کیا آپ کو معلوم ہے سیرا لیون کہاں ہے؟ آئس لینڈ کہاں ہے اور فجی اور چلی کہاں واقع ہیں؟
سیرا لیون برِّ اعظم افریقہ کے مشرقی کنارے پر ہے۔ یہ پاکستان سے آٹھ ہزار چھ سو اسی کلو میٹر دور ہے۔
فجی کے جزائر جنوبی بحر الکاہل میں ہیں۔ پاکستان اور فجی کا درمیانی فاصلہ بارہ ہزار سات سو کلو میٹر ہے۔
آئس لینڈ یورپ کے انتہائی شمال میں قطب شمالی کے پڑوس میں آباد ہے جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے‘ یہ برف کا دیار ہے۔ پاکستان سے چلیں تو چھ ہزار نو سو کلو میٹر سفر طے کر کے آئس لینڈ پہنچیںگے۔
رہا چِلّی تو یہ جنوبی امریکہ کے مغربی کنارے پر ایک لمبا‘ عمودی‘ سلاخ نما ملک ہے۔ یہاں ہسپانوی زبان کا راج ہے۔ پاکستان سے چِلّی پہنچنے کے لیے آپ کو بہت زیادہ نہیں‘ صرف سولہ ہزار ساڑھے تین سو کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنا ہوگا۔
یہ ہماری خارجہ پالیسی کی زبردست کامیابی ہے کہ ان سارے ملکوں سے ہمارے تعلقات خوشگوار ہیں۔ آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ پاکستان کا چِلّی سے یا فجی سے یا آئس لینڈ سے یا سیرا لیون سے کوئی جھگڑا ہوا ہے۔ ہمارا ان ملکوں سے کوئی سرحدی تنازع ہے نہ اقتصادی تنازع۔ کوئی مذہبی ان بن ہے نہ نسلی حوالے سے کوئی باہمی بد مزدگی! وزیر خارجہ خود وزیر اعظم یا عملی طور پر ہم سب کے بزرگ سرتاج عزیز یا ہر دلعزیز شخصیت جناب فاطمی‘ جو کوئی بھی پالیسی بنا اور چلا رہا ہے‘ اُسے اس بات کا زبردست کریڈٹ جاتا ہے کہ ان تمام ممالک سے ہماری گاڑھی چھنتی ہے۔
اب اسے محض اتفاق جانیے کہ جو ممالک ہماری بغل میں ہیں۔۔۔۔ایران‘ افغانستان یا بھارت‘ ان سے تعلقات کشیدہ ہیں!
مت پوچھیے ہماری خارجہ پالیسی کی کرامات! ہم نے سعودی عرب کے اصرار کے باوجود یمن کے لیے اپنے عساکر نہیں بھیجے، مگر یہ قربانی ہم ایران کو بیچ نہ سکے۔ ایران پھر بھی کھنچا کھنچا ہے، تیوریاں چڑھائے ہے۔ جن دنوں یمن کا مسئلہ پیش منظر پر چھایا ہوا تھا‘ ہمارے وزیر اعظم ریاض سے ہو کر تہران گئے، مگر ایسا نہ ہوا کہ وزیر اعظم جو وزیر خارجہ بھی ہیں‘ اپنے ملک کے حوالے سے خصوصی طور پر وہاں جائیں، ایرانی لیڈروں سے دل کی بات کریں، ان کی سنیں‘ اپنی سنائیں‘ برف پگھلے اور تعلقات میں مثبت موڑ آئے۔ آپ ہماری خارجہ پالیسی کی ریکارڈ کامیابی کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ہمارے تینوں پڑوسی ایران‘ افغانستان اور بھارت ہمارے خلاف متحد ہیں! گوادر کے مقابلے میں چاہ بہار کی ہنڈیا پکا رہے ہیں۔ آگ جلا رہے ہیں، پھونکیں مار رہے ہیں اور چمچہ ہلا رہے ہیں! ہمارا ''صبرو تحمل‘‘ بلکہ بے نیازی‘ مکمل بے نیازی دیکھیے کہ ہمارا کوئی لیڈر، ہمارا حکومتی سربراہ یا وزارت خارجہ کی کوئی بڑی شخصیت‘ کسی پڑوسی دارالحکومت میں نہیں گئی۔ کوئی سفارتی سرگرمی دیکھنے میں نہ آئی۔ کسی ڈپلومیسی نے کوئی کرشمہ نہ دکھایا۔ ہماری ٹوکری سے کوئی سانپ نکلا نہ ٹوپی سے کوئی کبوتر۔
نیوکلیئر سپلائی گروپ سے کام پڑا تو ہمارے مشیرِ خارجہ نے وزرائے خارجہ کو ٹیلی فون کھڑکائے۔ کہیں گئے نہ کوئی وفد ہی بھیجا۔ ہم تو تمام مہمات‘ گھر میں بیٹھے بیٹھے ہی سر کرتے ہیں۔ دو اشخاص ایک کمرے میں بیٹھے تھے۔ ایک نے دوسرے سے کہا باہر جا کر دیکھو بارش تو نہیں ہو رہی‘ اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے جواب دیا ہو رہی ہے۔ پوچھا‘ کیسے معلوم ہوا‘ کہنے لگا‘ ابھی بلی میرے قریب سے گزری ہے، میں نے اسے ہاتھ لگایا تو وہ گیلی تھی۔ اب اس نے دوسرا کام بتایا کہ اُٹھ کر چراغ گل کر دو‘ کہنے لگا میرے اٹھنے کی ضرورت ہی نہیں‘ آنکھیں بند کر لو‘ اندھیرا ہو جائے گا۔ پھر اس نے تیسرا کام بتایا کہ اُٹھ کر کمرے کا دروازہ بند کر دو کہنے لگا ‘ دو کام میں نے کیے ہیں‘ اب یہ تیسرا تم خود کر لو!
اگست2015ء میں بھارتی پرائم منسٹر نے متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا۔ زبردست پذیرائی ہوئی، یہاں تک کہ دہشت گردی اور دفاع کے میدانوں میں بھی معاہدے ہوئے۔ مودی نے تقریروں میں پاکستان پر خوب خوب چوٹیں کیں۔ طعنے دیے کہ پاکستان دہشت گردی کا گڑھ ہے۔ بھارتی تارکین وطن سے خطاب کیا۔ انڈیا میں شادیانے بجے، بھارتی میڈیا نے بھنگڑے ڈالے۔
اس میں کیا شک ہے کہ یہ ایک بڑی کامیابی تھی مگر پاکستان کا ردِّ عمل کیا تھا؟ زمین جنبد نہ جنبد گل محمد۔ ہم ٹھہرے ملنگ! ملنگوں کو ان دنیاوی بکھیڑوں سے کیا غرض! ہمارے پاس تو بابا دھنکا جیسے پہنچے ہوئے بزرگ ہوتے ہیں۔ پیٹھ پر چھڑیاں رسید کرتے ہیں اور بگڑی سنور جاتی ہے۔ یہ بھی نہ کام آئے تو ایک مولانا موجود ہیں جو میاں صاحب کو اور زرداری صاحب کو ہر مشکل وقت میں مشکل کشا مشورے دیتے ہیں اور پھر کروڑوں اربوں کے فنڈ معاوضے میں وصول کرتے ہیں! بہر طور پاکستان نے ردِّ عمل میں کچھ بھی نہ کیا۔کوئی اور ملک ہوتا تو یو اے ای جیسے اہم ملک میں ایک کے بعد دوسرا وفد بھیجتا۔ سفارت کاری کے تمام حربے آزماتا اور بھارت نے جو کچھ حاصل کیا تھا اس میں شگاف ڈال کر رہتا!
جو کچھ افغانستان پاکستان کی سرحد پر ہو رہا ہے‘ اس کا کریڈٹ فوج کو جائے گا۔ اس میں وزارتِ خارجہ یا وزارت دفاع کا کوئی عمل دخل نہیں نظر آتا۔ وزیر خارجہ کئی ہفتوں سے ملک میں موجود نہیں۔ ذاتی مسائل میں گرفتار ہیں۔ رہے وزیر دفاع تو وہ ٹریکٹر ٹرالیاں بنانے میں مصروف ہیں۔ وزیر دفاع سے یاد آیا کہ جی ایچ کیو میں ہائی لیول اجلاس ہوا جس میں سینئر وزراء حاضر تھے۔ اس پر چہ میگوئیاں ہوئیں تو مشیر خارجہ نے وضاحتی بیان دیا کہ یہ اجلاس ان کے مشورے سے منعقد ہوا تھا۔ لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیتے کہ اگر مشورہ انہی کا تھا تو اجلاس وزارت خارجہ میں یا وزیر اعظم کے دفتر میں کیوں نہ منعقد ہوا؟
ساری کمزوریوں اور غلط کاریوں کے باوجود افغانوں کی ایک صفت تاریخ سے ثابت ہے۔ سفارت کاری میں وہ سعودیوں کی طرح منجھے ہوئے ہیں۔ وہ ڈیڑھ دو سو سال دنیا کی دو عظیم جارح سلطنتوں کے درمیان رہے اور اپنی آزادی بچائے رکھی۔ پہلے زار پھر سوویت یونین، دوسری طرف برطانوی ہند۔ یہ چکّی کے دو پاٹ تھے مگر افغان ان کے درمیان پسے نہیں، سلامت رہے۔ انہوں نے Survive کیا۔ اب وہ بارڈرکو مستحکم نہیں کرنے دے رہے۔ ظاہر ہے کہ ہزاروں افغان ہر روز یہ سرحد پار کرتے ہیں! یہاں تک کہ تین چار سو افغان طلبہ ہر روز پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے آتے ہیں۔ سوئی سے لے کر گوشت تک‘ روز مرہ استعمال کی ہر شے یہاں سے سمگل ہوتی ہے۔ بظاہر موقف یہ ہے کہ ڈیورنڈ لائن کو وہ نہیں تسلیم کرتے۔ یہ مسئلہ ان سے صرف اور صرف سفارت کاری سے اور صرف سفارت کاری سے نہیں‘ اعلیٰ ترین سفارت کاری سے طے ہوگا۔ انہیں باورکرانا ہوگا کہ ہمیں ورثے میں جو سرحد ملی ہے وہی ہماری سرحد ہے۔ نہیں منظور تو ملکہ برطانیہ کے پاس جائیں!
سفارت کاری؟ اور اعلیٰ پائے کی سفارت کاری؟ ہماری ''بلند پایہ‘‘ سفارت کاری کا حالیہ نمونہ جو وزارتِ خارجہ کے ارباب بست و کشاد نے دکھایا ہے‘ اس پر خندہ کیا جا سکتا ہے یا گریہ کیا جا سکتا ہے کہ''ہمارے پاس تو پھر نیوکلیئر آپشن ہی رہ جاتا ہے‘‘۔ اس کے ساتھ ہی طعنہ دیا گیا کہ ''افغانستان کے نئے دوست ایران اور بھارت مہاجرین کو لے جائیں‘‘۔ وہ تو غنیمت ہے کہ کوسنے نہیں دیے۔ اندرون لاہور کی عورتیں صبح ناشتہ کر کے پڑوسنوں کو آواز دیتی تھیں کہ آئو‘ لڑائی کریں! ہماری سفارت کاری کے زریں جملے سن کر سوکنوں کے طعنے یاد آتے ہیں!
ہمارے مسائل کا ایک ہی حل ہے کہ ایک دن صبح اٹھیں تو پاکستان کا محلِّ وقوع تبدیل ہو چکا ہو۔ کسی سمندر کے عین درمیان ہمارا ملک ایک جزیرہ بن کر سنہری دھوپ میں جگمگا رہا ہو۔ سینکڑوں ہزاروں میل تک کوئی اور ملک نہ ہو۔ کوئی دہشت گرد آ سکے نہ کسی کے ساتھ بارڈر ہو نہ کوئی سرحدی جھگڑا! نہ کسی وزیر خارجہ کی ضرورت! موجودہ محلِّ وقوع کے ساتھ تو جو تیر ہم مار رہے ہیں وہ پوری دنیا دیکھ رہی ہے اور عش عش کر رہی ہے! سراج الدین ظفر یاد آ گئے ؎
میں نے کہا کہ ہم سے زمانہ ہے سرگراں
اس نے کہا کہ اور اسے سرگراں کرو