزا نے اور ان کے بچوں نے یہ بھی دیکھا کہ بڑی بڑی کوٹھیوں کے پھاٹکوں پر کلاشنکوف بردار چوکیدار تھے۔ اندر سے جہازی سائز کی گاڑیاں نکلتیں جن میں خوفناک مونچھوں والے وڈیرے سوار ہوتے۔ چھوٹے مرزا کے بچے یونیورسٹی میں پہنچے تو لسانی اور نسلی بنیادوں پر۔ طلبہ کی بغیر کسی مبالغے کے‘ ایک درجن تنظیمیں تھیں جن میں ایک بھی ایسی نہ تھی جو مرزا کے بچوں کو اپنی آغوش میں لے سکتی ۔ اسی لئے کہ وہ سندھیوں کے لئے تھیں اور بلوچوں کے لئے اور کشمیریوں کے لئے اور پنجابیوں کے لئے۔ یہاں تک کہ سرائیکی اور براہوی بولنے والوں کی طلبہ تنظیمیں بھی الگ تھیں۔
یہ تھے وہ حالات جن میں آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن بنی۔ مرزا کے بچے اس میں شامل ہوگئے۔ اور کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا۔ پھر ایم کیو ایم وجود میں آئی اورچھوٹے مرزا اور وہ سارے جواپنے آپ کو پاکستانی کہتے تھے تو آگے سے سوال ہوتا تھا۔''مگر ہو کہاں کے؟‘‘ وہ سارے ایم کیو ایم میں شامل ہوگئے!
آج بڑے فخر سے اور بہت رنج سے بتایا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم کے غلبے سے پہلے کراچی پر فلاں مذہبی جماعت حاوی تھی اور فلاں بظاہر سیاسی مگر اندر سے مذہبی گروہ مقبول تھا۔ لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ ان جماعتوں نے اور ان گروہوں نے کراچی کے پاکستانیوں کو... جو صرف اور صرف پاکستانی تھے‘ ان خوفناک پارٹیوں سے کیوں نہ بچایا جو صوبوںکی اور زبانوں کی شناخت پر حکومت کرنا چاہتے تھے۔
آخر یہ لوگ کہاں جاتے؟ مگر یہ سمندر پار بیٹھے ہوئے ایک لیڈر کی سنجیدگی سے خالی تقریریں نہ سنتے تو کیا کرتے۔ تم نے انہیں خود ہی تو مجبورکیا تھا کہ صرف پاکستانی ہونے سے پاکستان میں کوئی کامیابی نہیں ملے گی۔ اس لئے اپنی لسانی اور نسلی شناخت پیدا کرو۔
تم ہمیں کیا نئی منزل کی بشارت دیتے
تم تو رستہ نہیں دیتے ہمیں چلنے کے لئے
الطاف حسین اور ان کی چند رکنی کچن کیبنٹ چھپ چھپ کر،جس راستے پر چل رہی تھی، اس کا انجام قریب ہے۔ ڈراپ سین ہونے والا ہے۔ بھارت سے مالی اور کسی بھی قسم کی مدد حاصل کرنا ناقابل معافی جرم ہے۔ جن نیم خواندہ افراد کو نہ جانے کیا کیا پٹیاں پڑھا کر دہشت گردی کی تربیت حاصل کرنے کیلئے دشمن ملک میں بھیجا جاتا رہا، وہ مجرم تو ہیں مگراصل مجرم وہ ہیں جنہوں نے ان کی دماغ شوئی (برین واشنگ) کی اورانہیں اس جہنم میں دھکیلا۔
کیا کوئی اس سوال کا جواب دے گا کہ ملک میں ایسی سیاسی جماعتیںکیوں کام کر رہی ہیں جن کے کِیسے میں لسانی اور نسلی تعصب کے سوا کچھ بھی نہیں! کیا اے این پی میں کوئی غیر پختون شامل ہوسکتا ہے؟ کیا مسلم لیگ نون نے کبھی اپنے دست راست محمود اچکزئی سے پوچھا ہے کہ جناب آپ کی سیاست صرف ایک مخصوص زبان بولنے والوں کے گرد کیوں گھومتی ہے؟ پیپلزپارٹی جب ''سندھ کارڈ‘‘ کی دھمکی دیتی ہے تو اس وقت ''پاکستان کارڈ‘‘ کو کیوں کوئی بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ جے یو آئی صرف خاص عقیدہ رکھنے والوں تک کیوں محدود ہے؟ دیگر مکتب فکر کے لوگوں کے لئے اس کے دروازے کیوں نہیں کھلتے۔ اپنے نام میں ''اسلام‘‘ کو استعمال کرنے والی جماعتیں، کیا دوسروں کو غیر اسلامی قرار دیں گی؟
کوئی مانے، یا نہ مانے، تلخ حقیقت جس سے انکار کرنا تاریخ کو جھٹلانا ہے، یہ ہے کہ پاکستان کو لسانی، صوبائی، علاقائی اور نسلی ٹکڑوں میں مہاجروں نے نہیں تقسیم کیا! اس کارخیر کی ابتدا تو ہم پنجابیوں ، پٹھانوں، سندھیوں، بلوچوں اور کشمیریوں نے کی۔ کیا یہ سچ نہیں کہ پنجاب بھر میں انتخابات میں فیصلہ کن کردار برادریاں ادا کرتی ہیں۔ کیا قاف لیگ کے دور اقتدار میں جاٹوں کی گڈی چڑھی ہوئی نہیں تھی؟ کیا اب ایک خاص شہر اور ایک خاص برادری فوائد حاصل کرنے میں نمایاں ترین نہیں؟ جو یہ تبرا بھیجتے ہیں کہ اتنی مدت بعد بھی یہ مہاجر ہیں، وہ یہ کیوں نہیں پوچھتے کہ پاکستان بننے کے اتنی مدت بعد بھی دوسرے پشتون، بلوچی اور سرائیکی کیوں ہیں اورتعیناتیاں کرتے وقت کشمیریوں کو کیوں تلاش کیا جاتا ہے؟ ''اپنے بندے‘‘ کا معنی خیز محاورہ کس نے عام کیا، کہاں سے نکلا اور آج یہ کس کا تکیہ کلام ہے؟
ایم کیو ایم کی اکثریت محب وطن ہے۔ اس کے چوٹی کے لیڈروں نے اس کے عام ورکر کودھوکہ دیا۔ خالد مسعود خان نے ایک کالم میں بتایا تھا کہ لاس اینجلس کے گراں ترین علاقے میں کس لیڈرکے اہل خانہ مقیم ہیں، اس جماعت نے مڈل کلاس کے نام پر، مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے رہنمائوں کو اپر کلاس بلکہ اس سے بھی اونچی کلاس تک پہنچا دیا اور ورکر ورکر ہی رہا۔ آج اگراس جماعت پر پابندی لگتی ہے تو چھوٹے مرزا کیلئے کونسی جائے پناہ بچے گی؟
مجرموں کو ضرور سزا ملنی چاہیے۔ دشمن ملک سے گٹھ جوڑ کرنے والے ہم میںسے نہیں۔ لیکن ایم کیو ایم کا عام ورکر ہم میں سے ہے۔ الزام کا سایہ اس پر نہیں پڑنا چاہیے۔
سعدی نے لکھا ہے کہ لومڑی بھاگی جا رہی تھی۔ بھاگنے کا سبب پوچھا گیا، کہنے لگی۔
''اونٹوں کو پکڑ رہے ہیں‘‘
''مگر تم تو لومڑی ہو، اونٹ نہیں!‘‘
''پکڑنے والے پوچھیں گے تھوڑی ہی‘‘
''تو جناب! اونٹوں کوپکڑیے۔ غریب لومڑیوں کو چھوڑ دیجیے۔ دیکھیے! کہیں اونٹ آپ کی دسترس سے نکل نہ جائیں!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں