کُچھ عرصہ کے لیے انگلستان کے ایک دلکش قصبے گلوسٹر میں قیام تھا۔ فراغت تھی‘ موسم خوشگوار تھا‘ میلوں پیدل چلنے سے جو فرحت حاصل ہوتی تھی‘ بے مثال تھی۔ ٹائون سنٹر میں قدیم عمارتیں تھیں‘ بُک شاپیں تھیں‘ ٹائون لائبریری تھی‘ مسجد تھی‘ پاکستانی سینڈوچ فروش تھے۔
ایک صبح معمول کے مطابق نکلا اور فُٹ پاتھ پر چلتا جا رہا تھا کہ آگے راستہ بند ملا۔ سڑک کھودی جا رہی تھی‘ سُرخ رنگ کے فیتے ہر طرف رکاوٹ کی نشاندہی کر رہے تھے۔ غور سے دیکھا تو ایک طرف لکھا تھا: ''پیدل چلنے والوں کے لیے‘‘۔ سُرخ رنگ کے فیتوں کے درمیان ایک راستہ بنایا گیا تھا جو تنگ تھا مگر اتنا ضرور تھا کہ ایک راہگیر آسانی سے چل سکے‘ یہ اہتمام کئی فرلانگ تک کیا گیا تھا‘ یہاں تک کہ پیدل چلنے والا اُس جگہ پہنچ جاتا تھا جہاں فُٹ پاتھ کا راستہ کلیئر تھا۔ صاف ظاہر ہے کہ اگر پیدل چلنے والوں کے لیے اس قدر اہتمام تھا تو گاڑیوں کو متبادل راستہ فراہم کرنے کے لیے بھی اتنا ہی اہتمام کیا گیا تھا۔
یہ بُھولے بسرے دن آج یوں یاد آئے کہ اورنج لائن ٹرین منصوبے کا مقدمہ سنتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ نے حکم دیا ہے کہ متبادل رُوٹ اختیار کیا جائے اور متبادل رُوٹ کی تخصیص کیے بغیر کام جاری نہ رکھا جائے۔ کوئی ڈھنگ کا ملک ہوتا تو کام شروع کرنے سے ہفتوں کیا مہینوں پہلے‘ متبادل راستے متعین کئے جاتے اور پبلک کو اخبارات‘ ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے ذریعے تمام تبدیلیوں سے آگاہ کیا جاتا۔
جن بیماریوں میں ہم قومی اعتبار سے مبتلا ہیں‘ ان میں سرفہرست بیماری یہ ہے کہ ہم صحیح کام کو غلط طریقے سے کرتے ہیں۔ یہ فیشن بن چکا ہے کہ عوام کو اصل حقائق سے مطلع نہ کیا جائے۔ عوام کے نمائندے وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں میں موجود ہیں۔ جیسے بھی ہیں‘ بُرے یا بھلے‘ لائق یا گزارا‘ نمائندے تو ہیں‘ اتنا بڑا پروجیکٹ پنجاب اسمبلی کے سامنے لایا ہی نہیں گیا۔ اب تک ہر فورم پر یہ کہا جاتا رہا ہے کہ اورنج لائن ٹرین‘ اقتصادی راہداری (سی پیک) کا حصہ نہیں‘ مگر عدالت میں سرکاری وکیل دہائی دے رہا ہے کہ حکومت کے چین کے ساتھ معاہدے ہیں‘ اگر منصوبے پر عملدرآمد میں تاخیر ہوئی تو نقصان ہو گا۔
شفافیت کا یہ عالم ہے کہ عدالت کو جب بتایا گیا کہ گیارہ تاریخی عمارتوں کے بارے میں این او سی لیا جا چُکا ہے تو مخالف وکیل نے پول کھول کر بیچ چوراہے کے رکھ دیا۔ ڈائریکٹر آثار قدیمہ سلیم الحق تھے‘ اُنہوں نے این او سی دینے سے انکار کر دیا کیونکہ 1975ء کا متعلقہ ایکٹ این او سی کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ کُچھ عمارتوں کا این او سی چیف سیکرٹری نے دیا جو دینے کے مجاز ہی نہ تھے۔ مانا کہ ڈائریکٹر آثار قدیمہ چیف سیکرٹری کا ماتحت ہوتا ہے مگر تکنیکی پیچیدگیوں سے چیف سیکرٹری نہیں‘ ڈائریکٹر واقف ہوتا ہے۔ یہ اسی طرح ہے کہ اگر چیف میڈیکل آفیسر کسی مریض کو لاعلاج قرار دے دے تو چیف سیکرٹری صاحب اُس مریض کا خود علاج کرنا شروع کر دیں۔ نیّر علی دادا فن تعمیر کا ایک معتبر نام ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت پنجاب اس پائے کے معتبرین سے خود صلاح مشورہ کرتی‘ وہ بھی نہ کیا اور جب نیّر علی دادا اور دوسرے ماہرین تعمیرات نے این او سی دینے کی مخالفت کی تو سرکاری افسروں نے یہ مخالفت بُلڈوز کر کے ''آل کلیئر‘‘ کی اطلاع اُوپر پہنچائی اور کام شروع ہو گیا۔ اس وقت لاہور کا جو حال ہے‘ اُس پر لاہور کے شعراء کو شہر آشوب لکھنی چاہیے تھی۔
ایک شاعر نے مشاعرہ شروع ہونے سے پہلے ایک دوست کو دو غزلیں دکھائیں اور پوچھا کون سی سنانی چاہیے۔ دوست نے جس غزل کی سفارش کی‘ شاعر نے اُسے پھاڑ کر پھینک دیا‘ دوسری غزل سنائی اور خوب داد سمیٹی۔ پنجاب کے حکمران اعلیٰ نے بھی کم و بیش ایسا ہی کیا لیکن المیہ یہ ہوا کہ جو غزل رد کی‘ وہی کام کی تھی۔ آپ دہلی تشریف لے گئے تھے۔ وہاں زیر زمین ریلوے (دہلی میٹرو) کا معائنہ کیا۔ معروف ترین سٹیشن دیکھا۔ سواری بھی کی۔ مگر لاہور میں میٹرو بس کا قوی ہیکل منصوبہ، جس کا آغاز ہو چکا تھا، بہرطور پر مکمل کیا گیا۔ ایک خطیر رقم کی سالانہ امداد میٹرو بس کو سرکار کی طرف سے ملنا ضروری ہے۔
بچے کو بھی معلوم ہے کہ دہلی‘ ممبئی‘ کراچی‘ لاہور‘ لندن‘ نیویارک‘ سنگاپور اور اس قبیل کے بڑے عفریت نما شہروں کے لیے زیر زمین ریلوے ہی بنائی جاتی ہے۔ لندن کی زیر زمین ریلوے کی شروعات 1863ء میں ہوئی۔ 1907ء تک یہ ریل بجلی سے چلنا شروع ہو گئی تھی۔ مگر لندن کو چھوڑیے‘ وہ تو سفید فام ہیں‘ پیرس میں زیر زمین ریلوے بنانے پر 1845ء میں غور شروع ہوا۔ پیرس کو بھی چھوڑ دیجیے کہ وہ تو فرانسیسی بولتے ہیں‘ دہلی زیر زمین کی مثال لے لیجیے۔ دہلی والوں کا رنگ بھی ہمارے جیسا ہے‘ زبان بھی ملتی جلتی ہے اور عادات حسنہ اور عادات قبیحہ میں بھی اشتراک پایا جاتا ہے۔ دہلی زیر زمین ریلوے کی منصوبہ بندی 1984ء میں شروع ہوئی۔ اس کی خاص بات جو ہمارے لیے سبق آموز ہے‘ یہ ہے کہ یہ اصلاً زیر زمین ہے مگر جہاں جہاں ضرورت پڑی اور صورتحال نے مجبور کیا یا اجازت دی تو زمین کے اُوپر بھی چل رہی ہے۔ عدالت میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایل ڈی اے اورنج ٹرین منصوبے کی نگرانی کر رہا ہے۔ ترقیاتی اداروں کی جو شہرت ہمارے ہاں عام ہوئی ہے‘ اس کے پیش نظر ایسا کوئی بھی منصوبہ کے ڈی اے یا ایل ڈی اے یا سی ڈی ای کے حوالے کرنا اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ دہلی میٹرو کے منصوبے کا تصور دہلی کے ترقیاتی ادارے (ڈی ڈی اے) نے پیش کیا تھا مگر انڈین گورنمنٹ نے اسے ڈی ڈی اے کے حوالے نہیں کیا۔ ایک خاص ادارہ ''دہلی میٹرو ریل کارپوریشن‘‘ اس مقصد کے لیے تشکیل دیا گیا۔ یکم نومبر 2015ء کے اعداد و شمار کی رُو سے دہلی میٹرو اس وقت ایک سو ساٹھ سٹیشن پر رُک رہی ہے۔ ایک سو بتیس میل اس کی کُل لمبائی ہے۔ ایئرپورٹ کے خصوصی رُوٹ کے علاوہ یہ ریل بنفشی لائن‘ سبز لائن‘ نیلی لائن‘ زرد لائن اور سُرخ لائن کے راستوں پر مشتمل ہے۔ 2002ء میں ابتدا ہوئی تو روزانہ اسّی ہزار مسافر سفر کر رہے تھے۔ 2015ء میں روزانہ کے مسافروں کی تعداد چھبیس لاکھ ہو چکی ہے۔
مزید تفصیلات یہاں بیان کرنا کار لاحاصل ہے۔ دل سلگانے والی بات ہے۔ دہلی سمیت جہاں جہاں زیر زمین ریلوے کے منصوبے بروئے کار لائے گئے‘ ان میں شفافیت تھی۔ جہاں جہاں جمہوریت تھی‘ عوامی نمائندوں کی شمولیت نے اسے سوچا اور پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ سالہا سال پہلے ازبکستان جیسے ممالک نے‘ جو ہم سے کئی فرسنگ پیچھے ہیں‘ زیر زمین ریلوے چلا دی جو کامیابی سے چل رہی ہے۔
ہم کب تک صحیح کام غلط طریقوں سے کر کے ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے جاتے رہیں گے؟ اگر اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ پنجاب اسمبلی میں پیش کیا جاتا‘ اگر نیّر علی دادا جیسے ماہرین فن کو اوّل دن سے ساتھ رکھا جاتا‘ اگر کار سواروں اور پیدل چلنے والوں کے لیے متبادل رُوٹ کا بروقت اہتمام کر لیا جاتا‘ اگر ہر معاملے میں حد درجہ شفافیت اختیار کی جاتی تو یہ منصوبہ اس وقت تنقید‘ تردید اور تنقیص کا شکار ہونے کے بجائے تعریف کا مستحق ہوتا۔ مگر شاید ہمارے اہل اقتدار کو عوام کی محبت راس نہیں آتی۔ ہر ممکن کوشش سے ایک ہنگامہ کھڑا کرتے ہیں اور پھر وضاحت در وضاحت کا ایک لامتناہی سلسلہ!! ؎
کھینچیں میر تُجھ ہی سے یہ خواریاں
نہ بھائی ہماری تو قُدرت نہیں