اقصیٰ کی قسمت اچھی تھی کہ وہ بچ گئی۔
بال بال بچ جانے والے محاورے کا مطلب کسی نے سمجھنا ہو تو اقصیٰ کی قسمت پر غور کرے۔ قسمت اچھی تھی‘ وہ بچ نکلی‘ ورنہ اس کا انجام مری کی ماریہ والا ہوتا یا لاہور کی زینت والا ہوتا۔ آہ! ماریہ اور زینت!۔ جن کی قسمت، قسمت نہیں تھی۔ کسمت تھی۔ کُتے والے کاف کے ساتھ! دونوں کو زندہ جلا دیا گیا!
دعائیں دے اقصیٰ، پاکستان میں واقع برطانوی سفارت خانے کو، جس نے کوئی کمیشن بنایا۔ نہ پولیس کی کسی ''اعلیٰ سطحی ٹیم‘‘ کو تحقیقات کے لیے مقرر کیا۔ برطانوی سفارت خانے نے وہی کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا۔ اس نے اقصیٰ کو برطانیہ روانہ کر دیا اور فوراً روانہ کر دیا!
برطانیہ کے سفارت خانے کا یہی رویہ ہے، مائینڈ سیٹ ہے، چُستی اور پھرتی ہے، جس کی وجہ سے اس نے کرۂ ارض پر حکومت کی! جس کی وجہ سے اب بھی لندن ہجرت کرنے والوں کے لیے مقبول ترین ٹھکانہ ہے! جس کی وجہ سے لندن، ایڈنبرا، کارڈف اور برمنگھم آج بھی خم ٹھونک کر نیویارک، ٹورنٹو اور سڈنی کے سامنے کھڑے ہیں! ہنسی کی بات یہ ہے کہ یورپی یونین سے نکلنے پر کچھ حضرات پھر بتیسی نکال رہے ہیں کہ انگریز کا زوال آگیا۔ برطانیہ ختم ہو گیا۔ ستر سال پہلے جب نوآبادیاں آزاد ہونا شروع ہوئیں تب بھی بھنگڑے ڈالے گئے۔ برطانیہ کو کچھ نہیں ہؤا، اب بھی کچھ نہیں ہو گا۔ جس ملک میں نو بجے کا مطلب نو بجے ہو، جس ملک میں دکاندار، ڈاکو نہ ہو، دکاندار ہو، جس ملک میں (بقول چرچل) عدالتیں آزادانہ کام کررہی ہوں، جس ملک میں وزیراعظم، بیوی کے لیے سیکنڈ ہینڈ کار خریدنے خود آئے اور خریدنے کے بعد کھڑکی کے سامنے کھڑا ہو کر ٹیکس خود ادا کرے اس ملک کو نو آبادیوں کی آزادی نقصان پہنچا سکتی ہے نہ یورپی یونین سے اخراج! گِدھ کی دُعا سے بندے نہیں مرتے! یوں بھی ہماری دعاؤں سے آج تک تو کسی کی توپوں میں کیڑے پڑے نہیں! آپ کو معلوم ہی ہو گا جس کی دور کی نظر بہت زیادہ کمزور ہو، ڈاکٹر اُسے میوپیا (MYOPIA) کا نام دیتے ہیں۔ میوپیا کا حال یہ ہے کہ افغانستان کھنڈر سے زیادہ کچھ نہیں رہا مگر شادیانے بج رہے ہیں کہ امریکہ کو شکست ہو گئی! شفیق الرحمن نے ایک لڑکے کا حال لکھا ہے جو کسی سے خوب مار کھا کر گھر آیا اور چھاتی تان کر بتانے لگا کہ پہلے میں نے اپنی پیٹھ اس کے مُکے پر زور سے ماری اور پھر اپنا گال اُس کے چانٹے پر اس طرح رسید کیا کہ اسے نانی یاد آ گئی! اور ہاں! سوویت یونین کے انہدام کا سہرا بھی تو ہمارے سر ہے! اس سے کیا فرق پڑتا ہے اگر تاریخ کا یہ سر بستہ ''راز‘‘ پوری دنیا میں صرف ہمارے پاس ہے!
اقصیٰ بچ گئی۔ برطانوی سفارت خانے نے وہی کچھ کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا۔ اقصیٰ برطانوی شہری تھی۔ تاریخ نے ایک معیار یہ بھی قائم کر رکھا ہے کہ جو ممالک اپنے ایک شہری کو بھی بے یارومددگار نہ چھوڑیں وہی دنیا میں سر اُٹھا کر چلتے ہیں۔ جو اپنے اجمل کانسی کو پلیٹ میں رکھ کر دوسروں کو پیش کریں ان کے بارے میں دنیا وہی کچھ کہتی ہے جو پاکستان کے بارے میں اس موقع پر ایک امریکی پراسیکیوٹر نے کہا تھا کہ پاکستانی اپنی ماں کو بھی ایک ڈالر کے عوض فروخت کردیں اس پر احتجاج ہوا۔ اُس زمانے میں تھامس سائمن اسلام آباد میں امریکی سفیر تھے‘ اسے وزارتِ خارجہ میں طلب کیا گیا۔ واشنگٹن کے پاکستانی مشن نے بھی احتجاج کیا۔ مگر احتجاج تو اُس ''مہذب‘‘ دبلے پتلے شخص نے بھی کیا تھا جسے ایک تنومند چوڑے چکلے مشٹنڈے نے ماں کی گالی دی تھی! اُس نے کہا تھا۔ ''حضور! اگر آپ ہماری اماں جان کی شان میں گستاخی کریں گے تو ہم بھی آپ کے تایا حضور کے بارے میں نازیبا الفاظ منہ سے نکال سکتے ہیں‘‘
اقصیٰ بچ نکلی۔ برطانیہ میں رہنے والی خاتون نے اپنی بیٹی اقصیٰ کو خوش خبری دی کہ ہم پاکستان جا رہے ہیں! یہاں پہنچ کر خاتون نے بیٹی کے ساتھ وہی کچھ کیا جو سکھ کے بقول لدھیانہ میں ہوتا ہے۔ لڑکی کا پاسپورٹ اور ہوائی جہاز کا ٹکٹ ''قبضے‘‘ میں لے لیا گیا اور اس کی شادی زبردستی اُس لڑکے کے ساتھ کر دی گئی جو اقصیٰ کی ماں کا بھانجا بھتیجا تھا! اقصیٰ احتجاج کرتی یا بھاگتی تو اس کا وہی انجام ہوتا جو لاہور کی زینت یا مری کی ماریہ کا ہؤا تھا۔ مگر اس کی قسمت اچھی تھی۔ اس کا چچا آ گیا۔ اقصیٰ کو امید کی کرن نظر آئی۔ اس نے چچا کو صورت حال بتائی۔ چچا بھتیجی عدالت پہنچ گئے۔ سیشن جج صاحب نے زبردستی مسلط کیے جانے والے ''شوہر‘‘ اور اس کے والد وغیرہ کے گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے۔ لڑکی کو پاسپورٹ اور دستاویزات واگذار کرائیں۔ لڑکی کو لیڈی پولیس کی وساطت سے برطانوی سفارت خانے میں بھیج دیا۔ برطانوی سفارت خانے نے وہی کچھ کیا جو ایک باعزت ملک کرتا ہے۔ اقصیٰ اب برطانیہ میں ہے!
اب تازہ ترین ثبوت اس بات کا بھی ملاحظہ فرما لیجیے کہ برطانیہ کے مقابلے میں ہم اپنی خواتین شہریوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں۔ مری کی ماریہ نے بسترِ مرگ پر بیان دیا کہ وہ اور اس کی معذور بہن گھر میں تھیں جب فلاں فلاں اشخاص اُن کے گھر میں گھسے اور اس پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی۔ اسی فیصد جھلس جانے پر اُسے دارالحکومت کے ایک بڑے ہسپتال میں لایا گیا۔ بیان دینے کے کچھ دیر بعد اس نے دنیا کو خیرباد کہہ دیا۔بسترِ مرگ پر دیے گئے بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے؟ اس پر روشنی تو کوئی ماہرِ قانون ہی ڈال سکتا ہے۔ مگر موت سامنے کھڑی ہو تو جھوٹ کون بولے گا؟
پھر وہی ہؤا جو سکھ کے بقول لدھیانہ میں ہوا کرتا ہے۔ بات وزیراعلیٰ تک پہنچی۔ پولیس کی اعلیٰ سطحی ٹیم بنائی گئی۔ یعنی اعلیٰ بھی اورسطحی بھی! مگر آہ! اس اعلیٰ اور سطحی ٹیم کو کوئی ایسی شہادت ہی نہیں ملی جس سے بسترِ مرگ پر دیے گئے مقتولہ کے بیان کی تصدیق ہوتی! ٹیم ''اِس نتیجے پر پہنچی کہ اسے خودکشی کا واقعہ قرار دیا جا سکتا ہے‘‘۔ مقتولہ کے والد کا اصرار ہے کہ آگ لگانے والے آئے تو ان کی ذہنی معذور رشتہ دار موجود تھی جواب بار بار کہتی ہے کہ باہر نہ جاؤ۔ وہ تمہیں جلا دیں گے۔
یہ سب ظلم تو عورتوں پر ہو رہے ہیں۔ مگر زخموں پر نمک اُس وقت چھڑکا جاتا ہے جب بنیادی انسانی حقوق کے ان سیدھے سادے معاملات میں مذہب کو فریق بنا لیا جاتا ہے۔ پھر مولوی کو درمیان میں لایا جاتا ہے۔ پھر اسے مولوی اور لبرل کی جنگ بنا دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اتنے کھلم کھلا ظلم کی طرف داری کوئی مولوی کر سکتا ہے نہ لبرل! یہاں تو چشمِ فلک نے یہ بھی دیکھا کہ پانچ نمازیں پڑھنے والے عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور لبرل جائداد میں بیٹی کو حصہ دینے سے انکار کرتا ہے!
رونا تو اُس منافقت کا ہے جو برطانیہ اور امریکہ بیٹھے ہوئے پاکستانی خاندان کر رہے ہیں۔ خود جوانی لندن یا ٹورنٹو یا شکاگو میں گزاری۔ وہاں کی زندگی سے لطف اندوز ہوئے۔ سالہا سال خیال ہی نہ آیا کہ بچوں کو اکثر و بیشتر وطن کا پھیرا لگواتے رہیں تا کہ ثقافتی خلیج چوڑی نہ ہوتی جائے۔ پھر جب بیٹی جوان ہوئی تو پاکستانیت، مذہب، غیرت، سب بیک وقت آن پہنچے۔ اب بیٹی کو دھمکیاں دینی شروع کر دیں۔ اب وطن یاد گیا اور یہ بھی یاد آ گیا کہ اوہو! ایک شے مذہب بھی تھی ؛چنانچہ اسے کونے کھدرے سے نکالا، جھاڑا اور بیٹی کے سر پر رکھ دیا!
کیا وہ شخص عقل کا اندھا نہیں جو اپنے بیٹے کی شادی اُس لڑکی سے کرتا ہے جو ولایت میں پلی بڑھی، پاکستان رہنا چاہتی ہے نہ اُس کے بیٹے سے شادی کرنا چاہتی ہے! کیا وہ اتنا بھی سوچنے سے عاری ہے کہ زبردستی لائی گئی دلہن، اُس کے بیٹے کو خوش نہیں رکھ سکے گی؟ اس کے بیٹے کی زندگی عذاب بن کر رہ جائے گی! اور اُس ماں کا کیا ہی کہنا جس کی آنکھوں پر بھائی اور بھتیجے کی محبت چربی بن کر چڑھ گئی اور اپنی جنم دی ہوئی بیٹی کے حق میں اس کا خون سفید ہو گیا۔ اور اب زندگی بھر کی جدائی اس کا مقدر بن گئی ہے!
عرصہ ہوااس کالم نگار نے تارکینِ وطن کی خدمت میں درخواست کی تھی کہ خدا کے لیے وطن سے دامادوں کی امپورٹ بند کیجیے۔ لندن یا پیرس پلی بڑھی لڑکی کے لیے میرپور یا پھالیہ سے ایک لڑکا درآمد کیا جاتا ہے جو ہر چیز میں، ہر نقل و حرکت میں، سسرال (یا بیوی) کی رہنمائی کا محتاج ہوتا ہے! اس کی عزتِ نفس مسلسل مجروح ہوتی ہے۔ پھر جب وہ ولایتی معاشرے میں اپنے پیروں پر کھڑا ہوتا ہے تو، اکثر و بیشتر، نفسیاتی کسک کو دبانے کے لیے اُس بیوی ہی کو چھوڑ دیتا ہے جس کے لیے اُسے امپورٹ کیا گیا تھا! ایسے کتنے ہی درآمد شدہ دامادوں نے بعد میں سفید فام عورتوں سے شادیاں کر لیں۔
اس ''عقل مندی‘‘ میں عرب بھائی بھی پاکستانیوں سے کم نہیں! ان کے لیے بھی عورت انسان نہیں، شو روم میں ر کھی ہوئی بے جان شے ہے! یمن کا واقعہ ہے جو معروف ادیب منیر الدین نے اپنی خودنوشت ''ڈھلتے سائے‘‘ میں لکھا ہے۔ ایک عرب کی لڑکی ہسپتال میں داخل تھی۔ اُسے سٹریچر پر ایک کمرے سے دوسرے میں منتقل کیا جا رہا تھا۔ سٹریچر کو اٹھانے والے گفتگو کر رہے تھے۔ آپس میں، یا مریضہ سے۔ کسی بات پر لڑکی ذرا سی مسکرا دی! باپ کی غیرت وہیں جاگ گئی۔ فوراً ریوالور نکالا اور بیٹی کو سزائے موت دی!