جس پہلوان نے شاگرد کو کُشتی لڑنے کے 364 گر سکھا دیئے تھے، اُس نے 365واں نہیں سکھایا۔ ایک دن شاگرد نے اُسے مقابلے کا چیلنج دے دیا۔ تماشائیوں کو یقین تھا کہ استاد ہار جائے گا کیونکہ عمر ڈھل چکی تھی! مگر استاد نے 365واں گُر بروئے کار لا کر ناخلف، گستاخ اور احسان فراموش شاگرد کو سرپرائز دیا اور زمین پر پٹخ ڈالا۔
آپ کا کیا خیال ہے‘ استاد نے اس فن کے نشیب و فراز آزمانے میں کتنا وقت صرف کیا ہو گا؟ ثروت حسین نے کہا تھا ؎
کچھ سیکھ لو لفظوں کے برتنے کا سلیقہ
اس شغل میں گزرا ہے بہت وقت ہمارا
استاد نے یقیناً لڑکپن، شباب اور پھر ادھیڑ عمر... سب کچھ اس پر لگا دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جوانی، زور، جذبہ سب کچھ تجربے کے مقابلے میں ہار گیا۔
شاہی خاندان کا بھی یہی احوال ہے! برس ہا برس گزر گئے، کئی عشرے ہو گئے۔ وہ اقتدار میں ہے۔ کبھی صوبے میں، کبھی وفاق میں، کبھی دونوں جگہ، جون ایلیا یاد آ گیا؎
جونؔ کرو گے کب تلک اپنا مثالیہ تلاش
اب کئی ہجر ہو چکے اب کئی سال ہو گئے
تحریکِ انصاف کو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں! جیتنے کے جو گُر ربع صدی سے زیادہ اقتدار میں رہنے والوں کو آتے ہیں، ان کا تحریکِ انصاف سوچ بھی نہیں سکتی!
وفاقی دارالحکومت میں بلدیاتی انتخابات کا رن پڑا تو اس سے پہلے 365واں گُر اَکھاڑے میں اتار دیا گیا، انگریزی میں جسے پری پول رِگنگ کہتے ہیں یعنی الیکشن سے پہلے دھاندلی! وہ اتنے لطیف پیرائے میں اور غیر محسوس طریقے سے کی گئی کہ تحریکِ انصاف کو پتا ہی نہ چلا۔ ایک تو ایسے ایم این اے کو وفاقی دارالحکومت والی وزارت کی مسند پر بٹھایا گیا جو مقامی ہے۔ علاقے کی ایک ایک بستی، ایک ایک قریے، ایک ایک گلی سے آشنا ہے۔ انتخابات سے عین پہلے وہ وفاقی علاقے کا باس بن جاتا ہے۔ کیا چیف کمشنر اور کیا باقی ادارے اور محکمے، سب اس کے سامنے دست بستہ کھڑے ہو گئے۔ برسرِ اقتدار جماعت کے امیدواروں میں اس سے اتنی خود اعتمادی پیدا ہوئی کہ انہوں نے بڑے بڑے اشتہارات شائع کرائے‘ جن کا آغاز اس قسم کے فقرے سے ہوتا تھا کہ وہی جماعت آپ کے لیے کچھ کر سکتی ہے جس کے پاس وسائل ہیں۔ ہر شخص کو معلوم ہے کہ جن وسائل کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے وہ عام وسائل نہیں، بلکہ خاص ''وسائل‘‘ ہیں۔
دوسرا قدم یہ اٹھایا گیا کہ وفاق کے دفاتر میں الیکشن کے دن عام تعطیل نہیں کی گئی۔ برسرِ اقتدار طائفے کو اچھی طرح معلوم تھا کہ وفاقی دفاتر میں کام کرنے والے افراد کی اکثریت پی ٹی آئی سے ہمدردی رکھتی ہے، اس لیے کہ یہ لوگ برادریوں اور قبیلہ داری کی مجبوریوں سے آزاد ہیں! سرکاری ملازمین کی اکثریت اپنی ڈیوٹی سے غیر حاضر رہنا پسند نہیں کرتی! ڈیوٹی چھوڑ کر وہ ووٹ ڈالنے نہیں جا سکتے تھے، یوں ایک کثیر تعداد نے حقِ رائے دہی استعمال نہ کیا! ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سنجیدہ سیاسی رہنما نے، جس کا تعلق برسرِ اقتدار جماعت سے ہے، بتایا کہ دیہی علاقے میں اگر ایک حلقۂ انتخاب میں بارہ ہزار سے چودہ ہزار تک کی آبادی کو ملحوظ رکھا گیا‘ تو شہری علاقے میں یہ تعداد سولہ ہزار سے اٹھارہ ہزار تک تھی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کیا گیا کہ دیہی حلقہ ہائے انتخاب کی تعداد زیادہ اور شہری کی کم رکھی گئی!
یہ بھی ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ شہروں میں پی ٹی آئی مقبول ہے اور دیہی علاقوں میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کا زور ہے! یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ پاکستان دو حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ ایک میں تعلیم یافتہ لوگ ہیں، پڑھی لکھی ملازمت پیشہ خواتین ہیں، ایم بی اے اور دوسری ڈگریاں حاصل کر کے نجی شعبے کی کمپنیوں میں کام کرنے والے نوجوان ہیں۔ پاکستان کا یہ حصہ سیاسی شعور رکھتا ہے، اپنے حقوق سے واقف ہے، حکومتوں کی نااہلی اور کرپشن سے آگاہ ہے اور کڑھتا بھی ہے۔ یہ حصہ تبدیلی چاہتا ہے اور پی ٹی آئی، اپنی ساری کمزوریوں کے باوجود اِن پاکستانیوں کے لیے ایسے ہی ہے جیسے گھپ اندھیرے میں دُور ایک ٹمٹاتی ہوئی قندیل؎
رات اور طوفانِ ابر و باد میرے ہر طرف
دُور لَو دیتی ہوئی اک مشعلِ رخسار ہے
دوسرا پاکستان وہ ہے جس میں جاگیردار، وڈیرے، چوہدری، خان اور زمیندار ہیں۔ ڈیرے ہیں اور ڈیروں میں پناہ لینے والے مجرم ہیں۔ پاکستان کے اس حصے میں قتل کر دینا، نجی عقوبت خانوں میں بند کرنا، کُتے چھوڑ دینا، کمزور طبقات کی عورتوں پر ظلم کرنا، ضلعی
اور تحصیل انتظامیہ کو ڈرا دھمکا کر قابو کر لینا روزمرہ کا معمول ہے۔ پشت در پشت نسل در نسل اسمبلیوں کی نشستیں وراثت میں ملتی ہیں! پتھر کے زمانے میں رہنے والا یہ پاکستان مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے طرزِ سیاست اور اسلوبِ حکومت کو بہت راس آتا ہے۔ ان ڈیرہ داروں کو بھی یہ سیاسی پارٹیاں اپنے مطلب کی لگتی ہیں۔ وفاقی دارالحکومت کے اردگرد جو دیہاتی علاقے ہیں، ان میں ڈیروں کی کثرت ہے، یہاں کئی طاقت ور گروہ ہیں، پورا پاکستان جن کے نام اور حدود اربعہ جانتا ہے! کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں! ان ڈیرہ داروں کے حلیف بھی ہیں اور حریف بھی! پاکستان کے اس حصے میں تعلیم یافتہ افراد کی وہی اہمیت ہے جو نوابوں کے درباروں میں خزانچیوں کی ہوتی تھی۔ یہ ہے وہ سماجی وجہ، جس کی بنیاد پر دیہی علاقوں میں برسرِ اقتدار جماعت مقبول ہے!
وفاقی دارالحکومت کی وزارت، ایک مقامی لیڈر کو سونپنے کا ایک پہلو اور بھی ہے‘ جو غور طلب ہے۔ انگریزوں نے یہ جو قانون بنایا تھا کہ ڈپٹی کمشنر اور پولیس افسر کو اُس کے اپنے علاقے میں تعینات نہیں کیا جائے گا تو اس میں حکمت پوشیدہ تھی۔ اپنے علاقے میں اُس کی دوستیاں اور دشمنیاں ہوتی ہیں۔ اس قانون کا فائدہ یہ تھا کہ وہ اپنے دشمنوں پر ظلم نہیں کر سکتا تھا اور دوستوں کو ناروا فائدہ نہیں پہنچا سکتا تھا۔ جس سیاست دان کو وفاقی دارالحکومت کا وزیر بنایا گیا‘ وہ مقامی ہے۔ جتنا بھی شریف غیر جانبدار اور وضعدار ہو، آخر انسان ہی ہے۔ اُس کی سیاسی وابستگیاں ہیں اور خاندانی بھی۔ مخالفتیں بھی ہیں اور رشتہ داریاں بھی۔ یہ وزارت اس کے
لیے ایک ایسا جنگل ہے، جس میں درخت پھلوں سے لدے ہیں مگر راستہ خاردار جھاڑیوں سے اٹا پڑا ہے! وہ جتنا بھی بچ کر چلے، دامن نے ہر حال میں الجھنا ہے! یوں بھی تمام اہم وزارتیں پہلے ہی ایک خاص صوبے کی جھولی میں پڑی ہیں۔ داخلہ، خزانہ، بجلی و پانی، موسمی تبدیلی، دفاع، دفاعی پیداوار، تجارت، اطلاعات، بین الصوبائی معاملات، ریسرچ، پٹرولیم اور گیس، جہاز رانی اور بندرگاہیں، پلاننگ ڈویژن، ریلوے، یہ پندرہ وزارتیں پہلے ہی جس صوبے کی تحویل میں ہیں، اب وفاقی دارالحکومت کی وزارت بھی اُسی صوبے کو عطا کر دی گئی ہے۔
اگر فیصلہ ساز حلقے دور اندیشی، تدبر اور ویژن سے بہرہ ور ہوتے تو یہ وزارت سندھ، کراچی، بلوچستان، خیبر پختونخوا، شمالی علاقہ جات یا قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے کسی ایم این اے یا سینیٹر کو سونپتے۔ اس سے دو فوائد حاصل ہوتے۔ وزیر غیر جانبدار ہوتا اور دوسرے صوبوں کو مثبت پیغام جاتا۔ مگر دور اندیشی، تدبر اور ویژن کا پاکستانی حکومتوں سے کیا تعلق! یہ گناہ پہلے کبھی ہوا نہ اب ہو سکتا ہے!
قومی یکجہتی کے لیے خواہشات اور تعلقات کی قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ ملک کو نفع پہنچانا ہو تو اپنے خول سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔ کسی شاعر نے کہا تھا ؎
مری داستانِ غم کی کوئی قید و حد نہیں ہے
ترے سنگِ آستاں سے ترے سنگِ آستاں تک
پاکستان کراچی سے شروع ہوتا ہے اور خنجراب تک جاتا ہے۔
اس کے ایک کونے میں زاہدان ہے، دوسرے میں گرم چشمہ! یہ ایک خاص صوبے کی ایک مخصوص تنگ پٹی کا نام نہیں! مگر کیا کیا جائے! ذہن تنگ ہوں تو تنگ پٹیوں سے باہر نہیں نکل سکتے!