حسّان کی ای میل دوپہر سے کچھ دیر پہلے دیکھ لی لیکن کھول کر پڑھ نہ سکا۔
کچھ ضروری کام‘ جو التوا میں پڑے تھے‘ نمٹائے‘ کلب پہنچ کر چائے کا کپ منگوایا۔ تب میل یاد آئی۔ کھول کر پڑھی۔ حسان نے ایک انگریزی روزنامے کی خبر کا لنک بھیجا تھا۔ سعید قریشی دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔
سعید قریشی سے دوستی تھی نہ رشتہ داری ۔ میں تو کبھی کبھاراُن کے پاس بیٹھتا تھا مگر میرے بیٹے حسّان کی تو ملاقات ہی نہ تھی۔ اس کے باوجود سعید صاحب سے ایک ربط تھا‘ گہرا ربط! میرا بھی اور میرے بچوں کا بھی! اس لیے کہ سعید قریشی سعید بُک بینک کے مالک تھے۔ کتابوں کی دنیا کے بادشاہ! اور ہمارا کتابوں کی دنیا سے کئی پُشتوں کا تعلق ہے‘ خاندانی تعلق۔ بیماری کی حدوں کو چھونے والا تعلق۔
یہ خبر پڑھی تو اس نے غم میں باپ کو شریک کیا‘ اور ہو بھی کیا سکتا تھا !
غالباً یہ 1988ء تھا جب محنت مزدوری کے پھیر نے پشاور منتقل کر دیا۔ بازار جا کر سب سے پہلی دکان جس میں داخل ہوا سعید بُک بینک تھی۔ پشاور صدر کے پر رونق بازار کی اس چھوٹی سی دکان میں ہر وقت خریداروں کا ہجوم رہتا تھا۔ اس کے سامنے‘ شاہراہ کے پار‘ غالباً لندن بک کمپنی تھی۔ اسلام آباد جناح مارکیٹ میں واقع یہ عمارت‘ جس میں تین منزلہ بُک بینک قائم تھا‘ سعید قریشی کی ذاتی ملکیت تھی۔ ایک بار مجھے بتایا کہ ایک معروف امریکی فاسٹ فوڈ نے انہیں دس لاکھ روپے ماہانہ کرائے کی پیشکش کی (یہ بہت عرصہ پہلے کی بات ہے) مگر انہوں نے معذرت کر لی۔ اسلام آباد کا سعید بُک بینک اگر ملک کی سب سے بڑی نہیں تو دو یا تین بڑی دکانوں میں شمار ہوتا ہے۔ تازہ ترین کتابیں دنیا کے اطراف و اکناف سے آتی ہیں۔ کائونٹر کے پچھلے حصے میں ‘ ایک دفتر نما احاطہ سا بنا تھا جہاں سعید صاحب بیٹھے ہوتے تھے۔ دیکھ لیتے تو مسکرا کر سلام کرتے۔ بارہا بٹھا لیا‘ چائے پلائی۔ ہم کتابوں کی دنیا کی باتیں کرتے تھے۔ ان کے پاس دنیا کے اچھے اور مہنگے فائونٹین پین بھی اچھی خاصی تعداد میں تھے۔ بیرون ملک ایک بار فائونٹین پین خریدتے وقت سعید بک بینک کو ای میل کر کے نرخ پوچھے جو فوراً بتائے گئے۔
اس موضوع پر عزاداری کئی بار ہو چکی ہے مگر لازم ہے کہ یہ ماتم اکثر و بیشتر دہرایا جائے ؎
گاہی گاہی باز خوان این دفتر پارینہ را
تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائی سینہ را
راولپنڈی میں کتابوں کی سب سے بڑی اور پر رونق دکان ورائٹی بُک شاپ تھی جس کے مالک یونس صاحب مرحوم تھے۔ ان کے ساتھ زندگی بھرتعلق رہا۔ کئی اداروں اور محکموں میں لائبریریاں قائم کیں اور کرائیں۔ ''محبت‘‘ کرنے والے دوستوں نے گمنام خطوط بھی سرکار کو بہت لکھے کہ ''حساب کتاب‘‘ کرایا جائے مگر تھیلے سے کوئی بلی نہ نکلی۔پندرہ سے بیس فیصد تک جو ڈسکائونٹ ملتا تھا‘ اس کی بھی کتابیں خرید لی جاتی تھیں۔ کوئی نئی کتاب آتی تو یونس صاحب فون کر کے اطلاع دیتے۔ اب ان کے بعد ان کے فرزند عادل اور فراز جانشینی کا منصب سنبھالے ہیں مگر کتابیں سکڑ کر بالائی منزل پر پہنچ گئی ہیں اور دکان پر دوسری اشیا کا غلبہ ہو چکا ہے۔ یونس صاحب کے چھوٹے بھائی یوسف نے دارالحکومت میں مسٹر بُکس کے نام سے کتابوں کی دنیا آباد کی اور یوں آباد کی کہ اب یوسف اور مسٹر بُکس دونوں لیجنڈ کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ وہ شہر کا ایک جزو ہیں‘ جزو لاینفک ۔ مستنصر حسین تارڑ جیسے بڑے ادیبوں سے لے کر اس کالم نگار جیسے بے بضاعت لکھاری تک‘ سب کے ساتھ یوسف کے ذاتی تعلقات ہیں۔ سالہا سال پہلے ایک بار اچانک سنگا پور جانا پڑا۔ جانے سے ایک شام پہلے یوسف سے ملاقات ہوئی اور سفر کا ذکر بھی ہو گیا۔ دوسرے دن فون کر کے بتایا کہ سنگا پور کے فلاں کتاب فروش کو فیکس بھیجا ہے کہ آپ کا خیال رکھے۔ یوسف ایک بہادر شخص ہے۔ ذیابیطس نے اُسے عہدِ شباب ہی میں آدبوچا۔ پہلے ایک ٹانگ سے محروم ہوا‘ پھر دوسری سے۔ ایک سال قبل جس دن اس کی دوسری ٹانگ کاٹی گئی‘ اُسی شام عیادت کے لیے گیا۔ وہ مسکرا رہا تھا: ''اظہار بھائی! اللہ کا بہت شکر ہے جس نے مجھے علاج معالجہ کے لیے وسائل فراہم کئے ہیں اور کئی نعمتوں سے نوازا ہے‘‘۔ اُس کا صبر و شکر اور اطمینان دیکھ کر مبہوت رہ گیا! اس کیفیت میں بڑے بڑے زہاّد اور صلحا کا زہرہ آب ہو جاتا ہے۔ گزشتہ فروری میں حسان کا ولیمہ تھا۔ تقریب کا انعقاد گائوں میں کیا گیا تھا۔ یوسف کو دعوت دیتے وقت ذہن میں اُس کی بیماری بھی تھی۔ ابھی وہ مصنوعی ٹانگ لگوانے کے لیے بیرون ملک جانے کی تیاری میں تھا۔ ایک عجیب خوشی اور حیرت ہوئی جب مہمانوں کے ہجوم میں ویل چیئر نظر آئی۔ یوسف اس پر بیٹھے تھے۔ ان کا ایک پرانا ساتھی ساتھ آیا تھا! اس دن مہمان مختلف گروہوں میں بیٹھے تھے ۔ اپنے اپنے پیشے اور اپنی اپنی دلچسپیوں کے حوالے سے ! یوسف ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ بیٹھے تھے اور یوں بیٹھے تھے گویا میرِ محفل تھے!
ایک دن یوسف کے ساتھ ایسی نشست ہوئی جس میں کتابیں چوری کرنے والوں کے واقعات اس نے سنائے‘ حیران کر دینے والے واقعات ۔ بعض ایسے کہ سن کر دماغ الٹنے لگتا ہے۔ چوری‘ مجبوری یا ضرورت سے نہیں بلکہ عادتاً کی جائے تو یہ بیماری ہوتی ہے‘ اسے Klepto Maniaکہا جاتا ہے۔ یوسف نے کئی بڑے اور مشہور لوگوں کے تذکرے کیے۔ یہ شریف انسان اکثر کے نام بھی نہیں ظاہر کرتا! ایسے ایسے مشاہیر کہ تصور کرنا بھی ممکن نہیں! ایک کی بیگم آ کر چوری شدہ کتابوں کی قیمت ادا کرجاتی تھی اور کہتی تھی کہ وہ عادت سے مجبور ہے‘ اُسے کرنے دو۔ ایک صاحب بہت مشکل سے پکڑے گئے۔ انہوں نے پُشت پر‘ کوٹ کے اندر کی طرف‘ خاص جیب لگوائی ہوئی تھی۔ ایک بہت معروف خاتون کو یوسف کے ملازمین نے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تو اس نے چیک لکھ کر دیا جو یوسف نے کیش ہی نہ کرایا اور یادگار کے طور پر رکھ چھوڑا۔
بات سعید قریشی کی غم انگیز وفات سے چلی اور دُور نکل گئی۔ کتابوں کے حوالے سے ہر شہر کا تذکرہ الگ تفصیل مانگتا ہے۔ کوئٹہ‘ کراچی اور پشاورسے لے کر سنگا پور‘ ملبورن اور لندن تک! مگر یہ تذکرے کسی اور وقت سہی!