کمزور نظر والے شخص کی آنکھوں کا معائنہ ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر نے شیشے لگا کر کہا آخری سطر پڑھو۔ مریض نے پوچھا ‘ کون سی آخری سطر؟ ڈاکٹر نے بتایا وہ جو سامنے چارٹ لگا ہے‘ اس کی آخری سطر؟ مریض نے جواب میں پوچھا‘ کون سا چارٹ‘ ڈاکٹر نے پھر وضاحت کی کہ چارٹ جو سامنے دیوار پر لگا ہے۔ اس پر مریض نے پوچھا‘ کون سی دیوار؟ مجھے تو کوئی دیوار نظر نہیں آ رہی۔
یہ لطیفہ شفیق الرحمن نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے۔ یہ یوں یاد آیا کہ سپریم کورٹ نے بچوں کے اغوا کے حوالے سے دہائی دی ہے کہ ''کسی کو ریلیف مل رہا ہے نہ ریاست کو پتہ ہے کہ بچیّ کیوں اغوا ہو رہے ہیں؟‘‘ ان ریمارکس پر عدالت عالیہ سے‘ باادب و احترام پوچھا جانا چاہیے‘‘ کون سی ریات مائی لارڈ؟ یہاں تو کسی ریاست کاوجود نہیں!‘‘
عدالت عالیہ کے حضور ایک سینئر سول جج دھاڑیں مار مار کر رونے لگا کہ اس کا پانچ سالہ بیٹا دو سال سے اغوا ہے مگر پولیس اسے بازیاب کرانے کے بجائے ملزموں کی حمایت کر رہی ہے! سینئر سول جج نے عدالت سے درخواست کی کہ اسے پولیس پر اعتماد نہیں اس لیے بچے کی بازیابی کے لیے فوج کو کہا جائے۔ کیا تمغہ ڈالا ہے عدلیہ کے رکن نے پولیس کے گلے میں! سبحان اللہ! سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ بچہ اغوا ہو تو''سب سے پہلی اور زیادہ ذمہ داری پولیس کی ہے‘‘۔ سپریم کورٹ کے اس فرمان کے خلاف پولیس کو عالمی عدالت انصاف میں جانا چاہیے۔ مائی لارڈ! ریاست ہے کہاں؟ پاکستانی عوام ایک عرصہ سے ریاست کو تلاش کر رہے ہیں ریاست نہ شاہراہوں پر نظر آتی ہے نہ کسی بازار میں‘ کسی ہسپتال میں نہ کسی سکول میں‘ کسی سرحد پر نہ کہیں اندرون ملک! ریاست ہی کی تو یہاں ڈھنڈیا پڑی ہوئی ہے اور مائی لارڈ فرما رہے ہیں کہ ریاست کو معلوم نہیں کہ بچے کیوں اغوا ہو رہے ہیں؟
اس ملک میں اتنے شہری جنگوں، وبائوں اور زلزلوں میں نہیں مرے جتنے شاہراہوں پر مرتے ہیں۔ ڈمپروں کے نیچے‘ ٹریکٹروں کی زد میں آ کر‘ ٹرالیوں کے خونخوار جبڑوں میں سسک کر! پوری مہذب دنیا میں ٹریکٹر ٹرالیاں ڈمپر''زرعی ٹرانسپورٹ‘‘ کی کیٹیگری میں شمار کیے جاتے ہیں۔ عام شاہراہوں پر آنے اور چلنے کے لیے اس قبیل کی گاڑیوں کو باقاعدہ اجازت لینا پڑتی ہے، مگر پاکستان میں یہ خوفناک قاتل گاڑیاں کھلے عام دندناتی پھرتی ہیں۔ کاروں کے اوپر چڑھ دوڑتی ہیں ہر ماہ درجنوں لوگ کچلے جاتے ہیں، کہاں ہے ریاست ؟ کیا کسی شاہراہ پر‘ کچلے ہوئے لوگوں‘ کھلے ہوئے سروں اور پیٹ سے باہر نکلی انتڑیوں کے دور و نزدیک کبھی ریاست نظر آتی ہے؟
کیا ریاست ہسپتالوں میں دکھائی دیتی ہے! یہ کالم نگار دو دن پہلے دارالحکومت کے سب سے بڑے ہسپتال میں ریاست کو ڈھونڈتا رہا۔ مریضوں سے پوچھا۔ ڈاکٹروں کے خالی کمروں کے باہر کھڑے ہوئے نائب قاصدوں سے معلوم کیا‘ غیر حاضر ڈاکٹروں کے چیختے‘ مریضوں کو ڈانٹتے معاونوں(PA) سے پوچھا‘ کسی کو ریاست کا کچھ پتہ نہ تھا۔ دو رشتہ دار خواتین کو بیرون ملک جانے کے لیے ویزا لینا تھا۔ ویزا لگوانے کے لیے پولیو کے قطرے پینے لازم تھے ساتھ ایک سرٹیفکیٹ چاہیے ہوتا ہے جس پر تصدیق کی جاتی ہے کہ ویزا کے اس امیدوار نے پولیو کے قطرے پی لیے ہیں۔ دارالحکومت اور اس کے قرب و جوار کی بستیوں کے لیے ''قطرہ نوشی‘‘ کا انتظام اس وسیع و عریض ‘ عظیم الجثہ ہسپتال میں کیا گیا ہے۔ سائلوں کو بتایا جاتا ہے کہ آٹھ بجے سے لے کر ڈیڑھ بجے تک یہ سہولت بہم پہنچائی جائے گی۔ ہم آٹھ بجے پہنچ گئے۔ ساڑھے آٹھ بجے تک ہمیں قطرے پلا دیئے گئے۔ پھر ہمیں سرٹیفکیٹ دیے گئے کہ فلاں کمرے میں جائیے اور کوئی ڈاکٹر فلاں صاحب ہیں‘ ان سے ملیے وہ ان تصدیق ناموں پر دستخط کریں گے۔ مذکورہ ڈاکٹر کے پی اے نے کمال بے نیازی سے بتایا کہ وہ تو دس بجے آتے ہیں۔ عرض کیا کہ اس وقت ساڑھے آٹھ ہیں سائلین کو آٹھ بجے کا وقت دیا گیا ہے۔ اب بتایا گیا کہ ایمرجنسی میں دستخط کرنے کے لیے کوئی ڈاکٹر رکھے گئے ہیں جو کمرہ نمبر 16میں بیٹھتے ہیں، ان کے پاس جائیے!
کمرہ نمبر سولہ کی تلاش ایک جانکاہ سفر تھا! سینکڑوں ہزاروں مریض ہسپتال کے برآمدوں‘ دالانوں‘ ڈیوڑھیوں‘ سیڑھیوں ‘ تنگ گزرگاہوں اور پُر پیچ گلیوں میں ریاست کو ڈھونڈ رہے تھے ان میں عصا در دست بوڑھے تھے۔ مفلوک الحال گرتی پڑتی ضعیف عورتیں تھیں۔ زرد پچکے ہوئے گالوں والے تیرہ بخت بچے تھے جن کی پسلیاں کسی کیلکولیٹر کے بغیر گنی جا سکتی تھیں۔ ان سینکڑوں ہزاروں مریضوں میں سے کم بہت کم‘ ان بنچوں پر بیٹھے تھے جن کی تعداد برائے نام تھی اکثریت کھڑی تھی، دیواروں سے ٹیک لگا کر، سیڑھیوں کی ریلنگ کو پکڑے، فرش گندے تھے۔ دیواریں بوسیدہ تھیں ماحول خوفناک تھا اور ڈاکٹر حضرات دس بجے آتے تھے دس بجے بھی ان کے چیختے چنگھاڑتے معاوین (پی اے) کے بقول!
قیامت کے ان منظروں کو دیکھتے ہم تین ضرورت مندوں کا قافلہ کمرہ نمبر سولہ کی دہلیز پر پہنچا۔ کمرہ خالی تھا۔ نائب قاصد سے پوچھا‘ یہاں کوئی ڈاکٹر فلاں صاحب ہیں جو ایمرجنسی میں پولیو کے تصدیق ناموں پر دستخط فرماتے ہیں؟ جی ہاں! اس نے جواب دیا۔ کہاں ہیں؟ وہ ساڑھے دس بجے آئیں گے!اتفاق سے ہسپتال کے ایڈمنسٹریٹر سے ملاقات ہو گئی۔ وہ اپنے دفتر لے گئے انہوں نے بھی متعلقہ ڈاکٹروں کا پتہ کرایا، کوئی بھی نہیں ملا بہر طور کسی نہ کسی طرح انہوں نے ہمارا مسئلہ حل کیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ایڈمنسٹریٹر صاحب چونکہ صبح آٹھ بجے آ جاتے ہیں اور عام آدمی کی مدد کرنا چاہتے ہیں اس لیے ان کے خلاف ہسپتال کا عملہ ہڑتال کرتا رہتا ہے۔ ہم ہسپتال کے ڈاکٹروں کی خدمت میں تجویز پیش کرتے ہیں کہ چونکہ مناسب وقت ہسپتال آنے کا ساڑھے دس بجے ہے اس لیے سب ڈاکٹر مل کر ایڈمنسٹریٹر کے خلاف مقدمہ دائر کریں کہ وہ صبح آٹھ بجے کیوں آ جاتے ہیں۔
کاش وزیر اعظم ایک دن‘ آدھا گھنٹہ دارالحکومت کے اس وسیع و عریض ہسپتال کے لیے بھی نکالتے اور دیکھتے کہ ریاست کی عدم موجودگی میں وزیر اعظم کی رعایا کس عذاب سے گزر رہی ہے جس ملک کے حکمران چھینک سے لے کر بائی پاس تک کا علاج ولایت کے ہسپتالوں میں کرائیں اس ملک کے مریض اس طرح ذلیل و رسوا ہوتے ہیں اور اس ملک میں ڈاکٹر ساڑھے دس بجے کے بعد ہی ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔
آپ ریاست کی تلاش میں بارڈر تک چلے جائیے‘ ریاست کہیں نہیں دکھائی دے گی! ہر روز چالیس پچاس ہزار غیر ملکی دستاویزات کے بغیر در آتے ہیں ریاست کو خبر ہی نہیں! ترنول سے لے کر ٹھوک نیاز بیگ تک‘ بارہ کہو سے لے کر کراچی کے ساحلوں تک‘ ملک پر غیر ملکی قابض ہو چکے ہیں برما کے لوگ مدارس کھول کر بیٹھے ہیں اور غیر ملکیوں کو جعلی پاسپورٹ بنوا کر دے رہے ہیں۔ ریاست؟ کون سی ریاست مائی لارڈ؟
پس نوشت۔ یادش بغیر‘ اسلامی نظریاتی کونسل نے بین الاقوامی معاہدے کی اس شق کو آئین اور شریعت سے متصادم قرار دیا ہے جس کی رو سے انسانی حقوق کی تنظیمیں اغوا شدہ یا غیر قانونی طور پر منتقل ہونے والے بچوں کو اپنی تحویل میں رکھ سکتی ہیں! کونسل نے فرمایا کہ اس قسم کی شقیں اسلامی معاشرے کے لیے قابل قبول نہیں!
ہم بچوں کے لیے اس بے پناہ ہمدردی پر اسلامی نظریاتی کونسل کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ہزاروں لاکھوں بچے جو ریستورانوں میں ننھے منے ہاتھوں سے دیگچے ‘ کڑاہیاں اور تسلے مانجھ رہے ہیں، ورکشاپوں میں گاڑیوں کے نیچے لیٹ کر نرم و نازک انگلیوں سے گراریاں اور نٹ بولٹ ٹھونک رہے ہیں اور راتوں کو درندگی اور سفاکی اور بربریت اور غلاظت کا سامنا کر رہے ہیں ‘ وہ نظریاتی کونسل کو نظر نہیں آ رہے نہ یہ سب کچھ اسلامی معاشرے کے لیے ناقابل قبول ہے۔ مذہب کے نام پر بنی ہوئی درس گاہوں میں بچوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اور مدرسہ مالکان ان بچوں کے نام پر مانگے گئے عطیات سے جس طرح اپنا اور اپنے خاندانوں کا معیار زندگی بلند کیے ہوئے ہیں‘ اس میں بھی غیر اسلامی کچھ نہیں ہے! لاکھوں بچوں کو اپاہج بنا کر ملک میں گداگری کو جس طرح باقاعدہ انڈسٹری کے طور پر قائم کر دیا گیاہے اس پر بھی نظریاتی کونسل کی نظر نہیں پڑی۔ کونسل کا نظریہ یہ لگتا ہے کہ ہمارے بچے‘ خواہ ورکشاپوں میں مریں یا برتن مانجھتے ہوئے‘ یا ان کے بازوئوں ٹانگوں ہاتھوں اور پیروں کوگداگری کے لیے توڑا جائے یا اغوا کیے جائیں یا انہیں بارودی جیکٹیں پہنا دی جائیں ہمارے اپنے بچے ہیں‘ ہم جو چاہیں کریں انسانی حقوق کی کسی تنظیم کو کوئی حق نہیں کہ ان بچوں کو انسانوں کے حقوق دے یا دلوائے! واہ !ایں کار از تو آید و مردان چنیں کنند۔