فرض کیجیے، اُس دن راولپنڈی کا انتظامی سربراہ سرکاری ملازم کے بجائے منتخب ناظم یا میئر ہوتا۔ اسے اطلاع ملتی کہ شہر کے ایک تھانے پر سابق ایم این اے نے دو سو افراد کے ساتھ حملہ کر دیا ہے۔ فرنیچر توڑ دیا ہے۔ ریکارڈ کو نقصان پہنچا ہے۔ ون ویلنگ کے جرم میں جن نوجوانوں کو حوالات میں بند کیا گیا تھا انہیں چھڑا لیا گیا ہے۔
اب دو امکانات ہوتے۔ ایک یہ کہ ناظم اصول پسند ہے، دیانتدار ہے، عوام کا دل کی گہرائیوں سے خادم ہے۔ ایسی صورت میں وہ ایک لمحہ سوچے بغیر حکم دیتا کہ حملہ کرنے والے ملزموں کو ان کی سیاسی وابستگیوں کا لحاظ کیے بغیر گرفتار کر لیا جائے۔ ان کے خلاف پرچہ کاٹا جائے۔ ون ویلنگ کے چھڑائے گئے مجرموں کو دوبارہ پکڑا جائے اور قانون کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں۔ دوسرا امکان یہ تھا کہ ناظم مصلحت کیش سیاست دان ہے، مجرم اسی کی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں مگر اس صورت میں بھی منتخب ناظم یہ کبھی نہ بھولتا کہ اسے اسی شہر میں رہنا ہے۔ آئندہ انتخابات میں حصہ لینا ہے۔ وہ اس انتہا پر کبھی نہ پہنچتا جس پر پولیس کی اعلیٰ کمانڈ پہنچی اور قانون کے دامن کو تار تار کر دیا۔ منتخب ناظم اگر طرفداری بھی کرتا تو کسی طریقے سے، کسی توازن سے۔ گمان غالب یہ ہے کہ وہ حملہ آوروں کے خلاف پرچہ نہ کاٹتا۔ ہو سکتا ہے ون ویلنگ کے مجرموں کو ایک دو دن بعد چھوڑ دیتا مگر ایس ایچ او کو کبھی نہ ہٹاتا۔
چار دن پہلے، راولپنڈی پولیس نے ون ویلنگ کرنے والے سر پھروں کے خلاف مہم چلائی اور قانون شکن نوجوانوں کو حوالات میں بند کر دیا۔ ان میں چند حکومتی پارٹی کے متعلقین بھی تھے۔ حکومتی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک سابق ایم این اے نے دو سوافراد کے ساتھ پولیس سٹیشن پر حملہ کر دیا۔ توڑ پھوڑ کی، سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا، ایس ایچ او کی اتھارٹی کو چیلنج کیا، مجرموں کو زبردستی چھڑایا مگر اس سارے ڈرامے کا ڈراپ سین مضحکہ خیز تھا اور درد ناک بھی۔ اس پر ماتم کیا جانا چاہیے۔ قانون کی بالادستی پر اصرار کرنے والے ایس ایچ او کو اسی رات وہاں سے ہٹا کر لائن حاضر کر دیا گیا۔
یہ کہنا آسان ہے کہ پنڈی پولیس کا انچارج یا پولیس کا صوبائی سربراہ ڈٹ جاتا۔ سیاسی حکمرانوں کا حکم ماننے سے انکار کر دیتا۔ کیا ہو جاتا؟ زیادہ سے زیادہ تبادلہ ہو جاتا۔ معطل کر دیے جاتے۔ مگر یہ سب مفروضے ہیں اور غیر حقیقت پسندانہ مفروضے ہیں۔ درخت گملوں میں نہیں اُگا کرتے۔ اگر باغبان نے ثمردار پودے لگانے ہیں تو زمین تیار کرنا ہو گی۔ آب رسانی کا انتظام کرنا ہو گا۔ نقصان پہنچانے والے کیڑوں اور پرندوں سے بچائو کا بندوبست کرنا ہو گا۔ تب کہیں جا کر درخت پھل دیں گے اور پھل کھائے جانے کے قابل ہوں گے۔ آپ نے پولیس کو مکمل طور پر پابند کر رکھا ہے۔ ایس ایچ او سے لے کر آئی جی تک کیریر پلاننگ کسی کی نہیں۔ ایک ایم این اے یا ایم پی اے کی فون کال پر اسے بستر باندھ کر، بچوں کو سکولوں سے ہٹا کر، پانچ سو میل دور، کسی شہر میں حاضر ہونا ہوتا ہے۔ ایسے میں ایک لاکھ افسروں میں کوئی ایک آدھ ہی ہو گا جو ڈٹ جائے اور صوبائی حکمران سے کہے کہ ''حضور! پولیس کا سربراہ میں ہوں، آپ نہیں، سابق ایم این اے ہے یا حاضر وزیر، تھانے پر حملہ کرنا ریاست کی توہین ہے۔ میں حملہ آوروں کے خلاف مقدمہ کروںگا۔ ون ویلنگ کے مجرموں کو رہا نہیں کروں گا اور ایس ایچ او کو ہٹانے کا تو آپ سوچیے بھی نہیں!‘‘ مگر یہ خواب ہے۔ ہمارے سیاست دانوں نے کارِ سرکار میں اتنی مداخلت کی ہے کہ بیورو کریسی کے حوصلے پست ہو گئے ہیں۔ جس ایس ایچ او کو، جس ایس پی کو، جس ڈی آئی جی کو، جس آئی جی کو، جس ڈپٹی کمشنر کو یہی نہ معلوم ہو کہ وہ اِس منصب پر کتنے عرصہ کے لیے ہے اور اسے یہ ضرور معلوم ہو کہ وہ ایک فون کال کی مار ہے، تو وہ اگر رستم بھی ہو، سہراب بھی ہو، سیاسی حکمرانوں کی حکم عدولی کا حوصلہ نہیں کر سکتا۔
دو سو افراد کے ساتھ تھانے پر حملہ آور ہونے والے سابق ایم این اے کو یہ راز معلوم تھا۔ اُسے پتا تھا کہ اس کا بال بھی بیکا کوئی نہیں کر سکتا۔ اسے معلوم تھا کہ ڈی آئی جی ہو یا آئی جی، حکومتی پارٹی کی ہائی کمانڈ کے سامنے کوئی نہیں کھڑا ہو سکتا۔ حملہ آور سابق ایم این اے کو اپنے غیر قانونی اقدام کا نتیجہ ایک سو ایک فیصد معلوم تھا۔
ترقی یافتہ ملکوں میں پولیس آزاد ہے۔ اس کی ہائی کمانڈ منتخب کونسل کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ بعض ملکوں میں پولیس کا سربراہ براہِ راست منتخب ہوتا ہے۔ ہمارے صوبائی پولیس سربراہوں کی بے بسی پر غور کیجیے کہ وہ سارے فرائض منصبی بالائے طاق رکھ کر اپنے اپنے وزیر اعلیٰ کے ہمراہ دوروں پر ہوتے ہیں۔ پولیس کے صوبائی سربراہ کا وزیر اعلیٰ کے دورے سے کیا تعلق؟ پولیس نے اگر کوئی کارروائی کرنی ہے تو وہ سیاسی حکمران کے کہنے پر نہیںکرتی۔ اس نے اس لیے کرنی ہے کہ یہ اس کا فرض ہے۔ مگر یہ سب کچھ ہمارے ملک میں نہیں ہوتا۔ یہاں انگلی کے ایک اشارے پر کمشنر سے لے کر چیف سیکرٹری تک، ایس پی سے لے کر آئی جی تک، روبوٹ کی طرح دوڑے آئیں گے۔
ظلم کیا ہے سیاسی حکمرانوں نے ضلعی حکومتوں کا خاتمہ کر کے! ملک کو دو سو سال پیچھے لے گئے ہیں سیاسی حکمران۔ ڈپٹی کمشنر اور کمشنر سسٹم کو دوبارہ زندہ کر کے جمہوریت کے مکان میں نقب لگائی گئی۔ جنرل پرویز مشرف کے کئی اقدامات ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے مگر ضلعی ناظم کا ادارہ سماجی ترقی کی طرف بہت بڑا قدم تھا، اسے ختم کر کے عوام کے ساتھ ظلم کیا گیا۔ ملک کو پیچھے دھکیل دیا گیا۔ ہم آج بھی لارڈ کرزن اور ولیم بنٹنگ کے عہد میں جی رہے ہیں۔ آج ضلع کا حاکم ایک سرکاری ملازم ہے۔ اُس کی ترجیحات کیا ہیں؟ ترقی، اچھے شہر میں تعیناتی، سینئر افسروں کی خوشنودی، اپنی ملازمت کی حفاظت۔ اسے اس سے کیا غرض کہ عوام کیا چاہتے ہیں۔ اس کا اس شہر سے، اِس ڈویژن سے تبادلہ ہو گا تو وہ پھر یہاں کا رُخ بھی کبھی نہ کرے گا۔
اس کے مقابلے میں منتخب ناظم کو معلوم ہے کہ اس نے یہیں رہنا ہے، یہیں مرنا ہے، سیاست کرنی ہے۔ اس کے حریف بھی ہیں، حلیف بھی۔ آج اگر وہ پولیس سٹیشن پر حملہ آور سابق ایم این اے کو کھلی چھٹی دیتا ہے تو اپنے سیاسی کیریر کو دائو پر لگا رہا ہے۔ یہ اقدام اس کے مخالفین کے ہاتھ میں ہتھیار ثابت ہو گا۔ اس کی شہرت ایک جانبدار اور ٹوڈی ناظم کی ہوگی۔ اس لیے وہ جھاگ کی طرح بیٹھ نہیں جائے گا۔ پولیس اس واقعہ میں جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ ملزم شادیانے بچاتے کامیابی کے پھریرے لہراتے چلے گئے۔ ریاست کا دفاع کرنے والا ایس ایچ او، سیاسی مصلحتوں پر، بڑوں کی ملازمت بچانے کے لیے، قربان کر دیا گیا۔
جب تک بیورو کریسی حکمرانوں کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی رہے گی، ایسی شرم ناک قانون شکنیاں ہوتی رہیں گی۔ کچھ عرصہ پہلے ایک نوجوان اسسٹنٹ کمشنر کو اس لیے ہٹا دیا گیا کہ وہ ناجائز تجاوزات کے خلاف کامیاب مہم چلا رہا تھا۔ کسی کی دم پر پائوں آیا۔ گھنٹوں کے اندر اندر افسر کا تبادلہ ہو گیا۔ راولپنڈی اور لاہور میں بیٹھے ہوئے اس کے سینئر اس کے لیے کچھ بھی نہ کر سکے۔ کرتے تو انہیں بھی خزاں کے زرد پتوں کی طرح بے رحم ہوا کے سپرد کر دیا جاتا!
ضلعی حکومتیں!
طاقت ور ضلعی حکومتیں!
با اختیار ضلعی حکومتیں!
عوام کے ووٹوں سے وجود میں آنے والی ضلعی حکومتیں، اس کے علاوہ کوئی حل نہیں!
ورنہ تھانوں پر حملے ہوتے رہیں گے۔ ڈٹ جانے والے ایس ایچ او قربان کیے جاتے رہیں گے۔ مجرم تھانے سے نکلتے ہوئے انگلیوں سے فتح کا نشان بناتے رہیں گے۔