''آپ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے کشمیری النسل تھے۔ والد ٹوپیاں بناتے تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے فارغ التحصیل ہو کر آپ یورپ گئے جہاں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ واپس آ کر وکالت کرنے لگے۔ مہینے میں اتنے ہی مقدمے لیتے تھے جن سے بس گزارہ ہو سکے۔ 1930ء میں خطبہ الٰہ آباد میں تصوّرِ پاکستان پیش کیا۔ بانگِ درا اور بالِ جبریل آپ کی شاعری کے مجموعے ہیں۔ کچھ شاعری آپ نے فارسی میں بھی کی۔ آپ کا مزار شاہی مسجد لاہور کی بغل میں ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال آپ کے فرزند تھے‘‘۔
یہ ہے ہمارا عمومی تصوّر علامہ اقبال کے بارے میں! اگر آپ بی اے کے ایک اچھے خاصے ہونہار طالب علم سے اقبال پر مضمون لکھنے کا کہیں تو کم و بیش یہی کچھ لکھے گا! زیادہ سے زیادہ ساتھ قائد اعظم کا ذکر کر دے گا!
اقبال کا نام سن کر ہماری چشم تصوّر اکثر و بیشتر یہی دیکھتی ہے کہ آپ کوئی کام وام نہیں کرتے تھے۔ سردیوں میں کشمیری دھسہ لپیٹے اور گرمیوں میں بنیان اور تہمد پہنے‘ چارپائی پر نیم دراز‘ فکرِ سخن میں مصروف رہتے تھے۔
ایک وجہ اس بے خبری کی یہ بھی ہے کہ سرکاری سطح پر علامہ اقبال کی کوئی مستند‘ تفصیلی سوانح حیات نہیں لکھوائی گئی۔ پاکستان کے برعکس‘ بھارت میں گاندھی اور نہرو پر بہت کام ہوا اور مسلسل ہوا۔ ہمارے ناقص علم کی رُو سے ان رہنمائوں کی وہاں کئی جلدوں میں سوانح عمریاں لکھی اور لکھوائی گئیں۔ یہاں اقبال کے نام پر ادارے تو بہت بنے مگر وہ زیادہ تر مقبرے ثابت ہوئے اور مجاوروں کے مالی حالات بہتر کرنے میں مُمِد رہے۔ اقبال کے نام پر بننے والے اداروں کو سیڑھی کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اپنی تشہیر کی گئی۔ کچھ کٹ تھروٹ (CUT THROAT) قسم کے حضرات نے تو اپنے نام نہاد تصوّف کے میزائل بھی انہی چبوتروں سے لانچ کئے۔ کچھ حضرات نے کام تو اقبال پر کیا مگر جن مذہبی گروہوں سے وابستہ تھے ان گروہوں کا رنگ کام پر حاوی رہا۔ عینکوں میں لگے ہوئے رنگین شیشے نہ اترے۔ کسی کو اقبال سارے کا سارا سبز دکھائی دیا کسی کو تمام سرخ!
بالآخر ایک تصنیف ایسی سامنے آئی ہے جس میں اقبال کی زندگی کو ترتیب کے ساتھ‘ سال بہ سال‘ بغیر کسی گروہی یا نظریاتی وابستگی کے‘ پیش کیا گیا ہے۔ عزیز گرامی یاسر پیرزادہ نے دو جلدوں پر مشتمل یہ گراں قدر تحفہ مرحمت کیا ہے اور یہ فیاضی کمشنر ریونیو ہونے کے باوجود دکھائی ہے!
ڈاکٹر سید سلطان محمود حسین نے اقبال پر موجود تمام حوالوں کو بروئے کار لاتے ہوئے عہد بہ عہد‘ علامہ کے حالات قلم بند کر دیئے ہیں۔ امتحان میں ان کے مضامین سے لے کر خطوط تک‘ سیاسی سرگرمیوں سے لے کر یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں سے وابستگی تک‘ سفر سے لے کر قیام تک، سب کچھ تاریخ وار محفوظ کر دیا ہے(یہاں یہ وضاحت بے جا نہ ہوگی کہ مصنف سے ہماری ملاقات ہے نہ تعارف۔)
اس قابل قدر تذکرۂ اقبال سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے انتہائی مصروف زندگی گزاری، مسلسل مصروفیات! کبھی یونیورسٹی میں‘ کبھی حمایت اسلام کی انجمن کے ساتھ‘ کبھی سیاسی سرگرمیاں‘ کبھی نصابی کتب کی تدوین‘ کبھی اپنی تصانیف کی اشاعت‘ کبھی بیرون ملک سکالرز سے رابطہ! شاید ہی کوئی ایسا خط ہو جس کا آپ نے جواب نہ دیا ہو۔ یہاں تک کہ جو سادہ دل افراد ان کے مقام اور مصروفیات کونظر انداز کرتے ہوئے اپنا کلام اصلاح کے لیے بھیج دیتے تھے، انہیں بھی معذرت کرتے ہوئے خط کا جواب ضرور دیتے تھے۔ یونیورسٹی فیکلٹی کے لیے مسلسل خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ڈین کے فرائض سرانجام دیے۔ انجمن حمایت اسلام یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج کی شاید ہی کوئی ایسی کمیٹی یا ذیلی کمیٹی تھی جس کے آپ سربراہ یا رکن نہ تھے۔ ہر اجلاس میں باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے۔ بورڈ آف سٹڈیز کی صدارت کرتے تھے۔ کلکتہ سے لے کر لکھنؤ اور الٰہ آباد تک یونیورسٹیوں کی کانفرنسوں میں پنجاب یونیورسٹی کی نمائندگی کرتے تھے۔ کئی یونیورسٹیوں میں جا کر زبانی امتحانات لیے۔ علمی تقاریب میں لیکچر دیتے تھے۔ انٹرنس کے طلبہ کے لیے نصابی کتاب''آئینہ عجم‘‘ مرتب کی۔ اس کے علاوہ کئی نصابی کتب تالیف کیں۔ دہلی‘ حیدر آباد‘ بھوپال‘ لدھیانہ‘ جالندھر‘ علی گڑھ، شملہ کے سفر مسلسل درپیش رہے۔ جاوید نامہ میں افلاک کی سیر کرنے والے اس شخص کو زمین کے معاملات سے کس قدر با خبری تھی؟ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھوپال میں قیام کے دوران‘ بھوپال کے حکمران کو تجویز پیش کی کہ ریاست کے غیر آباد علاقوں میں مسلمانوں کو آباد کر کے آبادکاری کی سہولیات پہنچائی جائیں تاکہ غیر آباد زمینوں کی کاشت سے پیداوار بڑھے اور عوام خوشحال ہوں۔ بیگمات بیمار رہیں تو ان کے علاج میں کوئی کمی نہ آنے دی۔ والد جب تک حیات رہے سیالکوٹ مسلسل آتے جاتے رہے۔ بھتیجے کی تعلیم اور ملازمت میں ہر دم رہنمائی کرتے رہے۔ زمین خریدی پھر مکان بنوایا۔ بیگم کی وفات کے بعد بچوں کی تربیت اور پرورش کے لیے اچھی گورنس تلاش کی۔ الغرض اقبال نے سیاست اور تعلیم کے میدان میں اتنا ہی حصہ ڈالا جتنا ادب اور شاعری میں! خاندانی فرائض سے بھی غفلت نہ برتی۔ آخری کئی برس بیماریوں میں کٹ گئے۔ پائوں میں نقرس(گائوٹ ) ہو گیا۔ چلنے پھرنے سے رہ گئے۔ دانتوں کی تکلیف بہت رہی۔ بینائی کم ہو گئی اس کے باوجود ہر ممکن حد تک‘ سرگرمیاں جاری رکھیں!
ہم ایک ایسی قوم ہیں جو سیاست اور مذہب پر بحث کرنا ازحد پسند کرتی ہے اس لیے کہ ذہنی عیاشی، دماغی تفریح اور جبڑوں کی ورزش کے لیے یہ شغل بہت مناسب ہے۔ ہم میں سے ہر شخص مذہب پر‘ تصوّف پر‘ مختلف مسالک اور مکاتب فکر پر اتھارٹی ہے۔ ان گنہگار آنکھوں نے لوگوں کو نماز میں ناف کے نیچے یا اوپر ہاتھ باندھنے پر گھنٹوں کیا پہروں بحث کرتے دیکھا ہے۔ بحث‘ مجادلہ کی صورت اختیار کر جاتی ہے پھر ذاتی تعلقات میں رخنہ پیدا ہو جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی دشنام طرازی سے ہمارا مزاج ماپا جا سکتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ مسائل کو ہم نے کفر و اسلام کی کسوٹی سمجھ لیا اور کچھ پہلو جو اہم تھے‘ انہیں معمولی گرداننے لگے۔ ہم اس حوالے سے حیات اقبال سے رہنمائی لے سکتے ہیں۔ چند اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں جو ہمارے مروجہ خیالات میں‘ ممکن ہے‘ ارتعاش کا سبب بنیں مگر لازم نہیں کہ وہی کچھ سنا جائے جو کانوں کو بھلا لگتا ہے۔ دنیا ہمارے ذہن سے وسیع تر ہے! خواہ یہ دنیا سیاروں کے حوالے سے ہو‘ یا خیالات، عقائد اورمفروضوں کی دنیا ہو!
''30دسمبر1915ء کے خط میں حسن نظامی کو تحریر فرمایا کہ میرا فطری اور آبائی میلان تصوف کی طرف ہے۔ یورپ کا فلسفہ پڑھنے سے یہ میلان اور بھی قوی ہو گیا کیونکہ فلسفہ یورپ بحیثیت مجموعی وحدت الوجود کی طرف رخ کرتا ہے مگر قرآن پر تدبر کرنے اور تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے اپنی غلطی محسوس ہو گئی اور میں نے محض قرآن کی خاطر اپنے قدیم خیال کو ترک کر دیا‘‘۔
''ضیاء الدین برنی کو 31 اگست 1916ء کو لکھتے ہیں مہدی و مسیح کے متعلق جو احادیث ہیں ان پر ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں بحث کی ہے۔ ان کی رائے میں یہ تمام احادیث کمزور ہیں۔ میں بھی ان کا ہم نوا ہوں۔
''10نومبر1919ء کو سید سلیمان ندوی سے بذریعہ خط دریافت کیا کہ جب موکلین وکلا کے پاس مقدمات کی پیشی کے لیے آئیں تو ان میں سے بعض پھل پھول یا مٹھائی کی صورت میں ہدیہ لاتے ہیں۔ یہ ہدیہ‘ مقررہ فیس کے علاوہ ہوتا ہے اور لوگ اپنی خوشی سے لاتے ہیں، کیا یہ مال مسلمانوں کے لیے حلال ہے؟‘‘
21اپریل1920ء کو کشمیر سے ایک پیرزادہ آپ سے ملنے آیا۔ اس کی عمر تیس پینتیس سال تھی۔ وہ شریف ہوشیار پڑھا لکھا اورسمجھدار لگتا تھا۔ آپ کو دیکھ کر بے اختیار زار و قطار رونے لگا۔ آپ نے سمجھا کہ وہ مصیبت زدہ اور مدد کا طالب ہے۔ اس نے بتایا کہ اسے کسی مدد کی ضرورت نہیں، اس پر خدا کا بڑا فضل ہے۔ مفصل کیفیت پوچھنے پر اس نے بتایا کہ نوگام میں میرا گھر ہے۔ میں نے عالم کشف میں نبی کریمؐ کا دربار دیکھا جب نماز کے لیے صف کھڑی ہوئی تو سرورکائناتؐ نے پوچھا کہ محمد اقبال آیا ہے یا نہیں۔ معلوم ہوا کہ وہ محفل میں نہیں تھا۔ اس پر ایک بزرگ کو اقبال کے بلانے کے لیے بھیجا گیا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا کہ ایک جوان آدمی جس کی داڑھی منڈی ہوئی تھی اور رنگ گورا تھا ان بزرگ کے ساتھ صف نماز میں داخل ہو کر حضور سرورکائناتؐ کے دائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ جب میں نے کشمیر میں بزرگ نجم الدین سے یہ قصّہ بیان کیا تو انہوں نے آپ کی نشان دہی فرمائی سو محض ملاقات کی خاطر کشمیر سے یہاں آیا ہوں۔ آپ کو دیکھ کر مجھے رونا آ گیا کیونکہ میرے کشف کی تصدیق ہو گئی۔ اقبال نے یہ سارا واقعہ اپنے والد بزرگوار کو 23 اپریل کے خط میں لکھ بھیجا اور ان سے رہبری کی درخواست کی!‘‘
مولانا اکبر شاہ خان نجیب آبادی کو ان کے مکتوب کا جواب دیتے ہوئے اقبال نے لکھا کہ آپ نے ٹھیک فرمایا ہے کہ سر سید احمد خان کی تحریک سے پیشہ ور مولویوں کا اثر بہت کم ہو گیا تھا مگر خلافت کمیٹی نے اپنے پولیٹیکل مفتیوں کی خاطر ہندی مسلمانوں میں پھر ان کا اقتدار قائم کر دیا، یہ ایک بہت بڑی غلطی تھی جس کا احساس ابھی تک غالباً کسی کو نہیں ہوا۔ مجھے حال ہی میں اس کا تجربہ ہوا ہے۔ میں نے ''اجتہاد‘‘ پر ایک انگریزی مضمون ایک جلسے میں پڑھا، اس پر بعض لوگ مجھے کافر کہنے لگے‘‘۔
(جاری )