از راہِ کرم اُونٹ سے پنگا نہ لیجیے

شام ڈھل رہی تھی۔ آخری کشتی گھاٹ سے روانہ ہو چکی تھی۔
میراثی بھاگتا بھاگتا گھاٹ پر پہنچا۔ اگر اُسے آخری کشتی نہ ملی اور اپنے گائوں نہ پہنچ سکا تو رات کہاں گزارے گا؟ اُس نے کنارے پر کھڑے ہو کر پوری قوت سے کشتی والوں کو پکارا۔ ہاتھ لہرائے، پھر کندھے سے چادر اتار کر اسے ہوا میں لہرایا۔ بالآخر ملاح کو اُس پر رحم آ گیا۔ کشتی والوں نے بھی ہمدردی کرتے ہوئے کشتی کو واپس کرنے کا مشورہ دیا۔ کشتی واپس گھاٹ پر لگائی گئی۔ میراثی نے سوار ہونے سے پہلے ایک نظر مسافروں پر ڈالی۔ اچانک ٹھٹھک گیا۔ اُلٹے پائوں واپس ہوا اور کشتی میں سوار ہونے سے انکار کر دیا۔
ملاح کے ساتھ مسافروں نے بھی اُسے برا بھلا کہا۔ اب کیا ہو سکتا تھا! میراثی نے نہ سوار ہونا تھا، نہ ہوا۔ کشتی دوبارہ روانہ ہو گئی۔ دریا کے عین درمیان میں پہنچی تو ہچکولے کھانے لگی۔ توازن بگڑ گیا۔ پھر پانی بھرنے لگا۔ جو اچھے تیراک تھے، پانی میں کود پڑے۔ باقی ٹوٹے ہوئے تختوں کے ساتھ چمٹ گئے۔ بہر طور کنارے پر واپس پہنچے تو میراثی ریت پر آلتی پالتی مارے مسکرا رہا تھا۔ سب اس سے پوچھنے لگے کہ تم سوار نہیں ہوئے اس کا مطلب ہے تمہیں معلوم تھا کشتی ڈوب جائے گی۔ بتائو، کیسے معلوم ہوا۔ میراثی ہنسا ۔کہنے لگا کشتی قریب آ کر رُکی اور میں سوار ہونے کے لیے آگے بڑھا تو دیکھا کہ کشتی کے مسافروں میں ایک بندر اور ایک اونٹ بھی شامل تھا۔ مجھے دو اور دو چار کی طرح یقین ہو گیا کہ بندر نے شرارت سے باز نہیں آنا۔ یہ پھدک کر اونٹ کی پشت پر سوار ہو جائے گا۔ پھر اچھل کود شروع کر دے گا۔ کبھی اونٹ کی گردن پر پنجے مارے گا کبھی اس کی دم سے لٹکنے کی کوشش کرے گا اور کبھی کوہان پر بیٹھے گا۔ اونٹ کو غصہ آئے گا۔ وہ جان چھڑانے کے لیے ہاتھ پائوں مارے گا۔ جھلا کر کودے گا۔ کشتی کا توازن خراب ہو جائے گا۔ افراتفری مچے گی۔ مسافر اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اونٹ مزید خوف زدہ ہو کر پورے زور سے اچھل کود کرے گا اور کشتی ڈوب جائے گی!
پاک چین اقتصادی راہداری کی کشتی گھاٹ سے روانہ ہوئی تو جاننے والے جان گئے تھے کہ اس پر پنجاب‘ بلوچستان اور کے پی کے اونٹ اور بندر سوار ہیں۔ بندر نے شرارت سے باز نہیں آنا اور اونٹ نے احتجاج کرنا ہی کرنا ہے۔ اب کشتی کا توازن اس حد تک بگڑ چکا ہے کہ دو دن پہلے پشاور میں ہونے والے اجلاس میں مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے گورنر نے بھی کے پی کے اونٹ کا ساتھ دیا۔ وفاقی وزیر کی کسی یقین دہانی پر کسی نے اعتبار نہ کیا۔ معاملہ جہاں تھا وہیں رہا۔ کے پی کے نمائندوں نے فنڈنگ کے ذرائع، وفاقی بجٹ اور چین کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کی مکمل تفصیلات مانگیں۔ اس اجلاس کی جو خبریں موصول ہوئی ہیں ان سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ وفاقی وزیر معترضین کی تسلی نہ کر سکے۔ مبینہ طور پر ان کی وضاحتیں اطمینان بخش نہ تھیں۔ پرنالہ وہیں کا وہیں رہا۔ ہاں اجلاس کے خاتمے کو ''باعزت‘‘ رنگ دینے کے لیے گورنر کی تجویز پر مرکز کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی گئی جس میں تمام پارٹیوں کے پارلیمانی لیڈروں کو شامل کر لیا گیا۔ گویا نشستند و گفتندو برخاستند سے بات آگے نہ بڑھ سکی۔
وفاقی وزیر نے کہا ہے کہ ان تیرہ سوالوں کے جواب انہوں نے دے دیئے ہیں جو کے پی کے وزیر اعلیٰ نے سرکاری مراسلے میں اٹھائے تھے۔ دوسری طرف وزیر اعلیٰ ان جوابات کو ناکافی قرار دیتے ہیں۔ اس کا ایک ہی حل ہے۔ آن را کہ حساب پاک است، از محاسبہ چہ باک۔ جوابات تسلی بخش ہیں تو وفاقی وزیر کو چاہیے کہ یہ تیرہ سوالات اور ان کے جواب پریس کو جاری کر دیں۔ عوام خود ہی جان لیں گے کہ مرکز طفل تسلیاں دے رہا ہے یا صوبہ ہٹ دھرمی کر رہا ہے۔
عجیب و غریب اور پراسرار معاملہ یہ ہے کہ 30 دسمبر کو وزیر اعظم نے جو افتتاح کیا اس کے بارے میں اُس وقت یہ بتایا گیا کہ یہ ژوب مغل کوٹ ہائی وے(این50) اور قلعہ سیف اللہ واگم ہائی وے(این 70) کا افتتاح تھا۔ اب پشاور میں وفاقی وزیر نے اس ضمن میں یہ وضاحت کی ہے کہ افتتاح تو کوئٹہ اور گوادر کے درمیان اُس حصے کا ہوا تھا جو خراب بلکہ غائب ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ژوب اور مغل کوٹ اُس شاہراہ پر واقع ہی نہیں جو کوئٹہ سے گوادر جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ افتتاح کوئٹہ اور گوادر کے درمیان Missing روڈ کا تھا تو یہ بات اُس وقت کیوں نہ بتائی گئی؟ ہائی وے اور موٹروے کے فرق کے حوالے سے بھی صحافیوں نے کالم لکھے اور وضاحتیں طلب کیں۔ جن کا ابھی تک وفاقی حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر یہ سوال بھی پوچھا جانا چاہیے کہ 35بلین ڈالر کی سرمایہ کاری چینی کمپنیوں نے پنجاب ہی میں کیوں کی؟
اصولی طور پر، پشاور میں منعقدہ اجلاس کی کارروائی پوری قوم کو دکھائی جانی چاہیے تھی۔ وفاقی وزیر نے اُس اجلاس میں اپنا یہ مشہور مؤقف دہرایا کہ ''اگر پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو متنازع بنایا گیا تو آئندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی‘‘۔ اس کا جواب اے این پی کے رہنما سردار حسین بابک نے وہیں دے کر حساب صاف کر دیا کہ ''اگر کسی صوبے یا علاقے کا حق مارا گیا تو آج کی نسل نہیں بخشے گی‘‘۔ اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ؎
کس کا یقین کیجیے، کس کا یقیں نہ کیجیے
لائے ہیں بزمِ ناز سے یار خبر الگ الگ
وفاقی وزیر اگر مناسب سمجھیں تو آئندہ نسلوں سے پہلے، موجودہ نسل کو مطمئن کرنے کی فکر کریں۔ اب تک کے معاشی مسائل کا ذمہ دار تو تحریک انصاف کے دھرنے کو ٹھہرایا جاتا رہا تھا۔ یہ جو اقتصادی راہداری کے سلسلے میں یُدھ آن پڑا ہے، اس کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے گا؟ مکا بازی کی مشق کرنے کے لیے ایک غلاف میں گندم کے دانے، ریت اور چیتھڑے ڈال کر اُسے لٹکا دیا جاتا ہے۔ مُکہ باز اُسے اپنے مُکوں اور گھونسوں کا ہدف بناتا ہے اور تربیت کے مراحل طے کرتا ہے۔ اسے پنچنگ بیگ (Punching Bag) کہا جاتا ہے۔ دھرنے کے بعد تحریکِ انصاف کو پنچنگ بیگ بنا لیا گیا۔ جاپان میں زلزلہ آیا یا برازیل میں سیلاب، الزام دھرنے پر دھرا گیا۔ وفاقی حکومت کے لیے اب غیر خوشگوار صورتِ حال یہ آن پڑی ہے کہ اقتصادی راہداری کے جھگڑے میں حکومت کے دیرینہ سرپرست مولانا فضل الرحمن سے لے کر اے این پی تک اور آفتاب شیرپائو صاحب تک سب یکساں مؤقف رکھتے ہیں۔ ایک عام پاکستانی سوچتا ہے کہ جب یہ سب یک زبان ہو کر چیخ رہے ہیں کہ مغربی روٹ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا تو کیا یہ سارے عقل کے کچے ہیں؟ یا کند ذہن ہیں؟ یا کیا وفاق سے ان کی دشمنی ہے؟ آخر انہیں مطمئن کیوں نہیں کیا جا رہا؟ آخر مسلم لیگ نون کے اپنے گورنر، وفاقی وزیر کی وضاحتوں سے کیوں مطمئن نہیں ہوئے؟
ازراہِ کرم کشتی کو پار لگانے کی فکر کیجیے۔ بندر کو باندھ کر رکھیے، اونٹ کو آرام سے سفر کرنے دیجیے۔ وفاقی حکومت عوام کو ثالث بنائے۔ کے پی کے اٹھائے گئے تیرہ سوالات اور ان کے جوابات کو برقع نہ پہنائے۔ جس شاہراہ کا افتتاح وزیر اعظم نے کیا، اُس کے بارے میں مؤقف تبدیل نہ کرے یا تبدیلی کی وضاحت کرے اور لگے ہاتھوں قوم کو یہ راز بھی بتا دے کہ چینی کمپنیاں 35 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ایک ہی صوبے میں کیوں کر رہی ہیں؟ کیا یہ فیصلہ ان کمپنیوں نے کیا ہے یا ان سے کرایا گیا ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں