تقسیم سے پہلے ہم دوسرے نمبر پر تھے۔ سکھ پہلے نمبر پر اور ہندو تیسرے نمبر پر۔ اب ہم نے ترقی کر لی ہے‘ اب ہم پہلے نمبر پر ہیں‘ سکھ دوسرے نمبر پر اور نالائق مگر مستقل مزاج ہندو اسی تیسری پوزیشن پر ڈٹے ہوئے ہیں!
تفصیل آنکھوں کو خیرہ کرنے والی اس چمکتی دمکتی روشن کامیابی کی یوں ہے کہ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ کوئی نازک موقع ہو یا کوئی چیلنج درپیش ہو تو ہندو بہت پہلے سے تیاری کرتے ہیں اور تمام ممکنہ اقدام وقت سے پیشتر اٹھاتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب سر پر آن پڑتی ہے تو وہ اس کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کے بارے میں تاثر یہ تھا کہ سوئے رہتے ہیں مگر عین وقت پر کچھ نہ کچھ کر لیتے ہیں۔ سکھوں کا پہلا نمبر تھا۔ انہیں ساری ترکیبیں اور تیاریاں اس وقت سوجھتی تھیں جب موقع گزر چکا ہوتا تھا اور نقصان اٹھا چکے ہوتے تھے۔
اب پہلا نمبر ہمارا ہے۔ ہم سارے ضروری اقدامات کرتے ہیں۔ ہر ممکنہ ایکشن لیتے ہیں‘ لیکن حادثہ رونما ہونے کے بعد! اس کی تازہ ترین مثال پنجاب کے وزیر داخلہ شجاع خانزادہ کی شہادت ہے! جس طرح خانزادہ شہید دہشت گردی کے سامنے سینہ سپر تھے‘ جو جو اقدامات کر رہے تھے‘ اس کے پیش نظر اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ ہِٹ لسٹ پر تھے۔ مگر جیسا کہ ہماری بے مثال ''اہلیت‘‘ کا وتیرہ ہے‘ اُن کی حفاظت کے لیے معمول کی کارروائی بھی عنقا تھی۔ گائوں میں جہاں وہ بیٹھے عوام کے مسائل نمٹا رہے تھے‘ واک تھرو گیٹ نہیں تھا۔ ایلیٹ فورس سکواڈ غائب تھا! میدان خالی تھا۔ دہشت گرد آئے‘ کارروائی کر کے اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کر گئے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ وہی سردار صاحبان والا رویہ! پہلے تو صوبائی وزیر قانون نے اعلان کیا کہ ''شجاع خانزادہ کی سکیورٹی مناسب نہیں تھی۔ ان کی سکیورٹی زیادہ ہونی چاہیے تھی‘‘۔ پھر وزیراعلیٰ نے اختیاراتی انکوائری کمیٹی تشکیل دی جس نے اس بات کا تعین کرنا ہے کہ سکیورٹی کی چادر میں سوراخ کہاں کہاں تھے۔ پھر ایک انتہائی اہم واقعہ اس ضمن میں رونما ہوا وہ یہ کہ وزیراعلیٰ نے بم دھماکے پر برہمی کا اظہار کیا! اور صرف برہمی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ سکیورٹی پلان کے حوالے سے تمام ریکارڈ بھی طلب کر لیا! ایک عظیم الشان کامیابی اس اثنا میں اور رونما ہوئی کہ ''وزیراعلیٰ پنجاب کی خصوصی سکیورٹی ٹیم نے پولیس افسروں اور اہلکاروں کے الگ الگ بیانات ریکارڈ کیے جب کہ وزیراعلیٰ کو بھجوائی گئی رپورٹ میں دھماکے کو سکیورٹی کی ناکامی قرار دیا گیا‘‘... اس عظیم الشان کامیابی پر نہ صرف پوری قوم کو اور نہ صرف پورے صوبے کو بلکہ خانزادہ شہید کے تمام خاندان کو احسان مند ہونا چاہیے! اللہ اکبر!! اتنا بڑا ایکشن! اتنی بے مثال کامیابی! نہ صرف یہ کہ پولیس افسروں اور اہلکاروں کے الگ الگ (اِس ''الگ الگ‘‘ پر خصوصی غور فرمایئے) بیانات ریکارڈ ہوئے بلکہ وہ راز بھی پا لیا گیا جو سکاٹ لینڈ یارڈ اور سی آئی اے کا باپ بھی نہ پا سکتا تھا! اگر قوم یہ سمجھ رہی ہے کہ دھماکہ زراعت کی یا صنعت کی یا سیاست کی یا موسم کی ناکامی کا شاخسانہ تھا تو وہ اپنی غلط فہمی کو دور کر لے۔ خدا کے بندو! یہ دھماکہ سکیورٹی کی ناکامی کا نتیجہ ہے! اس راز کو جسے رپورٹ نے افشا کیا ہے‘ مستقبل میں تعلیمی اداروں کے نصاب کا جزو ہونا چاہیے!
بات پہلی پوزیشن کی ہو رہی تھی جو ہم نے سکھوں سے چھین لی ہے! احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا ؎
اب ترا التفات ہے حادثۂ جمال و فن
اندھے عقاب کی اُڑان! زخمی ہرن کا بانکپن
انگریز ڈپٹی کمشنر کے پچاس سے زیادہ خدمت گار ہوتے تھے۔ ان میں سے ایک کی ڈیوٹی صرف پنکھا ہلانے کی ہوتی تھی۔ آج کے نونہالوں کے جنرل نالج کے لیے وضاحت کردی جائے تو مناسب ہوگا۔ یہ کپڑے کا بڑا سا پنکھا ہوتا تھا۔ مستطیل شکل کا‘ چوڑائی‘ لمبائی سے خاصی کم ہوتی تھی اور چھت سے لٹکا ہوتا تھا۔ ایک کنارے پر بیٹھا شخص رسی کی مدد سے اِسے جھلاتا تھا۔
اس کالم نگار نے اپنے ننھیالی گھر میں اس قسم کے پنکھے کو بچپن میں دیکھا ہے۔ انگریز افسر کا پنکھا جھلانے والا نوکر کبھی کبھی تھکاوٹ اور بے پناہ گرمی سے بے حال ہو کر سو جاتا تھا۔ ایسے میں افسر آ کر اسے پائوں سے پسلی میں ٹھوکر مارتا تھا۔ اب اگر پائوں میں بُوٹ پہنا ہوا ہو تو کبھی کبھار پسلی ٹوٹنے سے یا بوٹ کی سخت نوک کی ضرب گردے میں لگنے سے موت واقع ہو جاتی تھی۔ قدرت اللہ شہاب نے لکھا ہے کہ ایسا ہو جانے پر انگریز افسر کو انگریز سرکار سے سزا ملتی تھی جو دو روپے جرمانے پر مشتمل ہوتی تھی۔ حکومت پنجاب اس ضمن میں انگریز سرکار سے آگے بڑھ گئی ہے۔ خانزادہ شہید کی سکیورٹی پر ایلیٹ فورس کی دو گاڑیاں مامور تھیں جن پر بارہ پولیس کمانڈو متعین تھے۔ حملے کے وقت دونوں گاڑیاں موجود نہیں تھیں۔ حکومت نے ان کمانڈوز کو ''غفلت‘‘ برتنے پر معطل کر دیا ہے! عوام کو شاید معلوم نہ ہو کہ آج کل معطلی کے جو قوانین ہیں ان میں سرکاری ملازم کو معطلی کے دوران تنخواہ پوری ملتی ہے۔ ''سزا‘‘ کا پہلو یہ ہے کہ ڈیوٹی نہیں ہوتی۔ دوسرے لفظوں میں یہ ایک طرح کی چھٹی ہوتی ہے جس کے دوران واجبات ملتے رہتے ہیں۔ فرنگی کم بخت ایسی چھٹی کو Paid holidays کا نام دیتے ہیں! یوں بھی ماڈل ٹائون کی چودہ لاشیں ہوں یا ڈسکے میں دو وکیلوں کا دن دہاڑے قتل‘ کسی پولیس والے کو یہاں معطلی یا تبادلے کے علاوہ کوئی سزا کبھی نہیں ملی۔ اس موقع پر یہ کالم نگار اپنی تھیوری پھر دہراتا ہے اور اصرار کے ساتھ دہراتا ہے کہ پولیس اور حکومت کے درمیان‘ صرف موجودہ نہیں‘ ہر حکومت کے درمیان‘ غیر تحریری معاہدہ ہے۔ اس کی رُو سے پولیس حکمران خاندانوں کی حفاظت کرے گی۔ ان کے ذاتی ملازم کا کردار ادا کرے گی۔ بدلے میں اسے کھلی چھٹی ہے‘ جو مرضی کرے! دیکھ لیجیے اور پرکھ لیجیے‘ کیا حکمرانوں کی سکیورٹی کے سلسلے میں کوئی رخنہ کبھی نظر آیا ہے؟ چند دن پہلے مڈل ایسٹ سے ایک نوجوان جوڑا (اللہ اسے سلامت رکھے) لاہور ایئرپورٹ پر اترا تو آدھا شہر سر بہ مُہر ہو گیا تھا!
سنا ہے کہ صوبے میں ایک اسمبلی موجود ہے جس میں عوامی نمائندے تشریف فرما ہیں! اگر اس باوقار اسمبلی کے معزز ارکان کو اساتذہ اور استانیوں کے تبادلوں‘ نائب قاصدوں‘ کلرکوں‘ پٹواریوں اور نائب تحصیل داروں کی بھرتیوں‘ پروٹوکول کی گاڑیوں کے حصول‘ اسمبلی سے ملنے والی مراعات کے حساب کتاب اور اسی قبیل کے دیگر قومی اہمیت کے حامل ضروری امور سے فرصت ملے تو کسی وقت حکومت پنجاب سے یہ پوچھ لیں کہ صوبے میں ایلیٹ فورس کی کل تعداد کیا ہے؟ اور یہ فورس کہاں کہاں تعینات ہے؟ وزیراعلیٰ اور ان کے اہل خانہ کو چھوڑ دیں۔ باقی کے بارے میں پوچھیں کہ رشتہ داروں کی حفاظت پر کتنے افراد اور کتنی گاڑیاں مامور ہیں؟
مسئلہ صرف حکمران خاندان اور خاندان کے اعزہ و اقارب تک محدود نہیں! اسمبلی کے ممبران یہ پوچھیں کہ پولیس کے افسروں کے دفتروں اور رہائش گاہوں پر کتنے جوان پہرہ دے رہے ہیں۔ اُن خیموں کی تعداد کیا ہے جو محلات اور کوٹھیوں کے سامنے نصب ہیں جن میں پولیس کے جوان‘ جو مائوں کے لعل اور بہنوں کے ویر ہیں‘ پرصعوبت زندگیاں گزار رہے ہیں۔ پولیس کے کتنے افسر ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان محافظوں کا استحصال کر رہے ہیں۔ جو ڈیپوٹیشن پر دوسرے محکموں میں کام کر رہے ہیں‘ ان کی کیا تعداد ہے جو بدستور پولیس فورس پر بوجھ بنے ہوئے ہیں! جن دنوں یہ کالم نگار سٹاف کالج لاہور میں کورس کر رہا تھا‘ پولیس کے ایک اعلیٰ افسر بھی بطور انسٹرکٹر وہاں متعین تھے۔ ایک بار اُن کی رہائشگاہ کو دیکھنے کا اتفاق ہوا تو خیمہ ماشاء اللہ پیش منظر پر اس طرح چھایا ہوا تھا جیسے کشتی پر بادبان!
مگر سو سوالوں کا ایک سوال یہ ہے کہ کیا اسمبلی یہ اعدادو شمار مانگے گی؟