''شادی والا گھر تھا۔ ہنگامہ ایسا تھا کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی۔ ہم جتنے ڈرائیور تھے، ایک ہال نما کمرے میں تھے۔ کمرہ کیا تھا جیسے کوئی اپرکلاس انتظار گاہ ہو! صوفے لگے تھے‘ ایئرکنڈیشنر چل رہا تھا۔ بہت اچھا کھانا کھلایا گیا۔ اعلیٰ نسل کے سگرٹ مہیا کیے گئے۔ چائے کا خصوصی انتظام تھا۔ چار دن میں اتنی خاطر تواضع ہوئی کہ پہلے زندگی میں کہیں نہ ہوئی تھی۔ جس دن روانگی تھی عجیب منظر دیکھا۔ دولہا کے ماں باپ شاید نہیں تھے۔ اس کی ایک پھپھی زاد بڑی بہن سرپرست تھیں۔ بڑے سے پورچ میں کھڑی پجارو میں بیٹھی تھیں۔ ملازموں اور ڈرائیوروں کو بلا بلا کر کچھ دے دلا رہی تھیں۔ میں ایک طرف بیٹھا تھا۔ اتنے میں گھر کے ایک ملازم نے آ کر کہا کہ باجی تمہیں بلا رہی ہیں۔ گیا تو اُس نیک بخت خاتون نے ایک لفافہ دیا اور پوچھا کہ قیام کے دوران کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی! اپنی جگہ واپس پہنچ کر لفافہ کھولا۔ اس میں بیس ہزار روپے تھے۔ خدا کی قدرت، میں پریشان تھا کہ بیوی کی دوائیں کیسے لوں گا، انیس ہزار اور کچھ سو روپوں کی دوائیں اور ٹیکے ڈاکٹر نے تجویز کیے تھے۔‘‘
رینٹ اے کار کمپنی کا ڈرائیور یہ قصہ سنائے جا رہا تھا اور کالم نگار، پچھلی نشست پر بیٹھا سن رہا تھا۔
''جی! کیا بتائوں، اِس نوکری میں کیسے کیسے لوگوں سے پالا پڑا ہے۔ ایک بار ایک فیملی کے ساتھ ڈیوٹی لگی۔ ملتان سے یا فیصل آباد سے آئی تھی۔ پی سی بھوربن مری لے کر گیا۔ ان کے کسی بچے کی سالگرہ تھی۔ ہوٹل کے بہت سے کمرے بک کرائے ہوئے تھے۔ سردی تھی، مری کی شدید سردی، میں پارکنگ میں اپنی کار میں بیٹھا رہا۔ آدھی رات ہوئی تو میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ میرے کھانے پینے اور سونے کا کیا انتظام ہے؟ کہنے لگے، جا کر کھانا کھا آئو، آدھی رات کو بھوربن میں کھانا تو خیر کیا ملنا تھا، سونے کے لیے ہوٹل میں جو جگہ ملی اُسے کمرہ نہیں کہا جا سکتا۔ کھڑکی ٹوٹی ہوئی تھی۔ ہوٹل والوں کا سامان ایک طرف ٹھنسا ہوا تھا اور ایک تار تار فوم ایک طرف پھنسا تھا جس پر رات گزاری!‘‘
یہ آپ بیتیاں سنانے کی تحریک اُسے اس لیے ہو رہی تھی کہ انتظار کے دوران چائے پیش کی گئی تھی۔
دنیا میں انسانوں کی دو ہی قسمیں ہیں۔
نیک اور بد کی تفریق تو بے معنی ہے۔ کون پارسا ہے اور کون گنہگار، یہ صرف اُسے معلوم ہے جو دلوں کے بھید جانتا ہے اور آنکھ کی خیانت پہچانتا ہے ؎
کھرے کھوٹے الگ ہو جائیں گے اعمال سارے
کھڑے ہوں گے نگوں سر قطب اور ابدال سارے
انسان کو کس نے اختیاردیا ہے کہ دوسرے انسان کو گنہگار قرار دے؟ شاعر نے اسی لیے کہا تھا ؎
یہ سبھی زمین کا حسن ہیں! سبھی اپنے ہیں
یہ گناہ گار! یہ پاکباز! سدا رہیں!
ظاہر سے اور ظاہری عبادات سے کسی کو نیکو کار قرار دینا ایسے ہی ہے جیسے چیتے یا سانپ کی خوبصورت کھال پر فریفتہ ہو جانا۔ واہ میں ایک صاحب تھے، بڑی مسجد میں ہر سال التزام سے معتکف ہوتے تھے۔ مگر ڈسپلن کے معاملات کی فائلیں وہیں منگواتے تھے اور نچلے طبقے کے ما تحتوں کو ملازمت سے برطرف کرتے وقت چہرے پر بشاشت اور اطمینان کی وہ لہر ہوتی تھی کہ زیادہ نورانی لگنے لگتے تھے۔
ایک بار ایک شریف شخص، جس سے عرصہ سے جان پہچان تھی، اس کالم نگار کے پاس آیا۔ پریشان تھا اور پراگندہ خاطر۔ چہرے پر زردی تھی، کہنے لگا، میرے باس آپ کے دوست ہیں۔ مجھے چارج شیٹ دی ہے۔ اور ملازمت سے نکالنے پر تلے ہوئے ہیں۔ آپ انہیں صرف اتنا کہیں کہ جو سزا مرضی ہے‘ دے دیں صرف نوکری سے نہ نکالیں۔ بیٹیوں والا ہوں۔ تباہ و برباد ہو جائوں گا۔ کیا جواب دیتا! کاغذ کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر صرف اتنا لکھا ''والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس‘‘۔ کاغذ کا ٹکڑا اسے دیا مگر بتایا کہ اگر تمہارے صاحب فیصلہ کر چکے ہیں تو وہی کریں گے جو ٹھان لی ہے۔ تقریباً ہمہ وقت باوضو رہتے تھے۔ مشینی تسبیح(کائونٹر) ہاتھ میں ہوتا تھا۔ وہ جو کسی نے کہا ہے ؎
زمیں پہ زائچے کہتے رہے کچھ اور مجھے
وہ آسماں پہ ستارے مر ے بدلتا رہا
ایک صبح اخبارات آئے تو مقتدر طبقات نے انہیں کہیں اور بھیجنے یا بھجوانے کا فیصلہ کر دیا تھا۔
اور عالم اور جاہل کی تفریق بھی اتنی ہی پھسپھسی ہے، کہاں کے عالم، عمل سے مکمل پرہیز کرنے والے۔ جیسے بار برداری کے جانوروں پر کتابیں لدی ہوئی ہیں۔ علم رکھتے ہیں مگر اسے ضمیر کے اندر لپیٹ کر فروخت کرتے ہیں۔ کبھی چار سکوں کی کھنکھناہٹ سننے کے لیے‘ کبھی وزارت کے قلمدان کی خاطر، خواہ قلم دان کا قلم ایک لفظ بھی نہ لکھ سکتا ہو، اور کبھی دربار میں کرسی کے لیے۔شاید اسی لیے اقبالؔ نے بے علم افغان کو مخاطب کر کے کہا تھا ؎
تیری بے علمی نے رکھ لی بے علموں کی لاج
عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان
دنیا میں انسانوں کی دو ہی قسمیں ہیں۔ فیاض اور خسیس! عرب کہا کرتے ہیں کہ فلاں کے عیوب مت گِنو۔ وہ فیاض ہے۔ اس لیے کہ فیاضی سو عیب ڈھانپ لیتی ہے۔ عربوں کی فیاضی کا کیا ہی کہنا۔ مگر وسط ایشیائی مسلمانوں کے سامنے ماند پڑ جاتی ہے۔ جو کچھ گھر میں ہو، سامنے رکھ دیتے ہیں۔ مہمان کے سامنے سب سے پہلے نان کے ٹکڑے کر کے رکھتے ہیں۔ صدیوں سے یہی رسم چلی آ رہی ہے۔ ایک بار ترمذ ایئرپورٹ پر اترا تو استقبال کرنے والی لڑکیاں پھولوں کے ساتھ، تِل اور خشخاش سے بھرے ہوئے تازہ نان بھی اٹھائے ہوئے تھیں۔ جتنی دیر مہمان بیٹھتا ہے، اتنی ہی دیر ماکولات اور مشروبات آتے رہتے ہیں۔ تازہ پھل، خشک میوہ جات، انواع و اقسام کے گوشت، کئی قسموں کے پنیر اور دہی، مٹھائیاں اور آخر میں وہ پلائو جسے ازبک پلائو بھی کہا جاتا ہے، تاجک پلائو بھی اور قازق پلائو بھی، بہت بڑی قاب میں پہاڑ نما پلائو کے اوپر گوشت کا بڑا ٹکڑا، بریاں شدہ، روایت یہ ہے کہ مجلس میں جو عمر رسیدہ ہو گا، وہ اس ٹکڑے کو پارہ پارہ کرے گا اور بانٹے گا۔ تاشقند میں میزبان کے ہمراہ محلے کی مسجد میں نماز پڑھی۔ اس کے بعد گھر کے دروازے پر پے در پے دستکیں ہوتی رہیں کہ مہمان رات کا کھانا ہمارے ہاں کھائے۔ ایک ازبک دوست کے گھر گئے۔ ساتھ ایک مقامی صاحب تھے۔ مہمان کو تو چپان(چُغہ) پیش کرنا ہی تھا کہ مہمان نوازی کی علامت ہے، مقامی صاحب کو بھی نئی قمیض تحفے میں دی اور عجز سے عذر خواہی کی کہ گھر میں اس کے علاوہ پیش کرنے کو کچھ ہے نہیں۔
برامکہ کی فیاضی تاریخ میں ضرب المثل ہے۔ خالد اُن کا جدِ امجد تھا۔ پھر یحییٰ، یحییٰ برمکی کے کئی فرزند تھے۔ مگر فضل اور جعفر مشہور ہوئے۔ یہ سب فیاض تھے۔ سب کچھ لٹا دینے والے۔ یہی فیاضی ہارون الرشید کے دل میں حسد کا بیج بو گئی اور بساط الٹ گئی۔ کچھ قتل ہوئے اور کچھ حوالۂ زنداں۔ فضل اور جعفر کا ایک بھائی محمد تھا۔ کنجوسی میں بے مثال۔ اس کی کنجوسی باپ کے لیے سوہانِ روح تھی۔ ''متاثرین‘‘ میں سے ایک شاعر نے ہجو کہی اور عجیب مضمون باندھا۔ لکھا کہ اگر محمد برمکی کے پاس بغداد سے قاہرہ تک محلات کی قطاریں ہوں اور ہر محل میں سینکڑوں کمرے ہوں۔ اور ہر کمرے میں سوئیاں بھری ہوں اور یعقوب علیہ السلام اس سے ایک سوئی ادھار مانگیں کہ یوسف علیہ السلام کی قمیض سینی ہے اور جبرائیل اور میکائیل سوئی کی واپسی کی ضمانت دیں اور سارے انبیاء کرام سفارش کریں تب بھی سوئی نہیں دے گا۔
دو چیزوں کا پتہ اس سے چلتا ہے کہ ملازموں اور اپنے سے کم حیثیت لوگوں کے ساتھ کیا برتائو ہے؟ ایک خاندان کا دوسرا فیاض کا پتہ، اپنے سے برتر لوگوں کی خاطر و خدمت فیاض کی کسوٹی نہیں۔ یہ تو سفلے بھی کر لیتے ہیں! تونگری، دل سے ہے، مال سے نہیں، اور یہ نہیں دیکھتی کہ مہمان کی دنیاوی حیثیت کیا ہے؟ قبائلی تہذیبیں اس لحاظ سے برتر ہیں۔ عربوں کے ہاں ملازم ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔ یہی حال خیبر پختون خوا اور قبائلی علاقوں میں ہے۔ نوکر اور ڈرائیور کا اتنا ہی احترام ہے جتنا کسی بھی مہمان کا۔ مزدوری کی مدت کے دوران ایک بار نیپا پشاور میں چار ماہ کا قیام کرنا پڑا۔ جتنے حضرات مقامی تھے، سب نے اپنے اپنے گھر دعوتیں کیں۔ پھر زمانے کی گردش سٹاف کالج لاہور لے آئی۔ پانچ ماہ کا قیام یہاں بھی رہا۔ زندہ دل شہر کے میزبانوں نے کسی مسافر کو گھر کا پتہ نہ دیا۔