اُس دن گرمی معمول سے زیادہ تھی۔ ہم ایک بہت بڑے ہال میں جمع تھے۔ کوئی ایئرکنڈیشنر نہیں تھا۔ غالباً اس کی وجہ ہال کی ساخت تھی جس میں کئی منزلہ گیلریاں اور ساتھ متصل متعدد چھوٹے چھوٹے ہال تھے۔ پنکھے بھی کم تھے اور جو تھے ان کی ہوا کہیں راستے ہی میں بکھر جاتی تھی، سرما کی اُس دھوپ کی طرح جو زمین تک پہنچتے پہنچتے نرم چاندنی کی طرح ہو جاتی ہے۔ حاضرین میں سے اکثر نکٹائی اور سوٹ میں ملبوس تھے۔ اخبارات اور کاغذ دستی پنکھوں کا کام دے رہے تھے۔ پانچ چھ گھنٹوں پر پھیلی اس تقریب میں نظم و ضبط مثالی تھا۔ شاید ہی کوئی فرد تقریب چھوڑ کر گیا ہو‘ہاں پانی پینے کیلئے حاضرین اُٹھ رہے تھے کہ العطش کا سماں تھا۔ اُس دن درجۂ حرارت چالیس تھا حالانکہ میلبورن میں عام طور پر گرما میں (جو نومبر سے مارچ تک رہتا ہے) ٹمپریچر تیس پینتیس تک ہی جاتا ہے، وہ بھی زیادہ سے زیادہ تین دن کیلئے، اس کے بعد دو تین دن بیس یا اُس سے بھی کم! ایک صاحب سے پانی فرش پرگر گیا۔ فوراً منتظمین سے رابطہ کیا۔ ایک خاتون نے وہاں ایک فریم نما چبوترہ سا رکھ دیا جس پر جلی حروف میں لکھا تھا ''فرش گیلا ہے‘‘۔ چند ثانیے بعد اس پانی کو خشک کیا جا رہا تھا۔ میں یہ منظر غور سے دیکھ رہا تھا۔ سرسید احمد خان کی تصنیف ''مسافر ان لندن‘‘ یاد آ گئی۔یہ 1870ء کا لندن تھا۔ سرسید نے مشاہدہ کیا کہ سڑک پر گھوڑا گاڑیاں رواں تھیں۔ گھوڑا لید کرتا تو شاہراہ فوراً صاف کر دی جاتی! ملتیں راتوں رات بنتی ہیں ‘نہ بگڑتی ہیں! زمین ایک سیارہ ہے! عجیب و غریب سیارہ! یہاں قسم قسم کے مناظر ہیں۔ اقبال کی نظم ''سرود انجم‘‘ میں ستارے یہی تو گیت گاتے ہیں کہ وہ کیا کیا دیکھتے جا رہے ہیں! وہ بھی زمانہ تھا کہ مسلمان فقہا نے فتویٰ دیا تھا کہ شاہراہوں کے نزدیک قضائے حاجت کرنا اور کوڑا پھینکنا جائز نہیں‘ اس لیے کہ گزرنے والوں کیلئے اذیت کا باعث بنتا ہے۔ مگر یہ تو آج کا موضوع ہی نہیں۔ بقول ناصر کاظمی ؎
یہ کس خوشی کی ریت پر غموں کو نیند آ گئی
وہ لہر کس طرف گئی یہ میں کہاں سما گیا
یہ ''یونیورسٹی آف میلبورن‘‘ کا کانووکیشن یعنی جلسہ تقسیم اسناد تھا۔ ایک قریبی عزیز کو پی ایچ ڈی کی ڈگری ملنا تھی۔ تقریب میں شرکت کے لیے عزیز نے بطور خاص مدعو کیا تھا۔ اس نوجوان کو جو ڈاکٹر تھا اور ماہر امراض قلب تھا‘یونیورسٹی آف میلبورن نے سرپرستی کی اور اس سے امراض دل پر ریسرچ کروائی۔ اس نے کئی سال لگائے اور دل کے اُن مریضوں پر تحقیق کی جو ذیابیطس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ نئے پہلو اور نیا علاج دریافت کرنے پر یونیورسٹی نے اسے پی ایچ ڈی کی ڈگری دی۔ غنی کاشمیری بھی کہاں یاد آ گیا ؎
غنی روز سیاہ پیر کنعان را تماشا کُن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را
کنعان کے بوڑھے کی بھی کیا قسمت ہے! وہ جو اُس کی آنکھوں کا نور ہے‘ زلیخا کی آنکھوں کو روشنی بخش رہا ہے!
دو کروڑ تیس لاکھ آبادی کے ملک‘ آسٹریلیا میں ہر سال سات ہزار سکالر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اکثریت جن شعبوں میں نئی تحقیق کر رہی ہے وہ موسمی تبدیلیوں‘ آبی انتظامات‘ حیاتیاتی میڈیسن اور سمندری سائنس سے تعلق رکھتے ہیں۔ نینو ٹیکنالوجی‘ فلکیات اور اقتصادی علوم ان کے علاوہ ہیں۔
تعلیمی اداروں کو آسٹریلیا نے تین گروہوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ اول یونیورسٹیاں‘ دوم خودمختار اعلیٰ تعلیمی ادارے اور سوم ریاستی اعلیٰ تعلیمی ادارے۔ یونیورسٹیوں کی تعداد ملک میں 43 ہے مگر یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اعلیٰ تعلیمی ادارے بھی جن کی تعداد بہت زیادہ ہے‘ ڈگریاں دیتے ہیں۔ اکثر آسٹریلوی یونیورسٹیاں دنیا کی پانچ سو بہترین یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہیں۔ یونیورسٹی آف میلبورن ان یونیورسٹیوں میں سرفہرست ہے۔ اس سال کی رینکنگ میں اس یونیورسٹی کا شمار دنیا کی 33 بہترین یونیورسٹیوں میں کیا گیا ہے۔ تعلیم کے شعبے میں دنیا بھر میں اس کا نمبر پانچواں ہے۔ قانون کی تعلیم میں آٹھواں‘ کمپیوٹر سائنس میں تیرہواں‘ ڈینٹل سائنس میں چودھواں اور میڈیسن میں اٹھارھواں ہے۔ اس کے طلبہ اور اساتذہ میں سے سات افراد مختلف شعبوں میں نوبل انعامات حاصل کر چکے ہیں۔ طلبہ کی تعداد 43 ہزار ہے جس میں سے ساڑھے تین ہزار طلبہ ریسرچ اور پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ 2010ء میں اس یونیورسٹی نے ریسرچ پر 81کروڑ ڈالر خرچ کیے۔ 1852ء میں چلڈرز نامی ایک صاحب صوبے کے وزیر خزانہ تھے اور آڈیٹر جنرل بھی۔ انہوں نے اس یونیورسٹی کے قیام کے لیے دس ہزار پائونڈ مختص کئے۔ 1855ء میں کلاسیں شروع ہوئیں۔ پہلے سال سولہ طلبہ تھے اور تین پروفیسر!یونیورسٹی لائبریری نو بڑی لائبریریوں پر مشتمل ہے۔ گزشتہ برس تیس لاکھ افراد نے لائبریری سے استفادہ کیا۔ یونیورسٹی کے خزانے میں 35 لاکھ ''آئٹم‘‘ ہیں ‘جن میں کتابیں، ڈی وی ڈی، سلائیڈز، جرائد و رسائل، نایاب نقشہ جات اور دیگر مطبوعات اور مخطوطے شامل ہیں۔ 32 ہزار کتابیں اور63 ہزار جرائد کمپیوٹر پر دستیاب ہیں۔
یہ سب کچھ قصہ گوئی کے شوق میں نہیں تحریر کیا جا رہا۔ اس آئینے میں ہم بہت کچھ دیکھ سکتے ہیں۔ پدرم سلطان بود کے عنوان کے تحت ہم بہت کچھ کہتے اور لکھتے ہیں مگر تاریخ کے ایک خاص مقام سے آگے آ کر ہماری زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں اور قلم شکستہ۔ قرطبہ، غرناطہ، بغداد، قاہرہ اور قیرواں کی داستانیں سنا سنا کر تھکتے نہیں! جابر بن حیان، البیرونی اور بو علی سینا کے تذکرے ہمہ وقت کرتے ہیں۔ لیکن پچھلے پانچ سات سو برسوں میں کیا کیا، اس پر بات نہیں کرتے۔ ہم ہر لحاظ سے ''حالتِ انکار‘‘ میں ہیں اور یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ قدرت کسی کی قرابت دار نہیں ‘اس کے ہاں ''کوٹہ سسٹم‘‘ نہیں چلتا۔ تاریخ میں مسلمانوں کے لیے کوئی خصوصی کوٹہ نہیں رکھا گیا اس لیے کہ وہاں صرف اور صرف میرٹ پر فیصلے ہوتے ہیں۔ قوموں کو غلبہ اجداد کی داستان سرائی پر نہیں ‘ علم کی بنیاد پر ملتا ہے۔ مسلمانوں کے زوال کا آغاز اسی دن ہو گیا تھا جس دن علم کو دین اور دنیا کے خانوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ دینی علوم پڑھنے اور پڑھانے والے دوسرے علوم سے اور دوسرے علوم کے نام لیوا دینی علوم سے لاتعلق ہو گئے۔ دونوں نے ایک دوسرے کو حقارت سے دیکھنا شروع کر دیا حالانکہ جب کچھ مسلمان الجبرا اور جغرافیہ میں حیرت انگیز کمالات دکھا رہے تھے، انہیں کسی نے یہ طعنہ نہیں دیا تھا کہ یہ تو دنیاوی علوم ہیں!
ہماری یونیورسٹیوں پر سیاسی جماعتوں نے قبضے کر لیے اور طلبہ تقسیم ہو کر رہ گئے۔ جن یونیورسٹیوں کو قوم کی رہنمائی کرنا تھی ‘وہ پلٹن میدان ‘موچی دروازے اور لیاقت باغ کے مناظر پیش کرنے لگ گئیں۔ پھر ہماری پستی یہاں تک پہنچ گئی کہ طلبہ نے اساتذہ کو زدوکوب کرنا شروع کر دیا۔ پروفیسروں کی تعیناتیاں پارٹی بنیادوں پر ہونے لگیں۔ پھر طلبہ کی اقامت گاہوں میں وہ عنٰاصر گھس گئے جن کا تعلق علم سے تھا نہ طلبہ سے۔ پھر پستی اس وقت آخری حد کو چھونے لگی جب یونیورسٹیوں سے باہر، سیاست دانوں نے ان گماشتوں کا دفاع کرنا شروع کر دیا جو یونیورسٹیوں کے اندر علم دشمنی پر کمر بستہ تھے!
ہم نے پانی پت کی پہلی لڑائی کے اسباب تراشے اور یہ بھول گئے کہ ابراہیم لودھی ایک لشکرِ جرار کے باوجود چند ہزار حملہ آوروں سے اس لیے شکست کھا گیا کہ حملہ آوروں کے پاس ہاتھی نہیں توپیں تھیں۔ دیبل کے مرکز میں لہرانے والا جھنڈا عربوں نے منجنیق سے گرایا تھا‘جو اُس عہد کا جدید ترین جنگی ہتھیار تھا! پنسلین سے لے کر ہارٹ سرجری تک‘ایٹم بم سے لے کر انٹرنیٹ تک۔ جہازوں سے لے کر آبدوزوں تک۔ سب کچھ علم کی بنیاد پر بنا اور علم یونیورسٹیوں میں پڑھا اور پڑھایا گیا۔ ہم نے علم کو اور علم کے مراکز یعنی یونیورسٹیوں کو ترجیحات کی فہرست میں سب سے نیچے رکھا۔ پھر تعجب کی کیا بات ہے اگر یونیورسٹی بنانے والے حکیم سعید کو قتل کر دیا گیا۔ پیچھے تاجر رہ گئے جو اپنے شہروں میں ہوائی اڈے تو تعمیر کر سکتے ہیں، مگر یونیورسٹی بنانے کا انہیں دھیان تک نہیں آتا اس لیے کہ حکومت تاجروں کے پاس ہوتو تاجروں کو سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں اور حکومت اہلِ دانش کے پاس ہو تو ترجیحات اور ہوتی ہیں۔ کابینہ کی تشکیل دیکھ لیجیے‘ سنگا پور ‘سوئٹزر لینڈ ‘ کینیڈا وغیرہ میں پچاس ساٹھ فی صد وزرا پی ایچ ڈی ہوتے ہیں۔ ترجیحات کی راہیں یہیں سے جدا ہو جاتی ہیں!
اقبالؔ نے جرمن ادب سے ماخوذ ایک دلچسپ مکالمہ نظم کیا ہے۔ شیر خچر کو دیکھ کر حیران ہوتا ہے اور پوچھتا ہے ؎
ساکنانِ دشت و صحرا میں ہے تو سب سے الگ
کون ہیں تیرے اب و جد؟ کس قبیلے سے ہے تو؟
اب خچر کیا بتاتا! اُس نے اپنا رشتہ گھوڑے سے جوڑا
میرے ماموں کو نہیں پہچانتے شاید حضور!
وہ صبا رفتار! شاہی اصطبل کی آبرو
ہم بھی اپنے کارنامے سناتے اور گنواتے وقت کبھی آبائو اجداد کا ذکر کرتے ہیں اور کبھی ماموئوں چاچوں کا... اس لیے کہ اپنا دامن خالی ہے!
میں تو رو چکا‘ اب رونے کا کچھ کام آپ کیجیے‘ اس لیے کہ مجھے پرتھ کے سفر کی تیاری کرنا ہے!