جذبات کو کچھ دیر کے لیے تھیلے میں ڈالیے‘ تھیلا دیوار میں لگی کیل کے ساتھ لٹکا دیجئے۔ پھرٹھنڈے دل سے‘ خالی الذہن ہو کر‘ سوچیے۔
جب بھی ہم عالم اسلام کی بات کرتے ہیں تو زمینی حقائق کی روشنی میں ہم اس سے کیا مراد لیتے ہیں؟ ایک طرف سے شروع ہو جائیے۔
مراکش‘ الجزائر‘ تونس سے ہمارے کون سے تعلقات ہیں؟ وسطی اور مغربی افریقہ کے مسلمان ملکوں کے ہم میں سے اکثر لوگ نام تک نہیں جانتے۔ مصر سے ہمارے تعلقات ایسے ہی ہیں جیسے کسی بھی دور دراز ملک سے ہو سکتے ہیں۔ وسط ایشیا کی ریاستوں نے جتنے معاہدے بھارت اور اسرائیل کے ساتھ کیے ہوئے ہیں‘ ہماری سوچ سے زیادہ ہیں۔ مشرق بعید میں انڈونیشیا‘ ملائیشیا اور برونائی کی اپنی دنیا ہے۔ کیا آپ کو یاد پڑتا ہے کہ ماضی قریب میں ان ملکوں میں سے کسی ملک کا سربراہ یہاں آیا ہو یا کوئی معاہدے ہوئے ہوں؟ ایران کو دیکھیے۔ کھلم کھلا نہ سہی‘ اندر خانے چپقلش ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتی۔ بھارت کے ساتھ اس کے تعلقات مثالی ہیں۔ ہماری مجوزہ اقتصادی راہداری کے مقابلے میں ایران اور بھارت دونوں ایک پیج پر ہیں۔ یو اے ای میں چند ہفتے پہلے جو پذیرائی مودی کو ملی‘ پاکستان کو اپنی اوقات یاد آگئی۔ لے دے کر‘ عالم اسلام سے ہماری مراد سعودی عرب رہ جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہمارے تعلقات‘ بلاشبہ قریبی ہیں مگر ان تعلقات کی تہہ میں ہمارے حکمرانوں اور سعودی حکمرانوں کے شخصی روابط کا کردار‘ ریاستی کردار کی نسبت زیادہ ہے۔ ہمارے تارکین وطن کو جو وہاں ملازمتیں کر رہے ہیں یا ہمارے حجاج کو‘ کبھی بھی دوسرے ممالک کی نسبت ترجیحی سلوک نہیں ملا۔
پھر‘ یہ قریبی تعلقات دو ملکوں کے دوطرفہ باہمی تعلقات ضرور ہیں‘ عالم اسلام سے ان کا کیا تعلق ہے؟
آپ بار بار اس تھیلے کو دیکھ رہے ہیں جو دیوار میں لگی کیل سے لٹکا ہے اور جس میں آپ نے کچھ دیر پہلے جذبات ڈالے تھے۔ ازراہ عنایت‘ ابھی جذبات کو تھیلے ہی میں رہنے دیجیے اور اس تازہ خبر پر غور فرمائیے۔ حکومت پاکستان کے اعدادوشمار کے لحاظ سے سعودی عرب اور ایران دو ایسے ممالک ہیں جو پاکستان میں اپنے مدارس کو سب سے زیادہ مالی امداد پہنچا رہے ہیں۔ ہمارے میڈیا نے بی بی سی کے حوالے سے بتایا ہے کہ تین سو مدارس اس ضمن میں نمایاں ہیں۔ سعودی عرب 172 اور ایران 84 مدارس کی مدد کر رہا ہے۔ قطر‘ کویت‘ یو اے ای‘ امریکہ‘ انگلینڈ‘ یورپی ممالک اور جنوبی افریقہ بھی حسب توفیق اس کارِخیر میں حصہ لے رہے ہیں۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ 172 مدارس جو سعودی عرب نے منتخب کیے ہیں اور یہ 84 مدارس جو ایران کے منظور نظر ہیں‘ اپنے طلبہ کو اٹلی اور برازیل کی تاریخ پڑھا رہے ہوں گے؟ یا جاپان اور فلپائن کے جغرافیے کا درس دے رہے ہوں گے؟ ہم جانتے ہیں کہ ایران اور سعودی عرب عقائد‘ سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ بچے کو بھی معلوم ہے اور کپڑے پھاڑ کر‘ نوالے منہ کے بجائے کان میں ٹھونسنے والا پاگل بھی جانتا ہے کہ ایران سے مدد لینے والے مدارس اپنے طلبہ میں ایران کی محبت اور سعودی عرب سے وابستہ مدارس اپنے طلبہ میں سعودی نقطۂ نظر سے پیار بھر رہے ہیں!
اب معاملے کا ایک اور پہلو دیکھیے۔ روزنامہ دنیا نے کل کی اشاعت میں یہ راز کھولا ہے کہ مودی دراصل پاکستان کو روس اور ایران کا پیغام دینے آئے تھے۔ پیغام یہ تھا کہ پاکستان 34 ملکوں کے اسلامی اتحاد میں شامل نہ ہو۔
ایک لمحے کے لیے بھول جائیے کہ پیغام کس کا تھا اور لانے والا کون تھا؟ ظاہر ہے کہ مودی بھارت کے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے اور صدر پیوٹن کی اولین ترجیح روسی مفادات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا مفاد کیا ہے؟
ہمارا مفاد۔ ہمارا اولین مفاد۔ ملک کے عوام ہیں۔ ان عوام کے درمیان ہم آہنگی پاکستان کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ کیا ہمیں نہیں معلوم کہ پاکستان قرضوں کے لحاظ سے‘ عقائد کے اعتبار سے‘ زبانوں‘ نسلوں اور قومیتوں کے حوالے سے ایک متنوع اور رنگارنگ سرزمین ہے۔ یہ تنوع اور یہ بوقلمونی ہی ہمارے ملک کا حسن ہے اور اگر ہم نے دانش مندانہ رویہ نہ اپنایا تو یہ رنگارنگی‘ یہ تنوع‘ ہمارے لیے اضطراب کا باعث بھی بن سکتا ہے! اگر ہم پاکستان کے خیرخواہ ہیں تو ہمیں وہ اقدامات فوراً سے پیشتر اٹھانے ہوں گے۔
اوّل : ایران اور سعودی عرب کے درمیان جو سرد جنگ جاری ہے‘ اور جو تیزی سے صف آرائی کی طرف گامزن ہے‘ اس جنگ میں ہمیں غیر جانبدار رہنا ہو گا۔ ہمارا واسطہ نہ اُس اتحاد سے ہونا چاہیے جو روس ‘شام اور ایران کے درمیان ہے ‘نہ ہی اُس سے جو اس کے مقابلے میں تشکیل پا رہا ہے! ہمارے ہاں شیعہ بھی ہیں اور سُنی بھی۔ ہم کسی ایسی پالیسی کے متحمل نہیں ہو سکتے جو ہمارے ماتھے پر ان دونوں میں سے کسی ایک بلاک کا لیبل لگا دے۔ ہماری مسلح افواج میں تمام فرقوں اور تمام عقائد کے افسر اور جوان شامل ہیں اور سب ملک پر قربان ہونے کا عزم رکھتے ہیں۔ ہماری عافیت اسی میں ہے کہ دونوں اتحادوں سے دور رہیں!
ہمیں دوٹوک فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا ان ملکوں سے اپنے مدارس کے لیے امداد قبول کرنا ہمارے لیے سودمند ہے یا مُہلک؟ کیا ایران ہمیں اجازت دے گا کہ ہم وہاں سُنی آبادیوں کے لیے مسجدیں بنوائیں اور کیا جزیرہ نمائے عرب میں ہم شیعہ یا بریلوی مکتب فکر کے مدارس کو امداد بہم پہنچا سکتے ہیں؟ حضور! ان دونوں ملکوں میں تو چڑیا پر نہیں مار سکتی! پاکستانیوں کی ہر دو ملکوں میں وہ چھان بین ہوتی ہے اور ائرپورٹوں پر اُن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے کہ ''عالم اسلام کے اتحاد‘‘ کا پول کُھل کُھل جاتا ہے۔ حکومت پاکستان پر لازم ہے کہ دونوں ملکوں سے صاف صاف کہے کہ کسی مدرسہ کو مدد نہ دیں ورنہ یہ مدد پاکستان دشمنی پر محمول کی جائے گی! یہاں ایک سوال وزارت داخلہ سے کرنے کو دل چاہتا ہے۔ کیا وزارت داخلہ کے ارباب قضا و قدر کو معلوم ہے کہ ان مدارس میں کیا پڑھایا جا رہا ہے؟ پڑھانے والے کون ہیں؟ اور گزشتہ تین یا پانچ برسوں میں فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ اِس وقت کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟
کوئی مانے یا نہ مانے‘ زمینی حقیقت یہ ہے کہ اسلامی اتحاد ایک روحانی تصور ہے۔ اس کا سیاست‘ معیشت اور معاشرت سے کوئی عملی تعلق نہیں! کون سا اسلامی اتحاد؟ بنگلہ دیش اور پاکستان کے باہمی تعلقات اس اتحاد کی اصلیت کھول کر رکھ دیتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں جو آگ جل رہی ہے‘ درست ہے کہ اس کے جلانے میں امریکی ہاتھ کا عمل دخل ہے مگر کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ امریکہ کو اشیرباد مسلمان ملکوں کی حاصل رہی ہے؟ ایران اور عراق برسر پیکار رہے۔ پھر عراق نے کویت پر چڑھائی کر دی۔ خطے کے اسلامی ممالک نے عراق کو ختم کرنے کے لیے امریکہ کی ہر ممکن معاونت کی۔ ترکی اور ایران صدیوں سے ایک دوسرے کے مخالف چلے آ رہے ہیں۔ یمن میں مسلمان مسلمان کو مار رہا ہے! ان تمام حقائق کو پس پشت ڈال کر جو حضرات الیکٹرانک میڈیا پر اسلامی اتحاد کے حوالے سے لچھے دار گفتگو کرتے ہیں ان میں سے کچھ تو خود فریق ہیں کیونکہ ان کے مدارس کو بیرونی امداد ملتی ہے اور کچھ اپنے آپ کو عوامی سطح پر مقبول سے مقبول تر بنانے کے لیے اس امرت دھارے کا استعمال کر رہے ہیں!
سادہ لوح عوام کو اسلامی ممالک کے نام تک نہیں معلوم! یہ تک نہیں پتا کہ اپنے ملک کے صوبوں میں کیا کچھ ہو رہا ہے‘ اسلامی اتحاد کے نام پر ان سادہ لوح عوام کے خون کو گرم کرنا آسان ترین سرگرمی ہے۔ مقبول عام ہونے کا یہ نسخہ اکسیر ہے!
مشرق وسطیٰ میں آگ جل رہی ہے! ہمیں اس آگ سے اپنے ملک کو بچانا ہو گا۔ سرحدیں اس قدر مضبوط کرنا ہوں گی کہ کوئی رضا کار ایران کے تربیتی کیمپوں میں جا سکے نہ داعش میں شمولیت اختیار کر سکے۔ ہمیں اپنے سادہ دل لوگوں کو قائل کرنا ہو گا کہ یہ عقائد کی جنگ ہے‘ نہ اسلام کی‘ یہ عالمی طاقتوں کے مفادات کی جنگ ہے۔ روس امریکہ کو باور کرانا چاہتا ہے کہ وہ عالمی سطح پر برابر کا حریف ہے۔ امریکہ اپنی برتری کو بچانے کے درپے ہے۔ یہ راز کی بات نہیں کہ مشرق وسطیٰ میں فرقہ وارانہ جنگ کی منصوبہ بندی امریکہ کے پالیسی سازوں نے چالیس پچاس برس پہلے کر لی تھی اور جو کُچھ ہو رہا ہے‘ منصوبہ بندی کے عین مطابق ہو رہا ہے!