یہ کمی کمین‘ یہ پتلی تنبولی‘ یہ نیچ‘یہ کم ذات‘ یہ بداصل ‘ یہ سفلے ‘ جب اپنے چھوٹے سے جزیرے سے نکلے ہیں تو ان کے فرشتوں کو بھی معلوم نہ تھا کہ جاہ و منصب کے تقاضے کیا ہوتے ہیں‘ ارسٹو کریسی کس چڑیا کا نام ہے۔ عالی نژاد کون ہوتے ہیں اور اونچے خانوادوں کے طور اطوار کیا ہوتے ہیں؟ برطانیہ کے بالشت بالشت بھر کے ڈیڑھ دو جزیروں میں یہ لوگ ڈربہ نما گھروں میں رہتے تھے۔ نوکر تھے نہ خادمائیں۔ یہ تو ہمارے ہاں آ کر انہیں معلوم ہوا کہ حاکم کیسے رہتے ہیں اور حکمرانی کے آداب ہیں۔ خرچ کے معاملے میں تو یہاں آ کر بھی یہ کم ظرف ہی رہے۔ کہاں ہمارے نواب اور بادشاہ جو چاندی میں تلواتے تھے‘ موتیوں سے منہ بھر دیتے تھے‘ خلعتیں اور جاگیریں‘ صوبیداریاں اور مناصب اپنی صوابدید پر بارش کی طرح برساتے تھے‘ یہ گنوار جب آئے تو پہلے دن ہی سے فنانس کے بیوروکریٹ اور کمپٹرولر اور آڈیٹر جیسے منشی خزانے پر بٹھا دیے ۔ گھر تو بڑے بڑے لے لیے‘ نوکر چکر بھی رکھ لیے کہ برصغیر میں افرادی قوت کثیر تھی مگر پیسہ خرچ کرنے میں کم اصل ہی رہتے۔ ریاستوں میں تعینات انگریز ریذیڈنٹ ‘ والیان ریاست کی پر زور سفارشیں کرتے مگر گورنر جنرل‘ اور بعد میں وائسرائے‘ شعبہ مالیات سے پوچھے بغیر کچھ بھی نہ کرتے۔ سفارشیں‘ خواہ سفید چمڑی والے ہی کرتے‘ چھان پھٹک کی نذر ہو جاتیں!
واجد علی شاہ نے ‘ جسے بہت سے مورخ ہندوستان کا آخری تاجدار مانتے ہیں‘ ایک گولی چلائے بغیر‘ جب اودھ کی سلطنت کمپنی بہادر کے حوالے کر دی تو ''مالکوں‘‘ نے اسے کلکتہ میں محبوس کر دیا۔ ''غیرت‘‘ دیکھیے کہ والدہ کو جو ''جناب عالیہ‘‘ کہلاتی تھیں‘ لندن بھیجا کہ ملکہ برطانیہ سے مل کر سلطنت واپس لینے کی کوشش کریں۔ ملکہ کا کیا اختیار تھا! گفتگو موسم اور سفر کے حالات تک محدود رہی۔ جناب عالیہ پیرس تشریف لے گئیں۔ ٹرین سے اتریں تو چاروں طرف سے بند پالکی میں بیٹھیں جسے آٹھ کہارنیں اٹھائے ہوئے تھیں۔ افسوس‘ دوسرے دن وفات پا گئیں‘ تدفین پیرس میں ہوئی۔
بات دوسری طرف نکل گئی۔ مقصود اس بیان کا یہ تھا کہ واجد علی شاہ کی حکومت چلی گئی‘ انگریز سرکار نے ایک لاکھ روپے ماہوار پنشن مقرر کی مگر اودھ کے اس تاجدار نے ثابت کر دیا کہ بادشاہ بادشاہ ہوتے ہیں۔ ذہنی طور پر ایک دن بھی تسلیم نہ کیا کہ وہ معزول ہیں یا قیدی‘ یا محتاج یا ماتحت! طور اطوار شاہانہ ہی رکھے۔ انگریز حکومت نے کلکتہ کے دکانداروں کو نوٹس تک بھیجے کہ ادھار واپس نہ ملا تو حکومت ذمہ دار نہ ہو گی‘ مگر حکمرانی کے طور طریقے بدلے تھوڑی جاتے ہیں! بادشاہ کے ساتھ چھ ہزار افراد کی ''رعیت‘‘ تھی! ان کے لیے کلکتہ کے گراں ترین علاقے ''گارڈن ریچ‘‘ میں محلات لیے گئے ۔ کھانے پینے کے برتنوں پر جواہرات جڑے تھے۔ چاندی سونے کا استعمال وافر تھا ۔ فانونس جھاڑ گراں بہا تھے ۔ باغبان ‘ خاکروب‘ اصطبل کے ملازم‘ آب بردار ‘ کوچوان‘ انجینئر‘ چراغ جلانے والے‘ کشتیاں کھینچنے والے‘ دربان' پیغامبر‘ بڑھئی‘ باورچی‘ بیرے ‘ شیرین ساز‘ پان اٹھانے اور لگانے والے‘ حقہ بردار‘ دھوبی‘ درزی‘ اطباء‘ قرآن پاک پڑھنے والے قاری‘ تعزیہ بنانے والے ماہرین‘ شعرا‘ فنکار‘ رقاص ‘ مسخرے ‘ سب ہر وقت حاضر تھے۔ چڑیا گھر بھی لکھنؤ سے ساتھ آیا تھا۔ شیر‘ چیتے‘ ہاتھی ‘ گھوڑے‘ زرافے ‘ بندر‘ انواع و اقسام کے ہرن ‘ اور دیگر جانور سینکڑوں کی تعداد میں تھے‘ قیمتی پرندوں کے علاوہ چوبیس ہزار کبوتر تھے‘ ایک سو مور تھے‘ کئی قسموں کے سانپ
تھے ۔ اس زمانے میں (یعنی 1857ء سے لے کر 1887ء تک) ان جانوروں کی خوراک کا ماہانہ خرچ نو ہزار روپے تھا۔!
وفات کے وقت جب انگریز حکومت بادشاہ کی باقیات سے نمٹ رہی تھی تو بیگمات اور کنیزوں کی تعداد دو سو باون نکلی! اشراف اشراف ہوتے ہیں۔ بادشاہ نے انگریز حکومت کو لکھا کہ اسے اکیس توپوں کی سلامی کا حقدار قرار دیا جائے‘ لیکن رذیل رذیل ہوتے ہیں۔ سفید فام حکمران ہنسے کہ یہ اب بھی اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا ہے! کمی کمین کیا جانتے کہ شاہ جہانی کسے کہتے ہیں اور جہاں پناہی کیا چیز ہے!
آج پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ کم اصل انگریز تو چلے گئے مگر ہمارے کچھ ہم وطن ہمارے عالی جاہ محبوب حکمرانوں کے شاہانہ طرز زندگی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں۔ ہم سخت الفاظ استعمال نہیں کر سکتے کہ یہ ہماری اپنی قوم کے لوگ ہیں مگر اتنا ضرور کہیں گے کہ اپنے حکمرانوں کی عزت کا خیال کرو اور نچلی سطح پر نہ آجائو! گاڑیوں ہی کا مسئلہ لے لیجیے۔ تیس ارب روپے کیا خرچ ہوئے ہیں کہ قیامت برپا ہو گئی ہے! اللہ کے بندو! اگر وزیر اعظم کے سکیورٹی سکواڈ میں بی ایم ڈبلیو گاڑیوں کی تعداد آٹھ ہو گئی ہے تو غوغا برپا کرنے کی کیا تک ہے! پہلے اتنا تو پتہ کر لو کہ مغل بادشاہ جب باہر نکلتے تھے تو کتنے گھوڑے اور کتنے ہاتھی جلوس میں ہوتے تھے۔ کیا تم
لوگ یہ چاہتے ہو کہ ہمارے حکمران بھی برطانیہ‘ امریکہ اور دوسرے نیچ ذات ملکوں کے سربراہوں کی طرح کسمپرسی کے عالم میں سفر کریں۔ اگر ہالینڈ یا سکینڈے نیویا کے حکمران سائیکلوں پر سوار ہو کر دفتر آتے ہیں تو یہ کوئی انداز حکمرانی تو نہ ہوا۔ ڈنمارک کی ملکہ خود سبزی خریدنے آتی ہے۔ آتی ہو گی ہم یہ حرکتیں نہیں کر سکتے عزت دار لوگ ہیں۔ نجیب الاصل ہیں۔ مغل بادشاہ تہوار منانے کشمیر یا دیگر باعزت مقامات پر جاتے تھے۔ اس شاہانہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے زرداری صاحب دبئی‘ وزیر اعظم صاحب سعودی عرب اور خادم اعلیٰ لندن چلے تو گئے مگر تنقید کے نشتر ہیں کہ تھم ہی نہیں رہے۔ معصوم گڑیا کے نکاح کی تقریب تھی۔ جہاز میں مہمان کیا چلے گئے کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی ۔ نیو یارک ایئر پورٹ پر مسافر انتظار کرتے رہے! تو اپنے حکمرانوں کے لیے کیا اتنی قربانی بھی نہیں دے سکتے؟
کچھ حضرات کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ملک میں لوگ بھوک سے خودکشیاں کر رہے ہیں‘ ہر طرف ڈاکوئوں کا راج ہے‘ اغوا برائے تاوان کا رواج عام ہے‘ عوام کبھی گیس کے لیے تو کبھی پٹرول کے لیے پہروں قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں‘ ادارے منہدم ہو گئے ہیں‘ گیس بجلی اور پانی کے محکمے جلاد بنے بیٹھے ہیں‘ کرپشن عروج پر ہے‘ نالائقی اور نااہلی کا یہ عالم ہے کہ نو تعمیر میٹرو کے روٹ اور سٹیشن ایک بارش بھی نہ سہار سکے۔ اس شرمناک صورتحال میں حکمران اپنی سکیورٹی‘ اپنے دوروں اور اپنے خاندانوں پر اربوں روپے قومی خزانے سے لگا رہے ہیں تو یہ بدترین طرز حکومت ہے‘ مگر ہم اس نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کرتے۔ حکمرانوں کی شان و شوکت ہمیں ہر حال میں مقدم رکھنی چاہیے۔یہ قوم کی عزت کا سوال ہے!
ہمارے بادشاہ جب شکار کے لیے نکلتے تھے تو راستوں پر عام لوگوں کا چلنا پھرنا بند کر دیا جاتا تھا۔ کوئی بھولا بھٹکا آداب جلوس سے ناواقف‘ شاہی روٹ پر آ نکلتا تو لٹھ بردار اسے سیدھے جنت میں پہنچا دیتے تھے۔ یہی ہماری روایات ہیں۔ خاندانی قومیں روایات کی پاسداری کرتی ہیں ۔ صدر مملکت عید کی نماز ادا کرنے فیصل مسجد تشریف لائے تو سکیورٹی والوں نے عوام کا مسجد میں داخلہ بند کر دیا۔ ایک اندازے کے مطابق آٹھ سے دس ہزار نمازی مسجد میں آنے سے روک دیے گئے۔ ان کی نماز رہ گئی تو کیا صدر مملکت ہمارے حکمران نہیں؟ کیا وہ ہمارے بادشاہ نہیں؟ ہمیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں نظر آتی۔ قوم کو کیا ہو گیا ہے؟ برداشت ختم ہو گئی ہے۔ ملک کے بادشاہ کا اتنا بھی رعب‘ وقار‘ دبدبہ اور شکوہ و جلال نہ ہو؟ رہی یہ بات کہ ان کی نماز رہ گئی تو صدر مملکت نے پورے ملک کی طرف سے نماز پڑھ لی اور دعا مانگ لی۔ بات کو ختم بھی کرتے ہیں!
ہمارے ایک مسلمان بادشاہ تعطیلات منانے اسی ہفتے کے آغاز میں ایک مغربی ملک میں اپنے خاندان کے ہمراہ تشریف لے گئے۔ ساتھ یہی چار پانچ سو افراد تھے۔ انہوں نے ایک معروف ساحل(بیچ) کا پورا طویل حصہ اپنے لیے مختص کرا لیا اور دوسرے سیاحوں کا داخلہ بند ہوا تو پوری مغربی دنیا میں ہنگامہ مچا ہوا ہے۔ اگر برطانوی ملکہ یا امریکی صدر یا دوسرے مغربی‘ یورپی‘ جاپانی اور چینی حکمرانوں اور ان کے خانوادوں کے لیے اتنا اہتمام نہیں ہوتا تو یہ ہمارے لیے ایسی مثال نہیں کہ اس کی تقلید کی جائے۔ شاہانہ اسلوبِ زندگی ان مغربی حکمرانوں کو معلوم ہی نہیں۔ ہمارے حکمران خاندانی لوگ ہیں۔ رکھ رکھائو والے ہیں۔سفلوں اور کم ذاتوں کو کیا معلوم نوابی کیا ہوتی ہے؟