ابھی بم ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ ایٹم بم نہ ڈیزی کٹر، لیکن ہلاکت موجود تھی۔
کیا آپ کو معلوم ہے اُس وقت تیر کمان اور بھالوں کا زمانہ تھا؟ اگر معلوم ہے تو یہ بھی جانتے ہوں گے کہ تیر زہر میں بجھے ہوتے تھے! تیروں کا وہ نوکیلا حصّہ جو دشمن کے جسم میں پیوست ہوتا تھا‘ زہر آلود کر لیا جاتا تھا۔ اس قدیم فن میں یوں تو افریقی بھی ماہر تھے‘ مگر اسے باقاعدہ صنعت کا درجہ وسطی اور جنوبی امریکہ کے وحشی قبائل نے دیا تھا۔ آسام، برما اورتھائی لینڈ کے جنگلوں میں رہنے والے نیم وحشی لوگ بھی اس فن میں طاق تھے۔ اس مقصد کے لیے زہر کے ذرائع دو تھے۔ پودے اور جانور۔ زہریلے پودوں کے پتوں اور پھلوں سے زہر حاصل کر کے تیر کے سرے پر لگا دیا جاتا تھا۔ زہریلے مینڈک بھی اس ضمن میں کام آتے تھے۔ کچھ قبیلے زیادہ جدت پسند تھے۔ سانپ یا زہریلی چھپکلی کو قید کر کے ساتھ گوشت رکھ دیتے تھے۔ پھر ''قیدیوں‘‘ کو اتنا زچ کیا جاتا تھا کہ وہ بار بار گوشت کو کاٹتے تھے۔ یوں یہ گوشت زہر سے بھر جاتا تھا۔ اب تیر اس گوشت میں گاڑ دیے جاتے تھے۔ جب زہر تیروں کے نوکیلے سروں میں سرایت کر جاتا تب انہیں لڑائی میں استعمال کرتے تھے۔ یہ زہر اعصابی نظام کو شل کر دیتا تھا۔ خون نہیں بہتا تھا مگر موت واقع ہو جاتی تھی۔
زمانہ اب جدید ہے۔ اکبر الہ آبادی نے ماتم کیا تھا ؎
پانی پینا پڑا ہے پائپ کا
حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا
اب معاملات بہت آگے بڑھ چکے ہیں۔ زہر میں بجھے تیروں‘ بھالوں‘ نیزوں کا زمانہ لد چکا۔ ایٹم بم اور ڈیزی کٹر بھی وقت کی دھول میں اٹ چکے۔ ہلاکت کا جو طریقہ اب رائج ہوا ہے سکندر‘ چنگیز و تیمور ‘ہٹلر اور مسولینی کفِ افسوس مل رہے ہوں گے کہ وہ اس سے محروم رہے۔
زہر میں بجھے تیر دائیں بائیں گر رہے تھے۔ لاشیں تھیں کہ ڈھے رہی تھیں۔ آنکھیں تھیں کہ زہریلے دھوئیں سے بھر گئی تھیں۔ تجزیہ کار ہلاکت بکھیر رہا تھا۔ ظفر علی خان نے کسی ایسے ہی موقع پر کہا ہو گا ع
زلفِ عنبر بار سے کژدم بکھیر اژدر نکال
قیامت خیز ہلاکت‘ ساتھ ہی نو آموز‘ نام نہاد اینکر پرسن‘ مَسیں جس کی بھیگی نہیں تھیں‘ شہ دیے جا رہا تھا۔ بھٹو صاحب نے سیاسی بنیادوں پر بیورو کریسی میں اپنے پسندیدہ نوکر چاکر داخل کیے تھے۔ ٹیکنیکل زبان میں تباہی کے اس عمل کو Lateral Entry کا نام دیا گیا تھا۔ حالانکہ ترقی یافتہ ملکوں میں اس قسم کی انٹری اہلیت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ جس قبیل کے افراد کو افسر شاہی میں داخل کیا گیا‘ انہیں دیکھ کر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ پٹرول پمپوں پر کام کرنے والوں کو لاکر بٹھا دیا گیا۔ اب یہی صورت حال الیکٹرانک میڈیا میں پیش آ رہی ہے۔ چینلوں کی بھر مار ہو گئی ہے۔ گویّے‘ ماہرِ دینیات بن گئے۔ مسخرے سکالر اور پٹرول پمپوں سے آئے ہوئے اینکر پرسن!
تجزیہ کار اور سیہ کار میں فرق ہونا چاہیے‘ مگر بقول انگریزوںکےWho Bothers! ع
کس نمی پرسد کہ بھیّا! کیستی؟
غضب کی کردار کشی‘ زہر میں بجھے ہوئے تیروں کی مدد سے‘ سیاست دانوں کی کی جا رہی تھی۔ مانا سیاست دان بُرے ہیں، کرپٹ ہیں۔ اقربا پروری اور دوست نوازی میں ملوث ہیں۔ تھانوں پر ،کبھی عدالتوں پر حملے کرتے ہیں۔ ڈیروں پر مفروروں کو پناہ دیتے ہیں‘ مگر یہ کہنا کہ سیاست دان ہی کرپٹ ہیں اور پھر یہ دعویٰ کہ نوّے فیصد سیاست دان کرپٹ ہیں‘ مجذوب کی بڑ تو ہو سکتی ہے‘ خدا لگتی نہیں ہو سکتی!
سیاست دان کیا ٹیوبوں میں بھر بھر کر باہر سے لائے گئے اور اس معاشرے میں چھوڑ دیے گئے کہ باقی تو پوتّر ہیں‘ صرف وہی کرپٹ ہیں؟ پورا معاشرہ کرپٹ ہے۔ سیاست دان اس معاشرے کا حصہ ہیں، اس لیے وہ بھی کرپٹ ہیں۔ کرپٹ سیاست دان سے بڑا کرپٹ وہ ووٹر ہے جو اُسے منتخب کر کے کرسی پر بٹھاتا ہے!
انجینئر کم کرپٹ ہیں؟ بدنام ترین شعبے ان کے تصرّف میں ہیں۔ عمارتیں‘ شاہراہیں، پُل بنانے والے!! دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے میں روڈ کے محکمے کو گولڈ کا محکمہ کہا جاتا ہے۔ چند روز پہلے عدالت عظمیٰ نے لاہور کے ترقیاتی ادارے کو ملک کا کرپٹ ترین ادارہ ہونے کا اعزاز دیا۔ واپڈا سے لے کر ریلوے تک‘ انجینئروں نے ہر جگہ تباہی پھیلائی۔ تاجر برادری کم کرپٹ ہے؟ بارہا لکھا جا چکا کہ تاجروں کی اکثریت سات بڑے جرائم میں مبتلا ہے۔ اوِّل: ٹیکس چوری، دوم: ناجائز تجاوزات کی لعنت، سوم: خوراک ‘ ادویات یہاں تک کہ معصوم بچوں کے دودھ میں ملاوٹ‘ چہارم: خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں کرتے جو ہر مہذب معیشت میں جرم ہے، پنجم: شے بیچتے وقت نقص نہیں بتاتے، ششم: ماپ تول میں ڈنڈی مارتے ہیں‘ ہفتم: حکومت کی کوشش کے باوجود توانائی کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ بازار دن کے ایک بجے کھولتے ہیں اور رات گئے بند کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں بازار پانچ بجے شام بند ہو جاتے ہیں(تین جنوری 2013ء کے روزنامہ دنیا میں اس موضوع پر تفصیل سے لکھا جا چکا ہے۔)
ڈاکٹر جنہیںمسیحائی کرنا تھی‘ گلے گلے تک زر اندوزی میں ڈوب گئے۔ ظاہر ہے سب نہیں! فرشتہ صفت بھی انہی میں ہیں۔ مگر اچھی خاصی تعداد مافیا میں بدل چکی! راولپنڈی کا ایک پرائیویٹ ہسپتال گردوں کی تجارت کے لیے بدنام رہا۔ اغوا کیے گئے بچوں کے اعضاء کیا سیاست دان نکال رہے ہیں؟ ظاہر ہے یہ کام سرجن ہی کر سکتا ہے۔سرکاری ہسپتالوں میں خریدی گئی ادویات دوبارہ دوا فروشوں کے پاس پہنچ جاتی ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کو چھوڑیے‘ نجی شعبے کی بات کر کے دیکھ لیجیے۔ جرّاحوں اور طبیبوں میں غیر تحریری سہی‘ باقاعدہ معاہدے ہوتے ہیں کہ ''ہم آپریشن کے لیے مریض تمہارے پاس بھیجیں گے‘ حصّہ ہمارا اتنا ہو گا‘‘۔ ساری دنیا میں جنرک ناموں سے ادویات بکتی ہیں، یہاں ڈاکٹر برانڈڈ ادویات تجویز کرتے ہیں۔ کیوں؟ ثواب کی خاطر؟ اور یہ کیا کسی امام کا فرمان ہے کہ مریض فلاں لیبارٹری ہی میں جائے جہاں اس کا خون ٹیسٹ کے لیے نکالا جائے گا اور باقی چوسا جائے گا؟
اور اُن ادوار کا حساب کون دے گا جب سیاست دان نہیں‘ غاصب آمر حکمران تھے؟ سفید فام حکمرانوں نے جب آسٹریلیا کے مقامی باشندوں سے بچے چھیننے شروع کیے تاکہ انہیں''مہذب‘‘ کیا جائے تو اس وحشیانہ عہد کو''چوری شدہ نسلوں‘‘ یعنی Stolen Generations کا نام دیا گیا۔ ماضی قریب میں آسٹریلوی حکومت نے مقامی باشندوں سے اس ظالمانہ اقدام پر معافی مانگی۔ پاکستانیوں سے ''چھینے گئے حکومتی ادوار'' یعنی مارشل لائوں کی معافی کون مانگے گا! یہ تو جملۂ معترضہ تھا جو درمیان میں آن پڑا۔ سوال یہ ہے کہ کیا آمرانہ ادوار کرپشن سے پاک تھے؟ اگر یہ کہا جائے کہ سیاست دانوں کو کرپٹ کرنے میں ان آمرانہ ادوار کا کردار بنیادی تھا تو غلط نہ ہو گا۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں سیاست دانوں کو فائلیں دکھا دکھا کر ساتھ ملایا گیا۔ اوجڑی کیمپ کا شوشہ کیا تھا؟ ارشاد احمد حقانی مرحوم کی تحریری گواہیاں موجود ہیں کہ سرکاری خزانے سے مردِ مومن مردِ حق کیا سلوک کرتے رہے۔ ماسٹر پلان دارالحکومت کا اسی زمانے میں تباہ و برباد ہوا۔ نوکر شاہی کے خدمت گار ارکان کو نو نو سال، دس دس برس بیرون ملک تعینات رکھا گیا۔ کسی رشتہ دار کو وزیر تو کسی کو سفیر بنایا۔ یہ اُسی زمانے کی بات ہے جب ایک گورنر سمگلنگ کے لیے معروف تھا۔ روایت ہے (دروغ برگردن راوی) کہ مولانا ظفر احمد انصاری مرحوم نے کہ آمر کے دستِ راست تھے‘ سمجھانے کی کوشش کی مگر جواب یہ تھا کہ ''آخر ذاتی وفاداری بھی کوئی شے ہوتی ہے! ‘‘ اور جس شخصیت کو کینیڈا کی حکومت نے سفیر لینے سے انکار کیا تھا، کیا وہ سیاست دان تھی؟ ابھی تو اصغر خان کیس کے فیصلے کی روشنائی بھی خشک نہیں ہوئی!!
سیاست دان ہرگز پاک صاف نہیں! مگر جب کوئی چینل‘ پورے اہتمام و انتظام کے ساتھ سیاست دانوں کی کردار کشی پر باقاعدہ پروگرام کرتا ہے اور کردار کشی کرنے والوں کی نشست کے پیچھے گائو تکیے رکھے جاتے ہیں توکون یہ سوچنے پر مجبور نہ ہوگا کہ دال میں کچھ کالا ہے؟
کرپشن زندگی کے جس شعبے میں بھی ہے‘ قابلِ مذمت ہے۔ تاہم یہ ممکن نہیں کہ صرف ایک شعبہ کرپٹ ہو۔ کیا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ پورے باغ میں خزاں کا راج ہو اور ایک گوشہ ہرا بھرا ہو؟ پورے معاشرے کی فکر کیجیے۔ ووٹ دینے والے نیکو کار ہو جائیں گے تو ووٹ لینے والے بھی باوضو رہنے لگیں گے۔