جنرل ضیاء الحق نے جولائی1977ء کے پہلے ہفتے میں ذوالفقار علی بھٹو کو تخت سے اتارا اور اقتدار کا تاج اپنے سر پر رکھ کر تخت نشین ہوئے۔ الطاف حسن قریشی صاحب نے جنرل صاحب کا انٹرویو‘ جو ان کی تازہ کتاب ''ملاقاتیں کیا کیا‘‘ میں شامل ہے‘ اس کے دو ماہ بعد‘ ستمبر میں لیا۔ اس انٹرویو سے تاثر یہی ملتا ہے کہ انٹرویو لینے والے اور دینے والے کے درمیان مکمل نہیں تو اچھی خاصی ذہنی ہم آہنگی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو انٹرویو کے دوران ایسے مقامات آتے رہے جہاں جنرل صاحب کو آڑے ہاتھوں لیا جا سکتا تھا۔
ایک طرف جنرل صاحب اس انٹرویو میں بار بار کہہ رہے تھے کہ''ہم اقتدار پر قابض رہنے کے لیے نہیں اقتدار منتقل کرنے آئے ہیں۔ عام انتخابات انشاء اللہ 18اکتوبر کو ضرور منعقد ہوں گے۔‘‘
''میرا موقف واضح اور غیر مبہم ہے‘ میں صرف آزادانہ انتخابات منعقد کرانے آیا ہوں۔ نوے دن کے بعد اقتدار عوام کے نمائندوں کے سپرد کر دوں گا!‘‘
دوسری طرف ایسے واضح اشارات بھی دیے جا رہے تھے کہ وہ ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں ۔مثلاً ''ہم اپنے معاشرے میں سزائوں کے نفاذ کے ساتھ ساتھ اقتصادی اصلاحات بھی نافذ کر رہے ہیں۔ ہمارا مقصد ایذا رسانی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی منشا نافذ کرنا ہے۔ کائنات کے رب ہماری رہنمائی فرماتے رہے تو ہم اپنی مراد ضرور پا لیں گے۔‘‘
اب یہاں ان سے پوچھا جانا چاہیے تھا کہ جناب! نوّے دن میں اقتصادی اصلاحات کیسے نافذ ہوں گی؟ یہ تو ایک طویل المیعاد کام ہے اور ''اللہ تعالیٰ کی منشا‘‘ تین ماہ میں کس طرح نافذ ہو گی اور اس ''منشا‘‘ کے خدوخال کیا ہیں؟
آگے چل کر ایک سوال کے جواب میں جنرل صاحب واشگاف الفاظ میں اپنے عزائم کا اظہار کرتے ہیں۔''میری خواہش ہے کہ اسلام کی ایسی خدمت کر جائوں کہ میری عاقبت سنور جائے۔ ہمارے انتخاب ہی سے آپ کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ ہمارا ارادہ ٹھوس بنیادیں فراہم کرنے کا ہے۔‘‘
ٹھوس بنیادیں! اور نوّے دن! اس پر تبصرہ کرنے کی گنجائش ہی نہیں!
یہ انٹرویو سات ستمبر1977ء کو لیا گیا ۔قتل کے الزام میں بھٹو صاحب کو تین ستمبر کو گرفتار کیا گیا تھا۔ گرفتاری کے تین دن بعد جنرل صاحب کو یقین ہو چلا تھا کہ قتل کا ارتکاب بھٹو صاحب نے کیا تھا! الطاف صاحب سوال پوچھتے ہیں: ''کیا کسی عرب ملک نے مسٹر بھٹو کی گرفتاری پر احتجاج کیا؟‘‘ جنرل صاحب جواب میں کہتے ہیں:''جی نہیں! یہ تو ہمارا اندرونی مسئلہ ہے۔ خالص قانونی مسئلہ! قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ جو شخص بھی قتل کا مرتکب ہو گا‘ عدالت میں اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی!‘‘ اس جواب سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ جنرل صاحب قتل کے اس کیس کو ''انجام‘‘ تک پہنچانے کا ارادہ ابتدا ہی سے کر چکے تھے!
تاریخ بھی کیا کیا ستم ظریفیاں دکھاتی ہے! بھٹو صاحب نے قتل خود نہیں کیا تھا! مگر موت کی سزا ملی! اسی ملک میں اڑتیس برس بعد صولت مرزا قتل کے جرم میں پھانسی پر جھول گیا مگر جس کے کہنے پر اس نے ‘بقول اس کے‘ قتل کیا‘ اس کا بال بھی بیکا نہ ہوا ع
تھا جو نا خوب‘ بتدریج وہی خوب ہوا
انٹرویو کے آخر میں الطاف صاحب نے جنرل صاحب کی شخصیت کا تجزیہ کیا ہے۔ یہ تحلیل نفسی‘ ظاہر ہے ضیا صاحب کی زندگی کے دوران نہیں شائع ہوئی ہو گی۔ لگتا ہے اس باب کے آخری چار صفحات اب لکھے گئے ہیں۔ الطاف صاحب رقم طراز ہیں:'' جنرل ضیاء الحق کو میں جب علماء و فضلاء کے درمیان بیٹھے اور حرم کعبہ میں ان کی خشوع و خضوع والی کیفیات دیکھتا تو ذہن میں سوال پیدا ہوتا کہ انہوں نے اس قدر سنگ دلی سے بھٹو صاحب کو کیسے پھانسی پر لٹکا دیا۔ جب میں نے گہرائی سے تجزیہ کیا تو محسوس ہوا کہ ان کی شخصیت دو حصّوں میں تقسیم تھی۔ شخصیت کا ایک پہلو وہ تھا جو اقتدار کے تحفظ سے تعلق رکھتا تھا* دوسرا وہ جس میں اسلامی نظام کو نافذ کرنے اور فوج اور معاشرے کے سدھار کی تڑپ پائی جاتی تھی۔ اقتدار کو بچانے کے لیے انہوں نے مسٹر بھٹو کو تختۂ دار پر لٹکایا اور پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کے لیے تمام ظالمانہ حربے استعمال کیے۔ 1984ء میں مضحکہ خیز ریفرنڈم کا ڈرامہ رچایا...‘‘
یہ سطور الطاف صاحب نے جب بھی لکھی ہوں‘ تجزیہ درست کیا ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ اقتدار کا تحفظ جنرل صاحب کی اوّلین ترجیح تھی!
یہ سطور لکھتے وقت ذہن میں ایک بلبلہ اٹھا! الطاف صاحب اب ریفرنڈم کو مضحکہ خیز قرار دے رہے ہیں۔ کیا اس وقت انہوں نے اسی رائے کا اظہار کیا تھا؟ اس کے بارے میں اس کالم نگار کو نہیں معلوم! مگر اعتراض کرنا آسان ہے اور آمر کے سامنے کچھ کہنا اور اس کے عہد کے دوران لکھنا اور بات ہے۔ ساتھ ہی ایک مشہور واقعہ بھی یاد آ رہا ہے۔ خرو شچیف ایک اجلاس میں سٹالن کے دور کی بھر پور مذمت کر رہا تھا۔ ایک گمنام چٹ موصول ہوئی جس پر لکھا تھا:''سٹالن کے سامنے یہ سب کچھ کیوں نہ کہا؟‘‘۔ خرو شچیف نے کڑک کر پوچھا:''چٹ کس نے بھیجی ہے؟‘‘ کوئی جواب نہ ملا ۔خرو شچیف نے قہقہہ لگایااور کہا :''بس! میں بھی اسی طرح دب کر بیٹھتا تھا‘‘۔
ہم جب اعتراض کرتے ہیں کہ فلاں موقع پر‘ فلاں کے سامنے یہ کیوں نہ کہا تو ہمیں اپنے آپ سے بھی پوچھنا چاہیے کہ کیا اگر ہم وہاں ہوتے تو کہتے؟
جنرل ضیاء الحق کے انٹرویو والے باب میں جن آخری چار صفحات کا الطاف صاحب نے اضافہ کیا ہے وہ خاصے دلچسپ اور معلوماتی ہیں۔ ان صفحات میں اس بات کی بھی تصدیق ہو جاتی ہے کہ تین صحافیوں کی مثلث جنرل ضیاء کے عہد میں طاقت ور تھی۔ اس قدر طاقت ور کہ یہ مثلث بادشاہت تو نہیں مگر بادشاہت گری ضرور کر رہی تھی۔ یہ تین طاقت ور صحافی جناب الطاف حسن قریشی‘ جناب مجیب الرحمن شامی اور جناب مصطفی صادق مرحوم تھے۔ الطاف صاحب لکھتے ہیں کہ جونیجو حکومت برطرف کرنے کا اشارہ جنرل صاحب نے الطاف صاحب کو ایک ہفتہ پہلے دے دیا تھا۔ اس سے قربت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ قربت ہی سے طاقت پھوٹتی ہے۔ الطاف صاحب آگے چل کر بتاتے ہیں:''راقم الحروف اور مجیب الرحمن شامی نے ایک رات انہیں (یعنی جنرل صاحب کو) جناب مصطفی صادق اور عزیزم حسین حقانی کی خدمات سے فائدہ اٹھانے کا مشورہ دیا۔ مصطفی صادق وزیر مملکت بنا لیے گئے۔‘‘ الطاف صاحب کی تصنیف '' ملاقاتیں کیا کیا‘‘ کے ساتھ ایک اور اہم کتاب کا پڑھنا بھی ضروری ہے۔ مظفر محمد علی مرحوم کی تصنیف''پاکستان کے راز دان صحافی‘‘ میں چودہ صحافیوں کے انٹرویو شامل ہیں۔ یہ کتاب مرحوم کے قریبی عزیز اور نوجوان صحافی اجمل شاہ دین نے 2011ء میں شائع کی۔ اس میں جناب مجیب الرحمن شامی اور جناب مصطفی صادق مرحوم کے طویل اور تفصیلی انٹرویو شامل ہیں۔ ان سے بھی اس تکون کی تصدیق ہوتی ہے اگرچہ کچھ اور اصحاب بھی جنرل ضیاء کے قریب تھے اور کار مملکت میں دخیل تھے جیسے مولانا ظفر احمد انصاری‘ مفتی زین العابدین‘ مولانا عبدالرحیم اشرف وغیرہ۔ مگر مثلث کی بات اور تھی! (باقی صفحہ13پر )
جناب مجیب الرحمن شامی‘ مظفر محمد علی مرحوم کو دیئے گئے انٹرویو میں بتاتے ہیں:''جنرل ضیاء الحق سے میری بہت دفعہ ملاقات ہوئی ۔ کئی چیزیں ایسی ہیں جو میری کوششوں سے ہوئیں۔ بہت سے معاملات ہیں۔ کہاں تفصیلات میں جائیں‘ بہرحال میں مختصراً بات کرتا ہوں۔ جاوید ہاشمی کے لیے وزارت میں میری کوشش کا سو فیصد دخل تھا۔ اس کے بعد جاتے جاتے مصطفی صادق صاحب وزیر بنے ‘اس میں بھی میری کوشش کا بڑا دخل تھا۔ اس کے علاوہ کئی فیصلے ایسے تھے جن پر میں اثر انداز ہوا۔ جیسے غیر جماعتی انتخابات کا انعقاد...‘‘
اس مثلث میں الطاف حسین قریشی اور مجیب الرحمن شامی نے تو صحافت میں اپنے آپ کو منوایا مگر مصطفی صادق خالص جوڑ توڑ کے آدمی تھے۔ ان کا اخبار''وفاق‘‘ اپنا کوئی مقام نہ بنا سکا۔ انٹرویو ان کا بہت دلچسپ ہے۔''مہارت‘‘ اور ''پی آر‘‘ کا یہ عالم تھا کہ بلا مبالغہ ہر حکمران کی قربت حاصل کرلیتے تھے۔
کیا جنرل ضیاء الحق کے قریب ہونا اور ان کے فیصلوں پر اثر انداز ہونا بری بات تھی؟ نہیں! ہرگز نہیں! شامی صاحب اس کا جواب پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:''جب ہم ایک راستے پر چل نکلے‘ بھٹو صاحب نے ہمارا جینا دوبھر کر دیا۔ اس کے بعد ضیاء الحق صاحب آئے تو ہمیں ایک Reliefملا۔ اب Reliefملا تو دانستہ یا نادانستہ ہم ان کے ساتھAttachہو گئے‘‘۔ یہ ایک فطری امر تھا۔ بھٹو صاحب نے ان حضرات کو قید و بند میں ڈالا‘ ان کے اخبارات و جرائد کا گلا گھونٹا۔ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے کے فارمولے کے مطابق جنرل ضیاء الحق کے ساتھ ان حضرات کی قربت حالات کا منطقی نتیجہ تھا۔ مگر اس قربت اور اس طاقت کا انکار کرنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ غالباً جناب مجیب الرحمن شامی نے کسی ٹی وی پروگرام میں کہا ہے کہ ضیاء الحق ہماری باتیں مانتے تو دس سال کہاں گزار سکتے تھے!
شامی صاحب بلا کے حاضر جواب ہیں۔ تحریر کے ساتھ تقریر کا بھی بے پناہ ملکہ رکھتے ہیں۔ ان کی ادارت میں ستر کی دہائی والا ہفت روزہ ''زندگی‘‘ کسی بھی بڑے معیاری جریدے کا مقابلہ کر سکتا تھا۔ اس کالم نگار کو کچھ عرصہ ''زندگی‘‘ میں لکھنے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔ شہرت‘ سنیارٹی اور بزرگی کے باوجود‘ ہم ایسے بے بضاعتوں سے بھی اس درجہ شفقت اور محبت سے پیش آتے ہیں کہ گھائل کر دیتے ہیں(انگریز ایسے مواقع پر کہا کرتے ہیںKilling with kindness)تاہم ریکارڈ سیدھا رہنا چاہیے۔ ضیاء الحق کے عہد کی تاریخ میں اس طاقت ور مثلث کا ذکر اور اس کی بادشاہ گری کا تذکرہ کوئی معیوب بات نہیں بلکہ ضروری ہے!
الطاف صاحب اور شامی صاحب میں ایک واضح فرق ہے۔ شامی صاحب نے بہادری سے اعتراف کر لیا کہ کچھ معاملات میں ان کی رائے صائب نہیں تھی‘ جیسے بھٹو صاحب کی پھانسی کا مسئلہ‘ مشرقی پاکستان میں ملٹری ایکشن‘ صوبائی خود مختاری کے حوالے سے شیخ مجیب الرحمن کا نقطہ نظر! بے نظیر بھٹو کے بارے میں بھی انہوں نے اپنی رائے پر نظر ثانی کی۔ ایک مقام پر انٹرویو کے دوران کہتے ہیں:''آج میرے لیے مقابلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ بے نظیر کو میں ترجیح دوں یا نواز شریف کو میں ترجیح دوں‘‘۔
کیا عجب‘ جناب الطاف حسن قریشی بھی کسی دن اپنی کچھ آرا سے رجو کر لیں!!