اگر دہشت گردی کرنے والے‘ اگر بچوں عورتوں اور بوڑھوں کے پرخچے اڑانے والے‘ اگر سکولوں میں زیرِ تعلیم معصوم بچوں کو قتل کرنے والے ''ہمارے بھائی‘‘ ہو سکتے ہیں اور بقول ایک مرحوم جنرل صاحب کے ''ہمارے بگڑے ہوئے بچے‘‘ کہلا سکتے ہیں تو بچوں کو اغوا کرنے والے''ہمارے بھائی‘‘ کیوں نہیں ہو سکتے؟
پورے ملک میں‘ خاص طور پر لاہور میں خوف کا دور دورہ ہے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے بچے مسلسل کثیر تعداد میں اغوا ہو رہے ہیں۔ پولیس دُور کی کوڑی لائی کہ ماں باپ کے منفی رویے کی وجہ سے بچے گھروں سے بھاگ رہے ہیں مگرسپریم کورٹ نے اس دلیل کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
اغوا کرنے والوں سے‘ یعنی ''اپنے بھائیوں‘‘ سے ہماری ایک ہی درخواست ہے کہ بچے ضرور اغوا کریں۔ اگر آپ کا یہ کاروبار پھل پھول رہا ہے تو ہم اس دن دوگنی رات چوگنی ترقی کو روکنے والے کون ہوتے ہیں۔ مفتی صاحب نے آنکھیں عطیہ کرنے کے حوالے سے فرمایا ہے کہ اگر خدا نے اندھا پیدا کیا ہے تو آپ کون ہوتے ہیں آنکھیں ٹرانسپلانٹ کرنے والے۔ اس کا جواب کسی دل جلے نے یہ دیا کہ مفتی صاحب کی بینائی اگر خدا نے کمزور کی ہے تو مفتی صاحب کون ہوتے ہیں اپنے چہرے پر عینک فٹ کرنے والے۔ بالکل اسی وزنِ بیت پر ہم نے کہا ہے کہ اگر بچوں کے اغوا کا کاروبار چمک رہا ہے اور خوب چمک رہا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں اس کاروبار میں رخنہ ڈالنے والے۔ آخر وہ محنت کر کے اپنا کاروبار چلا رہے ہیں۔ محنت کرنے کا قصہ نیا نہیں ہے۔ جن لوگوں کی کاریں چرائی جاتی ہیں اور وہ اپنی کاریں ''چھڑانے‘‘ قبائلی علاقوں میں جاتے ہیں
وہ ساٹھ ستر سال سے یہ بپتا سنا رہے ہیں کہ کار ''چھڑانے‘‘ کے لیے مذاکرات حجرے میں ہوتے ہیں۔ بسا اوقات کار کے مالک کو انتظار کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ وجہ انتظار کی یہ بتائی جاتی ہے کہ ''حاجی صاحب‘ نماز پڑھنے گئے ہیں۔ حاجی صاحب مسجد کے فرش پر سجدہ ریز ہونے کے بعد لوٹتے ہیں تو کار کا مالک اپنی کار واپس لینے کے لیے چند لاکھ روپے ادا کرتا ہے۔ جب کوئی بدبخت پوچھ بیٹھتا ہے کہ ایک طرف آپ نمازیں پڑھ رہے ہیں‘ دوسری طرف کاریں اغوا کرا رہے ہیں تو اس اعتراض کا جواب دندان شکن دیا جاتا ہے کہ ''یہ تو ہمارے بچوں کی محنت ہے!‘‘
بچوں کو اغوا کرنے والے ہمارے بھائی ہیں اور محنت کر رہے ہیں۔ ان کی خدمت میں صرف ایک گزارش ہے کہ بچے اغوا کرنے ہی ہیں تو خدا کے لیے پولیس والوں کے بچوں اغوا کریں۔ کیونکہ پولیس والوں کا رویہ اس ضمن میں ایسا ہے کہ شاید ہی دنیا میں کسی اور ملک کی پولیس کا ہو۔ آج ہی ایک معاصر میں کسی صحافی نے رونا رویا ہے کہ بچوں کے اغوا کے سلسلے میں‘ بھر پور کوشش کے باوجود صوبے کی پولیس کے افسر اعلیٰ اور اس کے نائب نے فون پر بات نہیں کی!
ستم ظریفی ایک تھوڑی ہی ہے جس کا رونا رویا جائے۔ پہلی ستم ظریفی یہ ہے کہ پولیس کے افسروں کو جو معیارِ زندگی یہ بھوکی ننگی قلاش بچے اغوا کروانے والی قوم مہیا کر رہی ہے‘ اس کا دوسرے ملکوں میں تصوّر ہی نہیں! کوئی ہے جو صوبائی پولیس کے افسر اعلیٰ سے پوچھے کہ کتنی گاڑیاں ان کے زیر استعمال ہیں؟ دفتر میں کتنی؟ اور گھر میں کتنی؟ کتنے پہریدار ان کے گھر پر تعینات ہیں اور گیٹ کے سامنے تنے ہوئے خیمے میں کتنے جوان زندگی کے شب و روز کاٹ رہے ہیں؟ گھر میں ملازم کتنے ہیں؟ یہ صرف افسرِ اعلیٰ کا نہیں‘ سارے پولیس افسروں کا معاملہ ہے۔ بلکہ ریٹائر ہونے کے بعد بھی خیمہ تنا رہتا ہے۔ اس شاہانہ معیارِ زندگی کے اخراجات پورے کرنے کے لئے وہ بھی حصّہ ڈال رہے ہیں جن کے بچّے دھڑا دھڑ اغوا ہو رہے ہیں اور وہ صحافی بھی جن کی فون کال اٹینڈ کرنا صاحب کو یا صاحبوں کو گوارا نہیں!
دوسری بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ صوبے میں دھڑا دھڑ‘ عام (ریگولر) پولیس کے علاوہ خصوصی محکمے دھڑا دھڑ بنتے جا رہے ہیں۔ پہلے ایلیٹ فورس بنی۔ میڈیا بارہا دہائی دے چکا کہ ایلیٹ فورس شاہی خاندان کے محلات پر مامور کر دی گئی۔ یہ محلات درجنوں میں ہیں۔ کیونکہ تعددِّ ازواج کی برکت سے محلات کی تعداد بھی کم نہیں اور شاہی خاندان کے جملہ ارکان بھی بہت سے ہیں۔ مغلوں کے زوال کے زمانے میں دہلی کے شاہی قلعے میں شہزادوں اور شہزادیوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی تھی۔ گزارا عسرت سے ہوتا تھا۔ دیکھیے‘ اقتدار سے محرومی کے بعد زمانۂ حال کے شاہی خاندانوں پر کیا گزرتی ہے؟
ایلیٹ فورس کے بعد ڈولفن فورس بنی مگر خلقِ خدا کو اس سے بھی فائدہ نہ ہوا۔ اس فورس پر بدعنوانی کے الزامات ایک الگ کہانی ہے! اب اونٹ کی پیٹھ پر ایک اور تنکا لاددیا گیا ہے۔''وزیر اعلیٰ نے بچوں کی گم شدگی کے حوالے سے خصوصی ٹاسک فورس کے قیام کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ٹاسک فورس کی کارکردگی کی مجھے باقاعدگی سے رپورٹ پیش کی جائے‘‘ اب معلوم نہیں ''خصوصی ٹاسک فورس‘‘ کے قیام کی ہدایت وزیر اعلیٰ نے کسے دی؟ رہی کارکردگی کی رپورٹ تو ایلیٹ فورس اور ڈولفن فورس کی کارکردگی کی رپورٹیں بھی تو پیش ہوتی ہوں گی؟ اگر بچوں کے اغوا کا سدِباب خصوصی ٹاسک فورس نے کرنا ہے تو سینکڑوں افراد پر مشتمل صوبائی پولیس کس مرض کی دوا ہے؟ صوبائی اسمبلی میں موم کے پُتلے نہ بیٹھے ہوتے اور گوشت پوست کے بنے ہوئے دماغ رکھنے والے ممبر ہوتے تو پولیس کے بجٹ‘ خیموں‘ گاڑیوں‘ نوکروں‘ ملازموں اور پہریداروں کے بارے میں بیسیوں سوال پوچھتے!
بات وہی ہے یعنی حکمرانوں اور پولیس والوں کے درمیان خاموش معاہدے کی! اس معاہدے کی غیر تحریری شق یہ ہے کہ پولیس شاہی خاندان کی حفاظت کرے گی ذاتی حکام کی تعمیل کرے گی‘ اس کے بدلے میں پولیس کو کھلی چھٹی ہے۔ اس کی کارکردگی پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جائے گا۔ ماڈل ٹائون کے چودہ خون ہوں یا تھانوں میں جان ہارتے زیر تفتیش ملزمان! روک ٹوک کوئی نہ ہو گی۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ جس صوبے میں بچوں کی گم شدگی کا قضیہ سپریم کورٹ طے کرنے پر مجبور ہوتی ہے اس صوبے میں ایک ''چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو‘‘ بھی ''کام‘‘ کر رہی ہے! ایلیٹ فورس‘ ڈولفن فورس‘ خصوصی ٹاسک فورس اور ان سب پر مستزاد ''چائلڈ پروٹیکشن بیورو!‘‘ واہ! واہ! سبحان اللہ! اس بیورو کا2014-15ء کا بجٹ چھتیس کروڑ پچاس لاکھ76ہزار تھا!
ہزاروں سال پہلے حکومتیں چلانے والے عقل مندوں نے ایک فیصلہ کیا تھا کہ چونکہ ہر کام بادشاہ یا حکمرانِ اعلیٰ خود نہیں کر سکتا اس لیے مختلف کام مختلف وزیروں کو سونپ دیے جائیں۔ اتفاق سے یہ خبر ابھی تک پنجاب میں نہیں پہنچی! اس لیے یہاں سارے محکمے حکمران اعلیٰ کے پاس ہی ہیں! وہی وزیر صحت ہیں اور ہسپتالوں کے انچارج افسروں کو معطل کر رہے ہیں۔ وہی وزیر داخلہ ہیں ایک نجی ٹارچر سیل کے منظرِ عام پر آ جانے کی وجہ سے وزیر اعلیٰ نے (یعنی وزیر داخلہ نے)ڈی ایس پی‘ ایس ایچ اور تھانے کے پورے عملے کو فی الفور معطل کر دیا ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے معطل ہونا کوئی سزا نہیں کیونکہ معطلی کے دوران تنخواہ پوری ملتی ہے! کل کو یہ کون پوچھے گا کہ معطل کیے جانے والوں کو سزا کیا ملی؟ جلد یا بدیر تعیناتی دوبارہ ہو جاتی ہے!
کیا آپ نے کسی مندر کو اندر سے دیکھا ہے؟اس میں دیوی یا دیوتا کا جو بُت ہوتا ہے‘ اس کے کئی سر اور کئی بازو اور کئی ہاتھ ہوتے ہیں۔ آخر اس نے پورے مندر کو تن تنہا جو چلانا ہوتا ہے! منیر نیازی یاد آ گئے ؎
ایک میں اور اتنے سارے سلسلوں کے سامنے
ایک صوتِ گُنگ جیسے گنبدوں کے سامنے