اُن دنوں اسلام آباد کے محلّے آئی ایٹ میں قیام تھا۔ غالباً یہ دارالحکومت کا واحد سیکٹر ہے جس کا ایک کنارہ دو وسیع سیرگاہوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ایک کچنار پارک چونکہ بڑی شاہراہ سے نظر آتا ہے، اس لیے ترقیاتی ادارے کے شاطر سربراہوں نے اس پر زیادہ توجہ دی، مگر صبح یا شام کی سیر کے لیے لوگ زیادہ ترجیح اُس دوسری سیرگاہ کو دیتے تھے جو محلّے کے شمالی کنارے پر، فیڈرل ایجوکیشن بورڈ کے عین سامنے واقع تھا۔اب ان دونوں سیرگاہوں کے دھڑ،کندھے اور بازو کاٹ کر بہت بڑا انٹرچینج تعمیرکیا گیا ہے۔ یوں سیرگاہیں لنڈوری ہو گئی ہیں!
کوشش ہوتی تھی کہ شام کو باقاعدگی سے نہیں تو کم از کم نیم باقاعدگی سے سیر ہوتی رہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود بھی یہیں سیرکرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب ہمیشہ شفقت سے پیش آتے رہے اور بغیر جتائے، بلکہ بغیر بتائے، احسانات بھی کرتے رہے۔ ایک دو بار ان کا ہم قدم ہوکر ٹریک کے دو تین چکر لگائے تاکہ گفتگو کا شرف حاصل ہو۔ وہ تو ہوا مگر ڈاکٹر صاحب بہت تیز چلتے تھے۔ اس میں غالباً ان کی طویل قامتی کا قصور بھی تھا۔ تیسرے چکر میں میرا سانس بُری طرح پھول چکا ہوتا تھا۔
یہیں افسر شاہی کے ریٹائرڈ مظاہر بھی اکثر و بیشتر چلتے پھرتے نظر آتے۔ آنکھوں میں گزری بادشاہت کے بجھے ہوئے افسانے! چال میں دم توڑتی تمکنت! عوام سے وہی کنارہ کشی اور بیزاری، کبھی کبھی یہ حضرات کسی بنچ پر بیٹھے باہم محو گفتگو ہوتے ؎
آ عندلیب ! مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گُل پکار، میں چلاؤں ہائے دل
سیرگاہ اور مسجد میں باقاعدگی سے آنے والوں کا باہمی تعلق عجیب سا ہوتا ہے۔ بسا اوقات نام تک نہیں معلوم ہوتا مگر شناسائی اچھی خاصی ہو چکی ہوتی ہے۔ ایک صاحب پارک میں انتہائی باقاعدگی سے آتے تھے۔ مُعنّک، چال جیسے کڑی کمان کا تیر! ہاتھ اٹھا کر ہم ایک دوسرے کو سلام کرتے۔ یوں لگتا تھا یہ صاحب سیر عبادت سمجھ کر یا فرض جان کر کر رہے ہیں! ایک دن اتفاق سے اسلام آباد کلب میں ملاقات ہوگئی۔ معلوم ہوا یہ سلیم ہیں اور سول سروس میں ہیں! متین، ادب آداب سے بھرے ہوئے۔
پھر سلیم اخبارات میں وزرا کے ساتھ بیٹھے نظر آنے لگے۔ معلوم ہوا پرنسپل انفارمیشن افسر ہو گئے ہیں! چند روز پہلے ان کی طرف سے ایک بھاری بھرکم پیکٹ موصول ہوا۔ کھولا تو ''ماہِ نو‘‘ کا مُجلّد ضخیم احمد ندیم قاسمی نمبرتھا! اب وہ اُس سرکاری ادارے کے مدارالمہام ہیں جو نشر و اشاعت کا ذمہ دار ہے۔ طباعت اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کے حوالے سے۔
قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد آغاز ہونے والا ماہنامہ ''ماہِ نو‘‘ کئی ادوار سے گزرا مگر اصل بات یہ ہے کہ اب تک حیات ہے۔ اِس لکھنے والے کا سِن اُس وقت کچا تھا جب والد گرامی مرحوم کی لائبریری میں ماہِ نو کی ایک ضخیم فائل دیکھنے میں آیا کرتی تھی۔ یہ طفلی کا عہد تھا جس میں سمجھ آنے والی اور نہ سمجھ آنے والی ہر شے پڑھ جایا کرتے تھے۔ اکثر پرچوں پر بطور مدیر رفیق خاور کا نام اب تک یاد ہے۔ یہ تو بہت بعد میں معلوم ہوا کہ رفیق خاور تصنیف و تالیف کے میدان میں جِن سے کم نہ تھے۔ شاعر اور محقق، جواں مرگ ڈاکٹر رؤوف امیر نے پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ انہی پر لکھا تھا۔ اس ضمن میں انہوں نے کراچی کے کئی سفر کیے اور رفیق خاور کے پس ماند گان سے متعدد ملاقاتیں کیں۔ رؤوف امیر مرحوم بتاتے تھے کہ رفیق خاور نے اپنی ملازمہ سے شادی کی جو ناخواندہ تھی۔ پھر اسے الف بے پڑھانا شروع کیا اور انگریزی زبان و ادب میں ایم اے تک لے کر گئے۔ ترجمہ میں ان کا بہت کام ہے مگر اصل معرکہ جو انہوں نے سر کیا ان کی تصنیف اردو زبان میں تھیسارس (معجم) ہے۔ غالباً مقتدرہ قومی زبان نے اسے چھاپا ہے۔ سنا ہے کہ آخری دنوں میں ان کا ذہنی توازن درست نہیں رہا تھا۔
مگر ماہِ نو کا سنہری دور وہ تھا جب کشور آپا (کشور ناہید) اس کی ایڈیٹر رہیں! یہ اسی کی دہائی کا وسط اور اواخر تھے۔ ملک کے ادبی جرائد میں ماہِ نو سِرفہرست تھا۔کیا مندرجات ہوتے تھے! تنقید، کہانی، شاعری، آرٹ، ثقافت۔۔۔ ہر حصہ ممتاز، عمدہ اور عالی قدر ہوتا۔ کشور آپا کافون آتا۔۔۔ فون کم اور ڈانٹ زیادہ: ''ماہِ نو کے لیے کچھ بھیجو‘‘۔ یا ''فارسی نظموں کے تراجم کرو‘‘۔ یہ ڈانٹ ہی کا اثر تھا کہ اُن دنوں جم کر کام کیا۔ فروغ فرخ زاد اور نادر نادرپور کی کئی نظموں کے ترجمے کیے جو ماہِ نو میں چھپے۔ پھر کشور آپا نے ایک پہاڑ جتنا کام کر ڈالا۔ چالیس سالوں پر پھیلے ہوئے ماہِ نو کے پرچوں کا انتخاب کیا اور دو جلدوں میں چھاپا۔ یہ انتخاب تقریباً اٹھارہ سو صفحات پر مشتمل ہے اور ایک اعتبار سے مبسوط ادبی تاریخ ہے، یہاں تک کہ ہم جیسوں کے عکس ہائے تحریر بھی شامل ہیں!
سلیم نے اب ماہِ نو کا احمد ندیم قاسمی نمبر جو چھاپا ہے تو سچی بات ہے کہ بڑا کام کیا ہے۔ ویسے اگر کسی نامور ادیب کو اس پرچے کا ''مہمان مدیر‘‘ بناتے تو پرچہ وقیع تر ہوتا مگر جس لحاظ سے احمد ندیم قاسمی کو غیر مرئی طور پر، چپکے چپکے، بلیک آؤٹ کیا جا رہا ہے، اُس لحاظ سے یہ نمبر بروقت آیا ہے۔ طباعت گراں بہا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی سے لے کر غلام محمد قاصر مرحوم تک بہت سوں کی تحریریں شامل ہیں؛ تاہم بہترین حصہ وہی ہے جس میں قاسمی صاحب کے مضامین، افسانوں، کالموں اور شاعری کا انتخاب ہے!
سلیم نے دو تین کام اور بھی کیے ہیں جن کا ذکر ضروری ہے۔ ایک تو اس نے قائداعظم کی 11اگست 1947ء والی تقریر، مع اُردو ترجمہ، دیدہ زیب کتا بچے کی صورت چھاپی ہے۔ اِن عجیب و غریب وقتوں میں، جب اس تقریر کو جعلی تک کہا جا رہا ہے، اس کی اشاعت سلیم کی بہادری پر بھی دال ہے۔ یہی وہ تقریر ہے جس میں بابائے قوم نے کہا تھا: ''اب آپ آزاد ہیں! اس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں۔ اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ آپ کا کسی مذہب، ذات پات یا عقیدہ سے تعلق ہو، کاروبارِ مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں‘‘۔
''الیکٹرانک میڈیا اینڈ پبلی کیشن‘‘ کے سرکاری ادارے نے ''پاکستان: بنیادی حقائق‘‘ اور ''پاکستان کی دلکش جھیلیں‘‘ کے عنوان سے دو خوبصورت کتابچے بھی شائع کیے ہیں جو غیر ملکیوں کے لیے کسی بھی پاکستانی کی طرف سے بہترین تحفہ کا کام دے سکتے ہیں۔ ادارے کو چاہیے کہ یہ کتابچے پاکستانی سفارت خانوں کو بھیجے تاکہ یہ دوسرے ملکوں کے کالجوں، یونیورسٹیوں، ذرائع ابلاغ اور لائبریریوں تک پہنچیں۔ ہاں! اگر ان کتابچوں کے ساتھ وہی سلوک ہونا ہے جو قرآن پاک کے نسخوں کے ساتھ روم کے پاکستانی سفارت خانے نے کیا تھا تو پھر سفارت خانوں کو ہرگز نہ بھیجیں!
روم کے سفارت خانے کا قصّہ یوں ہے کہ 1980-81ء کا عرصہ اٹلی میں قیام رہا۔ روم کے پاکستانی سفارت خانے میں دیکھا کہ کلامِ پاک کے کئی نسخے پڑے ہیں۔ کئی سو کی تعداد میں ہوں گے۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ اسلام آباد سے وزارت مذہبی امور نے بھجوائے ہیں تاکہ تقسیم کیے جائیں۔ روم سے میں نیپلز (ناپولی) چلا گیا جہاں قیام تھا! ایک دن ایک مصری کلاس فیلو نے جس کا معوّذ نام تھا، بتایا کہ اسے قرآن پاک کا ایک نسخہ درکار ہے۔ اسے کہا کہ میرے پاس تو ایک ہی ہے جو میں گھر سے ساتھ لایا ہوں مگر ہمارے سفارت خانے میں نسخے پڑے ہیں۔ چند دن انتظار کرے، وہاں سے منگوائے دیتا ہوں! سفارت خانے کو خط لکھا۔کئی ہفتے انتظار کے بعد ٹیلی فون پر یاد دہانی کرائی، التماس کی۔ ہمارا قیام آخرکار ختم ہوا مگر معوّذ کو نسخہ ملا نہ ہی خط کا جواب آیا!
سرکار نے احمد ندیم قاسمی کو جو خراجِ تحسین پیش کیا ہے، لائقِ تحسین ہے۔ اب دلدادگانِ ادب کا یہ دیرینہ مطالبہ بھی پورا کیا جائے کہ دارالحکومت کی ایک شاہراہ کا نام ''خیابانِ احمد ندیم قاسمی‘‘ ہو!