بازارِ دل میں اپنی دکاں ہم نے کھول لی

بظاہر یہ دو کمروں پر مشتمل ایک دفتر ہے جو دارالحکومت کے مرکز میں واقع ایک پرانے بے رنگ پلازے کی بیسمنٹ میں ہے، مگر اصل میں کروڑوں اربوں کا کاروبار ہے!
چھوٹے کمرے میں میرا معاون بیٹھتا ہے۔ سارا سامان دو میزوں‘ چند کرسیوں‘ ایک ٹیلی فون اور دو لیپ ٹاپ پر مشتمل ہے۔ نسبتاً بڑے کمرے میں مَیں خود بیٹھتا ہوں۔ میں چیف ایگزیکٹو بھی ہوں، بورڈ آف ڈائریکٹر بھی ہوں، ایڈوائزر بھی ہوں اور سچ پوچھیے تو چائے بنانے والا ملازم بھی ہوں۔
بازار تیز ہے۔ شاعر کہا کرتے ہیں کہ بازارِ عشق تیز ہے! نہیں، یہ اور بازار ہے۔ راولپنڈی میں ایک مولانا صدر الدین کاشمیری تھے۔ عالم دین اور بلا کے مقرّر۔ سیٹلائٹ ٹائون کی ایک مسجد میں خطبہ دیا کرتے تھے۔ عمدہ شعری ذوق رکھتے تھے۔ کچھ عرصہ اردو بازار میں ایک دکان پر بیٹھتے تھے۔ اِس لکھنے والے کا سِن اُس وقت کچا تھا۔ والدِ گرامی کے ساتھ وہاں جایا کرتا تھا۔ معلوم نہیں ان کی اپنی دکان تھی یا صرف بیٹھتے تھے۔ بہر طور ایک گاہک آیا اور پوچھا: ''کیا وہ کتاب آپ کے پاس ہے جس کا نام 'اُس بازار میں‘ ہے‘‘۔ مولانا ہنسے اور جواب دیا، وہ جوکتاب ہے 'اُس بازار میں‘ وہ آپ کو اِس بازار میں نہیں ملے گی!
بازار تیز ہے۔ ناصر کاظمی نے کہا تھا ؎
بازارِ دل میں اپنی دکاں ہم نے کھول لی
لاہور! تجھ کو حاجتِ اہلِ ہنر کہاں!
ترکی میں فوج کے ایک گروہ نے قبضہ کرنا چاہا۔ ناکام ہوا۔ ہر طرف شور برپا ہے کہ کیوں ناکام ہوا؟ فہم و فراست والا بزنس مین وہی ہوتا ہے جو بازار میں طلب کے رجحان کو فوراً جانچ لے۔ ابھی قندیل بلوچ زہد و تقویٰ کی بھینٹ چڑھی ہے۔ سمجھ دار مصنف دیکھتے دیکھتے بازار میں کتابیں لے آئیں گے:
''قندیل بلوچ کو کس نے قتل کیا‘‘
''قندیل بلوچ۔۔۔ اصل کہانی‘‘
''قندیل بلوچ کون تھی‘ پردہ اٹھتا ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
بسوں اور ٹرینوں میں سفر کرنے والے لوگ فوراً خریدیں گے اور پڑھ جانے کے بعد اپنے آپ سے زیر لب کہیں گے کہ یہ سب تو اخبارات میں آ چکا ہے!
مگر ہم نے اس قبیل کی کوئی کاروباری ڈنڈی نہیں مارنی۔ ہم نے پوچھنے والوں کو صرف یہ بتانا ہے کہ فوجی بغاوت (یا انقلاب؟) کو کامیاب بنانے کے لیے کیا ضروری ہے۔ انگریزوں نے اس موقع کے لیے ایک جامع محاورہ ایجاد کیا ہے:Dos and Donts یعنی کیا کچھ کرنا ہوگا اور کیا کچھ نہیں کرنا ہو گا!
پلازے کے باہر سے گزرنے والا سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس بے رنگ پرانی عام سی عمارت کے تہہ خانے میں کیا ہ رہا ہے۔ بظاہر دو میزیں اور دو لیپ ٹاپ! مگر جیسے ہی میرے معاون نے نیویارک ٹائمز میں اشتہار چھپوایا کہ ''فوجی بغاوت کو کامیاب کرنے کے لیے ہم سے رابطہ کیجیے‘‘ ، ای میلوں کا تانتا بندھ گیا۔ ہوا یوں کہ امریکی حکومت‘ امریکی تھنک ٹینک، امریکی پریس ہماری پشت پر کھڑے ہو گئے۔ شاطر لوگ ہیں، آن کی آن میں ہمارا اشتہار یورپ‘ امریکہ اورکینیڈا وغیرہ کو چھوڑکر پوری دنیا میں پھیلا دیا۔ خاص ہدف ان کا جنوبی امریکہ‘ افریقہ‘ مشرق وسطیٰ اور دوسرے اسی طرح کے ممالک تھے۔ ہمیں (یعنی مجھے اور میرے معاون کو) اس کھکھیڑ میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ امریکیوں کی ہمارے کاروبار کو کامیاب بنانے میں کیا دلچسپی ہے۔ ہمیں آم کھانے ہیں، گھٹلیاں نہیں گننی! اگر امریکی حکومت اور امریکی تھنک ٹینک چاہتے ہیں کہ فوجی بغاوتیں افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ ہی میں کامیاب ہوں‘ تو چاہتے رہیں! ہم تو بازار میں بیٹھے ہیں۔ گاہک جو بھی ہوا‘ جہاں سے بھی آیا‘ طلب پوری کریں گے۔ اس وقت تک کئی ممالک کی افواج ہمارا سودا خرید چکی ہیں۔ نام ان کے صیغہ راز میں رہیں گے کہ کاروبار میں اعتماد اور راز داری ازحد ضروری ہے۔
یوں تو ہم ہر گاہک کو اس کے مخصوص حالات اور جغرافیائی اور تاریخی سیاق و سباق میں مشورہ دیتے ہیں مگر یہاں چند ایسے عمومی رہنما اصول بیان کیے دیتے ہیں جو فوجی انقلاب کو کامرانی سے بہرہ ور کرنے کے لیے لازم ہیں!
اوّل: ملک میں جمہوریت ہو مگر یہ جمہوریت واوین میں ہو یعنی۔۔۔''جمہوریت‘‘ ! اس کا اصل جمہوریت سے کوئی تعلق نہ ہو۔ سیاسی پارٹیاں ہوں مگر ان کے اندر انتخابات نہ ہوتے ہوں۔ ان پر خاندانی گرفت مضبوط ہو۔ عمر رسیدہ چٹ سرے سیاست دانوں کی موجودگی میں بھی جانشینی کے فرائض صاحبزادی سرانجام دے یا بہن‘ فرزند یا برادر زادہ! (یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ برادر زادہ کو عام اردو میں بھتیجا اور پنجابی میں بھتریّا کہتے ہیں) سفید سروں والے عمر رسیدہ پارٹی ارکان‘ فرزند یا برادر زادہ یا دختر نیک اختر یا بہن کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوں اور اس کے ایک اشارۂ ابرو پر دبئی بھی جانا پڑے تو ایئر پورٹ کی طرف بھاگ پڑیں!
دوم: ''جمہوری‘‘ حکمران ازحد امیر کبیر ہوں بلکہ کھرب پتیوں کی فہرست میں ان کے اسمائے گرامی موجود ہوں۔ جائیدادیں ان کی نیو یارک سے فرانس تک‘ جدہ سے لندن تک‘ دبئی سے ہسپانیہ تک پھیلی ہوئی ہوں۔ آف شور کمپنیوں میں نام ہوں۔ سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں اکائونٹس ہوں۔ یاد رہے کہ فوجی انقلاب اتنا ارزاں نہیں کہ غریب جمہوری لیڈر اسے خرید سکیں! اس کے لیے دولت چاہیے! اس دنیا میں کامیاب وہی ہے جس کی تجوری بھری ہوئی ہے اور بھاری ہے۔ آپ اگر اتنے غریب ہوںکہ سبکدوش ہونے والے برطانوی وزیر اعظم کی طرح گھر کا سامان خود اٹھا کر ٹرک میں رکھ رہے ہوں‘ خاتون اول کے لیے پرانی گاڑی خرید رہے ہوں، سنگا پور کے لی کی طرح ایک مکان کے علاوہ ترکہ کچھ نہ چھوڑ رہے ہوں یا امریکی صدرکی طرح سرکاری تحائف کا حساب دے رہے ہوں تو معاف کیجیے‘ اتنی غربت میں فوجی انقلاب کا تصوّر بھی نہ کیجیے اور ہمارا قیمتی وقت ضائع نہ فرمائیے۔
سوم: ضروری ہے کہ عوام کی زندگی میں حقیقی تبدیلی دور دور تک نظر نہ آئے۔ حقیقی تبدیلی سے مراد ہے خواندگی‘ تعلیم‘ پٹواری اور تھانہ کلچر سے چھٹکارا‘ دفاتر میں سرخ فیتے‘ رشوت، سفارش اور تاخیر کا خاتمہ۔ اگر ہر کام کے لیے کچہری اور ہسپتال سے لے کر ترقیاتی اداروں تک عوام کو ذلیل ہونا پڑے گا تو فوجی انقلاب کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔ رہا یہ سوال کہ کیا فوجی حکمران ان مسائل کو حل کر دیں گے تو یہ آپ کا درد سر نہیں! آپ نے جو معاوضہ ہماری خدمات کا ہمیں دینا ہے وہ صرف فوجی انقلاب کی ابتدائی کامیابی کا ہے!
چہارم: ترکی کی حالیہ ناکام بغاوت میں پولیس کا کردار ابھر کر سامنے آیا ہے۔ ہمارے بہت سے کلائنٹ پولیس کا خاص طور پر پوچھ رہے ہیں۔ سو عرض ہے کہ پولیس اگر پیشہ ورانہ امور ہی کے لیے استعمال ہو گی اور سیاسی مداخلت سے پاک ہو گی تو وہ فوجی انقلاب کے راستے میں رکاوٹ بن جائے گی!اگر آپ نے فوجی انقلاب کو کامیاب بنانا ہے تو پولیس کو عضو معطل بنا کر رکھ دیں۔ افسروں، تھانیداروں‘ انسپکٹروں یہاں تک کہ کانسٹیبلوں کی تعیناتیاں بھی سفارش کی بنیاد پر کریں۔ ہزاروں جوانوں کو اپنے محلّات کے پہرے کے لیے استعمال کریں۔ محلّات کی تعداد زیادہ کرنے کے لیے شادیاں متعدد کریں۔ اور یوں سارے محلّات کو سارکاری رہائش گاہوں کا درجہ دے دیں۔ اگر پولیس والے اغوا برائے تاوان اور کاروں کی چوری میں مشکوک کردار ادا کرتے ہیں تو کرنے دیجیے۔ یہ پولیس فوجی انقلاب یا کسی بھی انقلاب کو روکنے کے قابل نہ رہے گی۔
پنجم: اور یہ آخری نکتہ ہے۔ فوجی انقلاب کے بعد آپ ملک میں رہنے کا سوچیں بھی نہیں! پہلی فرصت میں سودا بازی کر کے دبئی‘ جدہ‘ یورپ یا امریکہ کا رُخ کریں۔ زندگی سے لطف اندوز ہوں۔ جب پیچھے رہ جانے والوں کی جد وجہد کے نتیجے میں جمہوریت واپس آئے تو آپ بھی واپس آ جائیں اور آتے ہی عوامی خدمت کا نعرہ لگائیں۔ جن سیاست دانوں نے فوجی آمر کا ساتھ دیا تھا‘ انہیں پارٹی میں نہ صرف خوش آمدید کہیں بلکہ اعلیٰ مناصب سے بھی نوازیں۔
آخر میں گاہک ملکوں کو یاد دلاتے چلیں کہ مشورے کی فیس ڈالروں میں ادا کرنا ہو گی جو یورپ کے بینکوں میں ہمارے اکائونٹ میں براہ راست جمع کرائی جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں