کیا خوش پوش نوجوان تھا! بادامی رنگ کے خوبصورت اوور کوٹ میں ملبوس۔ کاج میں پھول۔ سر پر ٹیڑھا رکھا ہوا ہیٹ۔ گلے میں سفید ریشمی مفلر۔ ہاتھ میں بید کی فیشنی چھڑی۔ جس دکان میں داخل ہوتا‘ سیلز مین اس کے آگے بچھنے لگتا۔ ہر خالی ٹیکسی اس کے قریب آ کر رکتی۔
ایک تیز رفتار گاڑی نے اسے کچل دیا۔ اب ہسپتال میں نرسیں اُس کی لاش کا معائنہ کر رہی تھیں۔''مفلر کے نیچے نکٹائی اور کالر کیا‘ سرے سے قمیض ہی نہیں تھی۔ اوور کوٹ اتارا گیا تو نیچے سے ایک بہت بوسیدہ اونی سویٹر نکلا جس میں جابجا بڑے بڑے سوراخ تھے۔ ان سوراخوں سے بوسیدہ اور میلا کچیلا بنیان نظر آ رہا تھا۔ نوجوان سلک کے گلو بند کو کچھ اس ڈھب سے گلے پر لپیٹے رکھتا تھا کہ اس کا سارا سینہ چھپا رہتا تھا۔ جسم پر میل کی تہیں بھی خوب چڑھی ہوئی تھیں۔ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کم سے کم پچھلے دو مہینے سے نہیں نہایا۔ البتہ گردن خوب صاف تھی اور اس پر ہلکا ہلکا پائوڈر لگا ہوا تھا... پتلون کو پیٹی کی بجائے ایک پرانی دھجی سے ‘جو شاید کبھی نکٹائی ہو گی ‘ خوب کس کر باندھا گیا تھا۔ بوٹ خوب چمک رہے تھے مگر ایک پائوں کی جراب دوسرے پائوں کی جراب سے بالکل مختلف تھی۔ پھر دونوں جرابیں پھٹی ہوئی بھی تھیں۔ اس قدر کہ ان میں سے نوجوان کی میلی میلی ایڑیاں نظر آ رہی تھیں۔‘‘
یہ غلام عباس کا شہرہء آفاق افسانہ''اوور کوٹ‘‘ ہے! ہماری نئی نسل نے منٹو‘ کرشن چندر‘ بیدی اور عصمت چغتائی کے نام تو سنے ہیں مگر بدقسمتی سے غلام عباس بلیک آئوٹ ہو گئے‘ حالانکہ ان کے دلدادگان میں محمد حسن عسکری اور انتظار حسین جیسے ادیب اور نقاد شامل ہیں۔
غلام عباس1909ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے۔ ''پھول‘‘ اور ''تہذیبِ نسواں‘‘ جیسے تاریخ سازجریدوں کی ادارت کی۔ امتیاز علی تاج کی فرمائش پر ارونگ کے مشہور زمانہ افسانوں ''الحمرا‘‘ کا ترجمہ کیا۔ ایسا ترجمہ جس کی نثر میں انہوں نے ایک خاص آہنگ پیدا کیا۔ غلام عباس کی پہلی بیگم کا نام ذاکرہ تھا۔ دوسری شادی ایک انگریز خاتون سے کی۔ ان کے سب سے بڑے فرزند ڈاکٹر علی سجاد عباس کی وفات 2007ء میں کینیڈا میں ہوئی۔ خود غلام عباس کراچی میں 1982ء میں دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔
ہم جب کہتے ہیں کہ غلام عباس بلیک آئوٹ ہو گئے تو اس سے مراد یہ نہیں کہ وہ گمنام ہیں۔ المیہ یہ ہوا کہ ان کا افسانہ ''آنندی‘‘ اتنا زیادہ مشہور ہوا کہ باقی تخلیقات دب گئیں۔ آنندی کے بعد اوور کوٹ بھی مشہور ہوا۔ آصف فرخی نے افسانوں کا انتخاب کیا‘ جسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے چھاپا۔ ایک انتخاب شہزاد منظر نے بھی کیا‘ مگر افسانوں کے مجموعے ناپید ہی رہے۔
ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ''آنندی‘‘ مکتبہ جدید لاہور نے 1948ء میں شائع کیا۔ ''جاڑے کی چاندنی‘‘ 1960ء میں اور آخری مجموعہ''کن رس‘‘1969ء میں شائع ہوا۔ غلام عباس کی کلیات ترتیب دینے اور چھاپنے کا اعزاز حال ہی میں ایک بھارتی ادیب کو ملا ہے۔ ندیم احمد کلکتہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر ہیں۔ نقاد اور محقق ہیں۔ کلیات غلام عباس جس تہذیب‘ محبت اور دلکشی کے ساتھ ندیم احمد نے شائع کی ہے‘ بے اختیار تحسین کو دل چاہتا ہے۔ اردو ادب کے عشاق کے لیے کیا ہی خوشنما تحفہ ہے!! نامور نقادوں کے مضامین بھی‘ جو غلام عباس پر لکھے گئے‘ شامل کر دیئے گئے ہیں۔ دلچسپ ترین پہلو کتاب کا‘ کتاب کے آخری صفحہ پر سات سطروں کا ایک فارسی نوٹ ہے۔ گئے وقتوں میں‘ نولکشوریا مکتبہ مجتبائی جیسے کلاسیکی پبلشنگ ہائوس کتابیں چھاپتے تھے تو ایسے ہی ٹکڑے دیکھنے کو ملتے تھے۔
''الحمد للہ الخلاق اللوح والقلم کہ ایں کتاب مستطاب موسوم بہ''کلیاتِ غلام عباس‘‘ مِن تالیف بندۂ عاجز بارگاہ ایزدی المشتہر بہ ندیم احمد در اُم البلاد فرخندہ بنیاد شہر کلکتہ انطباع یافت‘‘
اس نوٹ کو دیکھ کر اپنا ایک شعر یاد آ گیا ؎
سبب تالیف کا لکھا‘ سنِ تصنیف ڈالا
زمین پربیٹھ کر فصلیں بنائیں‘ باب رکھے
پاکستان کی جو حالت کر دی گئی ہے‘ اس کی پیش گوئی غلام عباس اپنے افسانوں میں کر گئے تھے۔ مگر لگتا ہے ان کا افسانہ اوور کوٹ آج کے پاکستان پر کچھ زیادہ ہی منطبق ہوتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری حالت اس چھچھورے‘ ظاہری آن بان رکھنے والے نوجوان کی سی ہے جس کے خوبصورت اوور کوٹ کے نیچے بوسیدہ‘ دریدہ سویٹر اور میلا کچیلا بنیان تھا۔ پتلون کی پیٹی کے بجائے کپڑے کی دھجی تھی اور دونوں پیروں میں دو مختلف قسم کی جرابیں۔ بقول ظفر اقبال ؎
ہیں جتنے دائرے نئی ٹی شرٹ پر ظفرؔ
سوراخ اسی قدر ہیں پرانی جراب میں
ہم عالم ِاسلام کی واحد ایٹمی طاقت ہیں۔ مسلم دنیا کی سب سے بڑی اور موثر ترین فوج بھی ہمارے پاس ہے۔ کہنے کو ہمارے ہاں جمہوریت بھی ہے۔ شاہراہوں‘ پُلوں اور میٹرو بسوں پر بھی زور ہے۔ ایوانِ وزیر اعظم اور عدالتِ عظمیٰ کی پُرشکوہ عمارات‘ شاہراہِ دستور کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ ہمارے بیوروکریٹ نفیس سوٹ زیب تن کرتے ہیں اور پائپ منہ میں دبا کر برائون صاحبوں والی انگریزی بھی بولتے ہیں۔ مگر سوچنے پر کبھی کبھی پریشانی ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ کہیں محض اوور کوٹ اور ریشمی مفلر تو نہیں؟ آج ہم مودی کی مذمت کر رہے ہیں کہ اس نے بلوچستان کے بارے میں یاوہ گوئی کی۔ مذمت کرنی بھی چاہیے۔ یہ مذمت ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔ ہمارے اندرونی معاملات کے اندر کسی کو تھوتھنی داخل کرنے کی ضرورت نہیں! مگر کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ بلوچستان کے ساتھ خود ہم نے کیا سلوک کیا؟ کیا وہاں وہ سرداری نظام نہیں رائج جس کی نظیر آج پورے کرۂ ارض پر نہیں ملتی؟ سکولوں اور کالجوں کی عمارات‘ سرداروں کے غلّے کے گودام بنی ہوئی ہیں۔ سرکاری ملازم کو سردار کی پرچی کے بغیر تنخواہ تک نہیں ملتی۔ بگتیوں‘ مریوں‘ رئیسانیوں کے علاقوں میں کتنے کالج بنے؟ کتنی یونیورسٹیاں قائم ہوئیں؟ کیا اس حقیقت سے کوئی انکار کر سکتا ہے کہ عام بلوچی ہزار سال پرانے طرز کی زندگی گزار رہا ہے؟ ستر سال میں صرف ایک غیر سردار چیف منسٹربنا اسے بھی ایک سردار کے لیے کرسی چھوڑنا پڑی۔
اوور کوٹ اور ریشمی گلو بند کے نیچے جو حالت ہے اس کا اندازہ سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کے اس حالیہ بیان سے کیا جا سکتا ہے کہ کوئٹہ شہر میں اس وقت افغان اکثریت میں اور پاکستانی اقلیت میں ہیں۔ بے بسی‘ انارکی اور نا اہلی کا اندازہ اس سے لگائیے کہ دارالحکومت کی فروٹ منڈی کابل کا محلّہ لگتی ہے۔
ستر سال ہونے کو ہیں‘ وزیرستان میں‘ مہمندوں‘ آفریدیوں اور شنواریوں کے علاقوں میں کتنی ترقی ہوئی؟ کارخانے نہ زراعت کی جدید مشینیں‘ نہ تعلیمی ادارے!! پھر ان پر سمگلنگ کا الزام ! غلام اسحاق خان نے کیا خوب نکتہ نکالا تھا کہ باڑہ مارکیٹوں میں خریداری کرنے والے کہاں سے آتے ہیں اور کون ہیں؟
سوراخوں والی سویٹر اور میل سے بھری ہوئی بنیان کا اندازہ اس سے لگائیے کہ حکومتی پارٹی کا اعلیٰ عہدیدار‘ سابق ایم این اے‘ میٹرو بس منصوبے کا انچارج‘ سینکڑوں افراد کے ساتھ تھانے پر حملے کرتا ہے اور سزا کس کو ملتی ہے؟ تھانیدار کو؟ صوبائی حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ وزیر اعلیٰ کو جیسے اس اتنی بڑی بغاوت کی خبر ہی نہیں؟! پولیس والے خود ہی انکوائریاںکرتے پھرتے ہیں۔ قہرِ درویش بر جانِ درویش! ریاست کی شلوار تو خاردار درخت پر لٹک ہی چکی!!
جورابوں سے ایڑیاں نظر آ رہی ہیں۔ نیب سر پیٹ رہی ہے کہ وفاقی محتسب نے (جو احتساب کرتا ہے!)ایسے ایسے ریٹائرڈ افراد کو احتساب کے لیے تعینات کیا ہے جن پر کرپشن کے مقدمے چل رہے ہیں۔ پچاس کے لگ بھگ ریٹائرڈ افسران قومی خزانے کو ہر ماہ لاکھوں کا انجیکشن لگا رہے ہیں۔ سب کو ذاتی تعلقات کی بنیاد پر رکھا گیا‘ جب آپ ادارے کا سربراہ ایسے شخص کو لگائیں گے جس کا اپنا حساب کتاب مشکوک ہے اور جو ملک سے فرار ہو گیا تھا تو وہ اسی قسم کا ''احتساب‘‘ کرے گا! جبکہ قانون کی رُو سے وفاقی محتسب کے فیصلے حکومتی اداروں کے لیے محض سفارش کا درجہ رکھتے ہیں۔Mandatory(لازم) بھی نہیں!!
اور یہ بھی سُن لیجیے۔ اوورکوٹ کی مختلف جیبوں سے کیا نکلا تھا۔ ''ایک چھوٹی سی سیاہ کنگھی۔ ایک رومال۔ ساڑھے چھ آنے۔ ایک بجھا ہوا آدھا سگریٹ۔ ایک چھوٹی سی ڈائری جس میں لوگوں کے نام اور پتے لکھے تھے۔ اور کچھ اشتہار جو مٹر گشت کے دوران اشتہار بانٹنے والوں نے اس کے ہاتھ میں تھما دیے تھے اور اس نے اوور کوٹ کی جیب میں ڈال لیے تھے!‘‘
اور ہاں! بید کی چھڑی حادثے کے دوران گم ہو گئی تھیٖ! یہ گم شدہ چھڑی کہیں وزیر خارجہ تو نہیں جسے ایک عرصہ سے قوم تلاش کر رہی ہے؟