مدتوں پہلے، کئی عشرے قبل، ایک دفتر جانا ہوا۔ میز پر ایک کیلنڈر پڑا تھا۔ پشت پر لکھا تھا: مَنْ کَتَمَ سِرَّہ بَلَغَ مُراَدہ، یعنی جس نے اپنا راز افشا نہ کیا، اپنے مقصد کو پہنچ گیا۔ جانے کیا سحر تھا، پانچ الفاظ کا جملہ، بلاغت میں کتابوں پر بھاری، دل میں بیٹھ گیا اور ذہن پر نقش ہو گیا۔ الفاظ حدیث کے تھے۔
کیا تلقین ہے! زندگی کو ہنگاموں سے اور آشوب سے اور سازشوں سے اور حسد سے بچانے والی! ایک دوست تھے‘ شہنواز خٹک۔ بڑے منصب پر پہنچ کر ریٹائر ہوئے۔ آج کل غالباً پشاور میں مقیم ہیں۔ ایک بار عندیہ دیا کہ فلاں جگہ تعیناتی چاہتے ہیں۔ انہیں یہ حدیث سنائی اور مشورہ دیا کہ کوشش کیجیے، مگر جب تک احکام جاری نہ ہو جائیں، پھر جب تک وہاں جا کر چارج نہ لے لیں، کسی سے ذکر نہ کریں۔ کچھ عرصہ بعد ملے تو مسکراتے ہوئے بتایا کہ کامیابی ہوئی۔
درِ رسالت سے ایک اور ہدایت جاری ہوئی: ''اپنی حاجتیں پوری کرنے کے لیے کتمان سے مدد لو، (یعنی راز کو راز ہی رکھو) اس لیے کہ ہر وہ شخص جسے نعمت سے سرفراز کیا جاتا ہے، اس پر حسد بھی کیا جاتا ہے‘‘۔ ایک بار فرمایا: جس نے اپنی بات افشا نہ کی، اس کے ہاتھ میں خیر ہے۔ پھر فرمایا: عقل مندوں کے دل قلعے ہیں جن میں راز محفوظ ہوتے ہیں۔ اس طرح بھی روایت آئی ہے کہ احرار کے قلوب، اسرار کی قبور ہیں‘ یعنی اہلِ ہمت کے دل میں راز دفن ہو جاتے ہیں اور باہر نہیں آتے۔
زندگی کو کامیاب بنانے کے یہ گُر، یہ نصائح، یہ تراکیب، یہ قیمتی نسخے، مزاروں پر ملتے ہیں نہ پاکپتن کی کسی خاتون کے پاس نہ پبلسٹی کے بھوکے نام نہاد روحانیت فروشوں کے پاس۔ یہ موتی، یہ لعل، یہ جواہر، یہ عقیق، یہ مروارید، یہ یاقوت، یہ مرجان، یہ الماس یہ زرِ خالص تو فقط رسالت کی دہلیز پر ملتا ہے! رومی نے کہا تھا، بے وقوفو! معشوق تمہارا، تمہارے ہمسائے میں ہے۔ دیوار سے دیوار ملی ہے اور تم دشت و صحرا میں خوار ہو رہے ہو! اُس راستے سے، اُس گھر میں دس بار گئے مگر افسوس! ایک بار اِس گھر سے ہو کر، اِس بام پر نہ آ سکے۔ دوبارہ افسوس! کہ اپنے خزانے پر خود ہی پردہ بن کر بیٹھے ہو!
جی ہاں! اگر ارادہ کیا ہے تو یاوہ گوئی سے پرہیز کیجیے، بڑ نہ ہانکیے، کچے پن کا مظاہرہ نہ کیجیے۔ اگر کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو حاصل کرنے سے پہلے ہی اسے تماشا نہ بنا ڈالیے۔
حیرت کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں جب انسان دیکھتا ہے کہ میانوالی جیسے حیادار خطے سے تعلق رکھنے والا عمران خان اپنے گھر کے معاملات کو، جو چاردیواری کے اندر کے معاملات ہیں، کس طرح سرِ بازار اچھالتا ہے یا اچھلنے دیتا ہے۔ یہ خطہ تو اتنا محتاط ہے کہ گھر کی خواتین کے نام تک بتانے سے گریز کیا جاتا ہے چہ جائیکہ خانگی زندگی کی ایک ایک بات، نکاح سے لے کر طلاق تک، میڈیا کی ملکیت میں دے دی جائے۔ یہ لوگ تو گھر کے ملازموں کی موجودگی میں کھل کر بات نہیں کرتے!
بجا کہ عمران خان ایک زمانے میں سٹار تھے۔ ورلڈ کپ جیتا۔ میدانِ کرکٹ کے یکتا شہسوار تھے۔ کوئی ثانی نہ تھا۔ سٹار فلم کا ہو یا کھیل کے میدان کا، اپنی ذاتی زندگی اچھالتا ہے! رانی فلم سٹار تھی‘ پہلی شادی اپنے ڈائریکٹر حسن طارق سے کی‘ جو طلاق پر منتج ہوئی۔ دوسری بار ڈولی میں بیٹھی تو پروڈیوسر میاں جاوید قمر کے کہاروں نے ڈولی اُٹھائی۔ یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھی۔ پھر کرکٹ کے کھلاڑی سرفراز نواز سے شادی کی۔ یہ رانی کا تیسرا راجہ تھا۔ یہ یاری بھی تڑک کرکے ٹوٹ گئی۔ محسن خان کرکٹ سٹار تھے۔ بھارتی اداکارہ رینا رائے سے شادی رچائی۔ گھر گھر چرچا ہؤا۔ میڈیا نے اتنی خاک اڑائی جتنی سکندرِ اعظم کی لڑائیوں میں اُڑتی تھی۔
نظامی گنجوی نے عجیب رنگ میں اِس اُڑتی ہوئی مٹی کا تذکرہ کیا؎
ز سمِ ستوراں درآں پہن دشت
زمین شش شد و آسمان گشت ہشت
گھوڑوں کے قدموں سے میدانِ جنگ میں وہ گرد اُٹھی کہ ساتویں زمین ساری کی ساری دھول میں تبدیل ہو گئی۔ پھر یہ دُھول آسمان کی طرف اُٹھی اور آٹھویں آسمان میں تبدیل ہو گئی۔ گویا زمینیں سات سے چھ رہ گئیں اور آسمان سات سے آٹھ ہو گئے۔
بہرطور محسن خان کی رینا رائے سے نبھ نہ سکی۔ راستے جدا ہو گئے۔ ماضی قریب میں شعیب ملک نے ثانیہ مرزا سے بندھن باندھا۔ عالمی میڈیا نے کوریج دیا۔ میرا جیسی ایکٹریسوں کا ذکر ہی کیا بہرطور اس کی پبلسٹی بھی ایک سٹار ہی کی پبلسٹی ہے!
مگر عمران خان؟ یا وحشت!! وہ اب کرکٹ سٹار نہیں! وہ سیاسی رہنما ہیں۔ لاکھوں افراد کے پسندیدہ لیڈر ہیں! وزیر اعظم بننے کے امیدوار ہیں۔ قوم کے ہچکولے کھاتے سفینے کو پار لگانے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ کشمیریوں سے کشمیر دلانے کا پیمان باندھ رہے ہیں۔ کرکٹ سٹار کا عہد گزر گیا۔ وقت تبدیلیاں لاتا ہے۔ جو ماں بچے کو نہلاتی ہے جب وہ کڑپل جوان بن جاتا ہے اس کی خواب گاہ الگ کر دیتی ہے۔ خان صاحب نے پہلی شادی کی۔ تفصیلات منظرِ عام پر آئیں۔ دوسری کی تو کون سی تفصیل تھی جو خلقِ خدا کی زبان پر نہ آئی۔ یہ تک بتایا گیا کہ پالتو کتے کو بیڈ روم میں لانے پر یا شاید نہ لانے پر بدمزگی ہوئی۔ پھر ریحام خان طلاق کے بعد میڈیا پر جلوہ گر ہوئیں اور رہی سہی گھریلو باتیں بھی عوامی ملکیت میں آ گئیں۔
اب جو عمران خان نے کہا کہ ایک اور شادی کروں گا کہ شکست میرے خون میں نہیں، تو ان کی ذہنی سطح پر ہر سنجیدہ شخص کو صدمہ ہوا ہے۔ اگر عزمِ صمیم کا، آہنی ارادے کا اور شکست خون میں نہ ہونے کا دعویٰ، سیاسی حوالے سے کرتے تو بات بھی تھی۔ سارا عزم صمیم، ساری قوتِ ارادی، ساری پہاڑ سی مضبوطی، شادیوں ہی کے لیے رہ گئی ہے؟ واہ عمران خان صاحب واہ!
جتنی چاہیں شادیاں کیجیے‘ لیکن متانت کو بروئے کار لائیے۔ لوگوں کو ٹھٹھا کرنے کا موقع نہ دیجیے۔ آپ اب سٹار نہیں کہ آپ کے صرف فین ہوں۔ آپ اب لیڈر ہیں اور عوام آپ کے پیچھے چل رہے ہیں، گھر کی باتیں گھر کے اندر رکھیے۔ چار دیواری بنوائیے۔ اس کے ساتھ باڑ HEDGE لگوائیے۔ مخالفین کو ہنسنے کا موقع نہ فراہم کیجیے‘ حامیوں کو شرمندگی سے بچائیے! آپ کے گھر میں کوئی کیوں جھانکے؟ آپ انگریزوں کے گھر میں رہے۔ آپ سے زیادہ LAUGHING STOCK کا مطلب کسے معلوم ہو گا! تر دیدیں کرنے کی نوبت ہی کیوں آئے؟ اور پھر دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں آگ ہو!
ظہور نظر نے کہا تھا:
اُس کا محبوب کہ تھا
صرصرِ دشتِ وفا کا جھونکا
اُس کی آغوش کو وا
اُس کے شبستان کو کھُلا چھوڑ گیا
سال ہا سال کے بعد
ایک دن ایک بھری بزم کی تنہائی میں
اُس نے اُس حسنِ سیہ پوش کو چپکے سے کہا
آ اُسی موڑ پہ مل بیٹھیں ذرا
لیکن اُس نے
عجب انداز میں صرف اتنا کہا
اس بھری بزم میں ہم دونوں کو سب جانتے ہیں
اپنی توہین نہ کر، میرا تماشا نہ بنا