وہ زندہ تھا۔ مگر لاش تھا!
سانس چل رہی تھی۔ سیال غذا ٹیوب کے ذریعے معدے تک پہنچ رہی تھی۔ بیڈ کے ساتھ پلاسٹک کا بیگ لٹک رہا تھا اس میں بھی ٹیوب لگی تھی۔ ٹیوب کا دوسرا سرا مثانے تک جا رہا تھا۔ پیشاب اس بیگ میں جمع ہوتا رہتا ۔ نرسیں آتیں اور بیگ بدل جاتیں۔
لواحقین دیکھ بھال میں کمی کوئی نہیں رہنے دے رہے تھے۔ حجام دوسرے تیسرے دن آتا زندہ لاش کا شیو کرتا۔ کمرے کو صاف ستھرا رکھا جاتا۔ بڑا ڈاکٹر ہر روز آتا ساتھ تین چار جونیئر ڈاکٹر ہوتے اور پیرا میڈیکل سٹاف بھی! ... جلوس کی شکل کا یہ ''رائونڈ‘‘ دس گیارہ بجے کے لگ بھگ ہوتا۔ اس سے پہلے لواحقین کو باہر نکال دیا جاتا۔ زندہ لاش کے تیمار دار‘ مگر موجود رہتے۔ سپیشل کیس کے طور پر‘ سٹاف انہیں باہر جانے کے لیے نہ کہتا۔
بڑا ڈاکٹر آنکھوں کے پپوٹوں کو اٹھا کر دیکھتا۔ پھر نبض پر ہاتھ رکھتا۔ دستانے میں چھپا ہاتھ مریض کے ہونٹوں اور ناک پر رکھتا۔ کبھی کبھی پنڈلیوں کی رگوں پر انگلیاں رکھ کر دیکھتا۔ پھر سینئر نرس کے ہاتھوں سے فائل لیتا۔ کاغذات الٹتا پلٹتا۔ بلڈ پریشر اور دل کی رفتار کا چارٹ ملاحظہ کرتا۔ پھر لواحقین کو دیکھ کر ذرا سا مسکراتا اور جلوس کے جلو میں‘ متانت کے ساتھ قدم رکھتا‘ اگلے مریض کی طرف چل پڑتا۔
یہ روٹین کئی سالوں سے چل رہا تھا۔ کوئی اسے غشی کا نام دیتا‘ کوئی بے ہوشی کا! کوئی کہتا مریض کومے میں ہے۔ کوئی دعا کرتا کہ خدا آسانی پیدا کرے۔
تلخ حقیقت یہ تھی کہ لواحقین اس طویل آزمائش سے اکتا چکے تھے۔ آزمائش تھی اور بہت کٹھن ! جانکاہ آزمائش ! مریض وینٹی لیٹر پر زندہ تھا مگر سب سوچتے تھے کہ یہ زندگی‘ اگر زندگی تھی تو ‘ کب تک رہے گی؟ ڈاکٹروں کی رائے میں مریض طبی نکتۂ نظر سے (Clinically)مردہ ہو چکا تھا۔ دُہری مشکل یہ تھی کہ لواحقین وینٹی لیٹر ہٹانے کا نہیں کہہ سکتے تھے تاہم وہ اس امید میں تھے کہ ڈاکٹر خود وینٹی لیٹر ہٹا کر‘ ان کی مشکل آسان کریں گے ایسی صورت میں انہیں دُکھ تو ہو گا۔ موت آخر موت ہے‘ مگر یہ نجات‘ یہ ریلیف ‘ اُن کی زندگیوں کو‘ جو تیمار داری کی طویل اذیت سے کربِ مسلسل میں بدل چکی تھیں‘ دوبارہ معمول پر لا سکے گا!
خدائے بزرگ و برتر الطاف حسین کو صحت عطا کرے۔ عمر خضر دے! الطاف حسین کی سیاست‘ الطاف حسین کی پارٹی کمانڈ‘ الطاف حسین کا ''قائد‘‘ ہونا سب کچھ طویل عرصہ سے کومے میں ہے اس پر غشی طاری ہے۔ ایم کیو ایم میں شامل متین حضرات نے اس وینٹی لیٹر کو اسی دن دیکھ لیا تھا جس دن الطاف حسین تقریر کے دوران مسخروں کی طرح گانے گاتا تھا اور کلائون بن کر الٹی سیدھی حرکتیں کرتا تھا!
اس کے لواحقین‘ یہ فاروق ستار‘ یہ رابطہ کمیٹی‘ یہ ایگزیکٹو کونسل‘ سب اس انتظار میں ہیں کہ کوئی وینٹی لیٹر ہٹائے اور ان کی تکلیف دہ زندگیوں میں سکون ایک بار پھر داخل ہو سکے۔ یہ وینٹی لیٹر کون ہٹاتا ہے؟ ابھی تک کسی کو نہیں معلوم! برطانوی حکومت یا کوئی اور!مگر سچ یہ ہے کہ لواحقین اپنے منہ سے کچھ نہیں کہہ رہے۔ ہاں پریشان ہیں۔ وہ نجات چاہتے ہیں سیاست کی اس زندہ لاش سے‘ سر پہ لٹکتی ہوئی اس تلوار سے باہر نکلنے کا ایک باعزت راستہ۔
بخدا ایم کیو ایم کی غالب اکثریت ‘ننانوے فیصد ارکان پاکستان کے بارے میں اپنے ''قائد‘‘ کے خرافات سن سن کر تنگ آ چکے ہیں۔ نکّو نک ہو چکے ہیں! مگر پیش منظر ایسا ہے کہ وہ کچھ کر نہیں سکتے!
پیش منظر کیا ہے؟ یہ پیش منظر جبر سے اٹا پڑا ہے! ہم ان صفحات پر لکھ چکے ہیں کہ ایم کیو ایم‘ کسی ضیاء کی پیداوار نہیں تھی! جنرل ضیاء الحق کے بجائے کسی اور کا عہد ہوتا تب بھی اردو بولنے والوں کو ایک پلیٹ فارم پر‘ ایک فورم پراکٹھا ہونا پڑتا۔ ماتم اس بات کا کرنا چاہیے کہ لسانی اور نسلی بنیادوں پر جماعتیں پہلے دوسروں نے بنائیں‘ اردو بولنے والے تو اپنے آپ کو پاکستانی ہی کہتے رہے۔ پہلے سندھ‘ بلوچستان اور کے پی میں زبان کی بنیاد پر سیاسی طائفے بنے۔ ولی خان اور اسفندیار پارٹی جماعت خالص لسانی بنیادوں پر قائم ہے! اس حقیقت کو ایک بار پھر دہرا دینا چاہیے کہ کراچی یونیورسٹی میں لسانی‘ نسلی اور علاقائی بیساکھیوں پر دس سے زائد(غالباً پندرہ کے قریب) طلبہ تنظیمیں قائم ہو چکی تھیں‘ ان میں سے اردو بولنے والے طلبہ کو کوئی بھی قبول نہیں کرتا تھا۔ یہ سب Sons of Soilتھے۔ اس پس منظر میں آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس یونین بنی! کراچی کو سندھی وڈیروں نے جاگیر بنا رکھا تھا۔ خوفناک مونچھوں والے یہ جاگیردار‘ پجارو کے جلوس میں کراچی کی شاہراہوں پر دادِ جہالت دیتے‘ درجنوں کلاشنکوف بردار گارڈز کی مونچھیں‘ مالکوں کی مونچھوں سے بھی زیادہ غیر انسانی ہوتیں! اردو بولنے والے متین‘ سوبر‘ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی یہ وڈیرے تضحیک کرتے اور جہاں موقع ملتا‘ ان کے چیمپنزی نما گارڈز زدو کوب بھی کر جاتے۔
بگتی ‘مینگل‘ جتوئی‘ مخدوم ‘ دارالحکومت میں آتے تھے تو سو سو اسلحہ برداروں کے جلوس ہوتے‘ پھر کیا بُرا کیا الطاف حسین نے اگر اس نے دیوار کی طرف دھکیلے جانے والے گروہ سے کہا کہ وی سی آر اور ٹیلی ویژن بیچو اور بندوق خریدو! ہاں یہ سچ ہے کہ سیکٹر کمانڈر اپنے نوجوانوں کو نوکری دلوانے کے لیے کمپنیوں اور محکموں کے سربراہوں کو دھمکی آمیز خط لکھتے تھے مگر یہ ردِّ عمل تھا اُن چٹوں کا جو انٹرویو کے دوران سندھی افسروں اور سندھی سیاست دانوں کی جیبوں سے درجنوں کی تعداد میں برآمد ہوتی تھیں!
آج بھی الطاف حسین کے لواحقین اسی جبر کا‘ اسی صورتِ حال کا سامنا کر رہے ہیں۔ لالو کھیت میں رہنے والا اردو سپیکنگ نوجوان‘ پیپلز پارٹی یا نون لیگ میں نہیں جا سکتا۔ وہ لاڑکانے کا ہے نہ خیر پور کا۔ لاہور کا ہے نہ سیالکوٹ کا جاٹ ہے نہ کشمیری! اسے ایم کیو ایم کے علاوہ کون قبول کرے گا؟ یوں بھی کراچی کے لوگ اتنے خوش بخت نہیں جتنے وسطی پنجاب کے۔
ساری دنیا کا دستور ہے کہ BOT(بِلڈ آپریٹ اور ٹرانسفر) کی بنیاد پر تعمیر ہونے والے منصوبوں میں سرمایہ کاری صرف اور صرف ٹھیکیدار کرتا ہے مگر منصوبہ اگر وسطی پنجاب میں ہو تو یہ اصول منسوخ ہو جاتا ہے۔53فیصد مالی بوجھ حکومت برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ حکومت یہ بوجھ کیسے اٹھاتی ہے؟ اُس خزانے سے جسے بھرنے والوں میں کراچی کوئٹہ پشاور اور راولپنڈی کے (سوتیلے) عوام بھی شامل ہیں!
وینٹی لیٹر ہٹنے کی دیر ہے! سارا منظر بدل جائے گا! سب کچھ تبدیل ہو جائے گا۔ خوف سے لرزہ براندام محتاط زبانیں کُھل کر بات کرنے لگیں گی! یہ وضعداریاں‘ یہ وفاداریوں کا اظہار‘ یہ''قائد‘‘ قائد‘ کی تکرار‘ یہ سب چند دن کا کھیل ہے! ایم کیو ایم میں خرو شچیف بن کر کون آئے گا؟ یہ تو نہیں معلوم! مگر یہ سب کو معلوم ہے کہ سٹالن نے جانا ہی جانا ہے ؎
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی