بچُھو نے دریا پار کرنا تھا۔ کوئی صورت نظر ہی نہیں آرہی تھی۔ بالآخر کچھوے کا دل پسیجا۔ اس نے کہا میری پیٹھ پر بیٹھ جائو، میں دوسرے کنارے جا رہا ہوں، پہنچا دوںگا۔ بچھو پیٹھ پر بیٹھ گیا۔ دریا کے عین وسط میں پہنچے تو زہر بھرا ڈنک کچھوے کی پیٹھ پر مارا۔ کچھوا بلبلا اٹھا: ''یہ کیا کر رہے ہو۔ بھئی، کیا یہ میرے احسان کا بدلہ ہے؟‘‘ بچھو نے جواب دیا: ''کیا کروں عادت سے مجبور ہوں‘‘۔
یہ ایک مشہور حکایت ہے۔ اسی سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ ؎
نیشِ عقرب نہ از رہِ کین است
مقتضائی طبیعتش این است
بچھو دشمنی کی وجہ سے ڈنک نہیں مارتا، یہ اس کی طبیعت، اس کے مزاج، اس کی طینت کا تقاضا ہے۔
ہم نے افغانوں کو مشکل وقت میں پیٹھ پرسوار کیا۔ مہاجر تھے، آج مالک ہیں۔ لبرٹی لاہور سے لے کر بارہ کہو تک، ترنول سے لے کر چکوال تک، اٹک سے لے کر کراچی تک، ہر جگہ دندناتے پھر رہے ہیں۔ یہ دنیا میں اپنی قسم کے انوکھے مہاجر ہیں۔ کہاں کی ہجرت! وہ تو مقامی لوگوں کے، انصار کے گلے پکڑ رہے ہیں۔ جائدادیں، کاروبار، اعلیٰ تعلیم، جعلی شناختی کارڈ بہت کچھ ہتھیا لیا۔ واپس جانے کا نام نہیں لے رہے۔ کچھ کہیں تو غراتے ہیں۔ جان بچانی مشکل ہو جاتی ہے!
طورخم بارڈر پر افغان دو دن سے حملے کر رہے ہیں اس لیے کہ پاکستان نے اب مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ کھُلے مادر پدر آزاد بارڈرکو قانون کے دائرے میں لا کر رہے گا۔ یہ یکم جون سے ہوا۔ بارڈر پر سختی سے جانچ پڑتال ہونے لگی، یہاں تک کہ تین چار سو افغان طالب علم جو ہر روز پاکستان کے سکولوں کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں، ان کے لیے بھی پاسپورٹ لازم قرار دیے گئے۔ افغانوں کو یہ پابندیاں راس نہیں آ رہیں۔ ان کا مفاد اس میں ہے کہ بارڈر پہلے کی طرح کھلے رہیں۔ افغانستان سے دہشت گرد بھی آئیں اور منشیات بھی! پاکستان سے آکسیجن بھی جائے اور پانی بھی۔ پکی ہوئی روٹیاں بھی اور ادویات بھی۔ گھی،گندم، چینی، مصالحے، سیمنٹ، سریا، اینٹیں، کپڑا، جوتے، غرض ہر وہ شئے جو روئے زمین پر کسی سانس لیتے آدم کے بیٹے کو ضرورت پڑتی ہے، پاکستان سے افغانستان سمگل ہوتی رہے! یہ ہے وجہ افغانوں کے ازخود رفتہ ہونے کی! ہوش و خرد کو انہوں نے بالائے طاق رکھا اور اپنے محسن پاکستان پر چڑھ دوڑے۔
پاکستان کے لیے یہ ''اب یا کبھی نہیں‘‘ والا معاملہ ہے۔۔۔۔ Now or Never۔ لازم ہے کہ پاکستان بارڈر مستحکم ہونے کے پروگرام پر ثابت قدم رہے، ایک قدم پیچھے نہ ہٹے۔ افغان فوج کی اشتعال انگیز کارروائیوں کا دندان شکن جواب دے اور سخت جانچ پڑتال کا سلسلہ جاری رکھے۔ بجا کہ چالیس سے زیادہ مقامات ہیں جن سے آمدورفت، سرحد پار تک ہو سکتی ہے، سب کو مکمل بلاک کرنے کے لیے وقت درکار ہے اور وسائل بھی۔ مگر جو بڑے بڑے معروف مقامات ہیں، جیسے طورخم اور چمن، ان کا بندوبست کرنے سے بہت فرق پڑے گا۔ بغیر دستاویزات آنے جانے والوں کی تعداد بہت حد تک کم ہو جائے گی! اس کے بعد باقی چور دروازوں کو بھی، وقت کے ساتھ ساتھ مسدود کیا جا سکتا ہے!
ایک مغربی مورخ نے کیا خوب تشبیہ دی ہے کہ مار دھاڑ، قتل و غارت، نسلوں تک بھڑکتی انتقام کی آگ، یہ سب کچھ افغانوں کے لیے تفریح ہے، جیسے انگریزوں کے لیے کاؤنٹی کرکٹ کی تفریح! شاہ شجاع کے امراء میں سے ایک نے اپنے ساٹھ رشتہ داروں کو طعام کی دعوت دی۔ بلڈنگ کے نیچے بارود کی بوریاں رکھوا دیں۔ کھانے کے دوران کسی بہانے باہر نکلا اور مہمانوں کے پرخچے اڑ گئے! پوری تاریخ افغانستان کی اٹھا کر دیکھ لیجیے، یہ کابل کے پانی کی تاثیر تھی کہ ہمایوں کے بھائی اُس کی پیٹھ میں بار بار چھرا گھونپتے رہے۔ افغانستان (جس کا اُس وقت یہ نام نہیں تھا) تینوں بڑی سلطنتوں کو جُل دیتا رہا، ڈاج کرتا رہا، تینوں سے فائدہ اٹھاتا رہا۔ مغرب میں ایرانیوں سے، مشرق میں مغل سلطنت سے، شمال میں ازبکوں سے۔ کبھی ایک کے ساتھ، کبھی دوسرے کے ساتھ۔ یہ راتب لے کر حمایت کرنے کی ریت برطانوی عہد سے نہیں، بہت پہلے سے چلی آرہی ہے!
افغانوں کا بنیادی مسئلہ کیا ہے؟ یہ ایک اہم نکتہ ہے جسے سمجھنا ہماری بقا کے لیے ضروری ہے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان پیٹ بھرنے، سر چھپانے اور تن ڈھانپنے کے لیے ہمیشہ برصغیر کا محتاج رہا! ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ صنعت و حرفت کا گزر وہاں بھولے سے بھی نہیں ہوا۔ کیا کسی بازار میں، دنیا کی کسی مارکیٹ میں کوئی شے ایسی ملتی ہے جس پر میڈ اِن افغانستان لکھا ہو؟ ساختہ افغانستان درج ہو؟ کوئی کپڑا، کوئی جوراب، کوئی جوتا، گھی کا کوئی ڈبہ، نمک کا کوئی پیکٹ، سیمنٹ کا کوئی بیگ! لے دے کے قالین بافی تھی، اس میں ترکمانستان اور ایران اُس سے کہیں آگے ہیں! باقی صرف انگور، سردا اور بادام رہ جاتے ہیں! اس سے گنجی نہائے کیا اور نچوڑے کیا!
صدیوں سے افغان پیٹ بھرنے، سرچھپانے اور تن ڈھانپنے کے لیے اُن علاقوں کے دست نگر رہے جو ان کے مشرق میں واقع ہیں۔ روٹی کی اور پیسے کی ضرورت پڑی تو کبھی پشاور کو تاراج کیا، کبھی پنجاب کو لوٹا، کبھی سندھ پر چڑھ دوڑے اورکبھی اس سے بھی آگے! وسطی پنجاب میں یہ محاورہ یوں ہی تو نہیں زبان زدِ خاص و عام تھا کہ ''کھادا پیتا لاہے دا تے باقی احمد شاہے دا‘‘، یعنی وہی تمہارا ہے جو کھاپی لوگے، باقی تو احمد شاہ (ابدالی) کی افواج ہڑپ کر جائیں گی یا لوٹ کر لے جائیں گے۔ مرہٹوں سے بچانے کی شمالی ہند سے افغانوں نے بھاری قیمت وصول کی اور خوب کی!
پھر یہ ہوا کہ زمانہ بدل گیا۔ تلواریں رہیں نہ گھوڑے، پاکستان میں ایک پیشہ ورانہ لحاظ سے ماہر فوج ہے! اب پیٹ بھرنے اور تن ڈھانپنے کے لیے افغان کیا کریں؟ اب ایک ہی راستہ ہے کہ بارڈر کھلا رہے۔ غدار پاکستانی سمگلنگ کرکے انہیں ہر وہ شئے پہنچاتے رہیں جو پاکستانی کارخانے بناتے ہیں اور پاکستانی کسان اگاتے ہیں! نیشنل ایکشن پلان کا ایک اہم جزو سرحدی استحکام بھی ہے۔ چنانچہ اب یکم جون سے پاکستان نے جب بارڈر کو منظم کیا اور قانون کے حصار میں لایا تو افغانستان نے ہماری فوج پر بلا اشتعال فائرنگ کر دی۔ اِس وقت جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں تو خبر آئی ہے کہ افغان فورسزکی فائرنگ سے زخمی ہونے والے میجر علی جواد شہید ہوگئے ہیں! اِنا للہ وانا الیہ راجعون! تصویر سے میجر شہید ہزارہ قبیلے کے سپوت لگتے ہیں!
ہمیں اب یہ قربانیاں دینی ہوںگی۔ اس قبیل کی ناپاک اور قابلِ مذمت جارحانہ حرکتوں سے افغانستان کا اصل مقصود یہ ہے کہ پاکستان سرحدی استحکام کا عمل روک دے۔ دہشت گرد افغانستان سے آتے رہیں اور افغان خفیہ ایجنسی (این ڈی ایس) اپنے گماشتوں کے ذریعے پاکستان میں تباہ کن بزدلانہ کارروائیاں کرتی رہے!
ہم میں سے کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان حالات کے بگاڑ کا سبب بھارت ہے! یہ وہی طرزِ فکر ہے جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی ساری ذمہ داری بھارت پر ڈالتا ہے! غلطیاں ہماری اپنی تھیں۔ کیا ''اِدھر ہم اُدھر تم‘‘کا نعرہ بھارت نے سکھایا تھا؟ نہیں! بھارت نے ہماری حماقتوں کا صرف فائدہ اٹھایا اور خوب اٹھایا۔ یہی صورتِ حال افغانستان کے ضمن میں ہمیں اب در پیش ہے! اگر ہمارے بارڈر کھُلے رہیں گے اور اگر نادرا کے غدار، وطن فروش، ملازم چند کھنکتے سکوںکی خاطر غیر ملکیوں کو دستاویزات جاری کرتے رہیںگے تو بھارت فائدہ اٹھاتا رہے گا! اور کیوں نہ اٹھائے؟ دشمن کا اورکام کیا ہے!
یہ 2004ء کی فروری کا ایک روشن دن تھا۔ یہ لکھنے والا حرمِ کعبہ کے وسیع صحن میں بیٹھا تھا۔ سامنے دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا، آنکھوں میں روشنی بھر رہا تھا۔ ساتھ سیاہ پگڑی باندھے ایک معمر افغان بیٹھا تھا! اُس سے بات چیت ہو رہی تھی! خوست کا تھا۔ اس نے بتایا کہ راولپنڈی راجہ بازار کے علاقے میں اس کی چار دکانیں ہیں۔ اس سے پوچھا کہ سامنے کعبہ ہے، سچ بتانا! کبھی افغانستان اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑی تو کس کا ساتھ دو گے؟ اُس ملک کا جہاں تم پیدا ہوئے؟ یا اُس ملک کا جو تمہاری پرورش کر رہا ہے؟ افغان نے بہر حال جھوٹ تو نہ بولا مگر وہ جواب بھی زبان پر نہ لایا جو اُس کے دل میں تھا! آئیں بائیں شائیں کرنے لگا۔ اس ایک واقعہ سے اُس قوم کی صدیوں سے چلی آتی نفسیات بخوبی سمجھی جا سکتی ہے!
ہمارا قومی مفاد اسی میں ہے کہ مہاجرین، جو مہمان بلائے جان بنے ہوئے ہیں، واپس بھیجے جائیں۔ بارڈر مستحکم ہو، دستاویزات کے بغیر کوئی آئے نہ جائے۔ افغانستان اور پاکستان دونوں کا فائدہ اس میں ہے کہ ایک دوسرے کے مفروروں کو پناہ دینے کا سلسلہ بھی بند کریں!