امریکہ میں رہتے ہوئے بابر غوری کو کس چیز کا خوف تھا؟ الطاف حسین جب اس پر غرایا کہ پاکستان زندہ باد کیوں کہا تو وہ سہم گیا۔کیوں؟ پھر اس نے(میرے منہ میں خاک) پاکستان مردہ باد کہا، اس کی حالت اس بکرے کی سی تھی جسے قصاب پکڑ کر مذبح کی طرف لے جا رہا ہو۔
ہر کوئی حیران ہے کہ اب جب ''بھائی‘‘ کی وحشت و بربریت کا زور کراچی میں بھی ٹوٹ چکا ہے تو بابر غوری قبیل کے لوگ امریکہ رہ کر کیوں لرزہ براندام ہیں؟
اس لیے کہ الطاف حسین ان کا(نعوذباللہ) پروردگار تھا۔ یہ جو امریکہ اور کینیڈا میں چند سو افراد اور ان کے خاندان بہترین شہروں کے گراں بہا محلوں میں رہ رہے ہیں، یہ الطاف حسین کی وجہ سے ہے۔ اگر کوئی ریستوران میں کسی زمانے میں ویٹر تھا اور اب امریکہ میں اس کے سو سے زیادہ پٹرول پمپ ہیں تو اسے ڈر ہے کہ الطاف حسین یہ کہہ نہ دے کہ ''ابے! تیری حیثیت کیا تھی؟ تجھے میں نے بنایا، تجھے میں نے وزارتیں دلوائیں جن میں تو نے من مانی کی۔ میری وجہ ہی سے تو تُو لوٹ مار کرتا رہا۔ اتنی کہ آج امریکہ میں سیٹھ بنا پھرتا ہے۔ تیری یہ مجال کہ پاکستان زندہ باد کہے؟‘‘
ان لوگوں کا اوڑھنا بچھونا دولت تھی۔ دولت بٹورنے میں الطاف حسین کا دستِ شفقت سر پر رہا۔ مفادات انسان کو بزدل بنا دیتے ہیں۔ پھر جو تجوری لوٹ مار سے بھری ہو، اس کی حفاظت بھی زیادہ کرنا پڑتی ہے۔ جون ایلیا فقیر تھا۔ یہ لوگ اسے مشاعرے سے اٹھا کر لے گئے۔ زدو کوب کیا۔ وہ پھر بھی نہ ڈرا۔ برملا افسوس کرتا تھا کہ جن لوگوں کے ہاں سلیمان ندوی، شبلی اور محمد علی جوہر جیسے نابغے پیدا ہوتے تھے، وہ اب جاوید لنگڑا، اجمل پہاڑی، فلاں ٹنڈا اور فلاں کمانڈر پیدا کر رہے ہیں! مگر بات یہ ہے کہ جون ایلیا کے مفادات نہ تھے۔ اس کے Stakesنہیں تھے۔ اس نے کون سی وائس چانسلری لینی تھی اور پھر اس وائس چانسلری کو کون سا آٹھ نو سال بچانا تھا کہ ''بھائی‘‘ کی ٹیلی فونک تقریر کے سامنے بُزِ اخفش بن کر بیٹھ جاتا۔ پھر جون ایلیا شاعر بھی تیسرے درجے کا نہ تھا کہ پوری دنیا میں صرف لسانی گروہ کے جوڑ توڑ کی وجہ سے بلایا جاتا اور نسوانی ترنم سے نام نہاد شاگردوں کو محظوظ کرتا پھرتا۔
کراچی میں جب پاکستان کو ناسور کہا گیا اور(نقلِ کفر کفر نہ باشد) مردہ باد کے نعرے لگائے گئے تو کیا یہ مناسب نہ تھا کہ کراچی کے شاعر، ادیب، دانشور ایک بیان میں اس ناپاک جسارت کی مذمت کرتے؟ زندہ باد کا نعرہ لگاتے اور وطن دشمن عناصر سے لاتعلقی کا اظہار کرتے؟
اس میں کیا شک ہے کہ اس دریدہ دہنی سے ان کے دلوں میں زخم ضرور پڑا ہو گا۔ اس لیے کہ کراچی پاکستان ہے اور پاکستان کراچی، حب الوطنی کے سارے سوتے کراچی سے پھوٹتے ہیں! کراچی قائد اعظم کا شہر ہے۔ سب جانتے ہیں کہ کراچی کے اہلِ دانش پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ سحر انصاری، شاداب احسانی، انور شعور، آصف فرخی، شوکت عابد، جاذب قریشی، رسا چغتائی، فاطمہ حسن، سلیم کوثر، عقیل عباس جعفری، شاہدہ حسن، کاشف حسین غائر، لیاقت علی عاصم، مبین مرزا، اجمل سراج، رئوف پارکھ(اور کئی دوسرے دانشوروں) سے زیادہ کون محبِ وطن ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے ان بیٹوں اور بیٹیوں کو کسی سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت بھی نہیں۔ یہ تو شہر کے ادبی محافظ ہیں۔ وہی شہر جہاں بوڑھا جمیل الدین عالی، آخری سانسوں تک جیوے جیوے پاکستان گاتا رہا۔ جس شہر سے 1965ء کی جنگ کے دوران ولولہ انگیز قومی نغمے ابھرے، جہاں سے محشر بدایونی کا نغمہ ''اپنی قوت اپنی جان‘‘ نکلا اور پاکستانی پرچم پر ثبت ہو کر افق سے افق تک چھا گیا، جہاں صہبا اختر نے بے مثال ملی نظمیں کہیں اور سنائیں۔ جہاں سلیم احمد اور قمر جمیل جیسے ادیب اور ادیب گر تھے، جن کے جسم کی رگوں میں، رگوں کے بہتے خون میں، ہڈیوں میں، ہڈیوں کے اندر بھرے گودے میں پاکستان کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ اگر اس شہر کے ادیب اور دانشور کسی دہنِ غلیظ کو پاکستان کے خلاف زہر اگلتا دیکھیں، گالیاں دیتے سنیں اور پھر بھی خاموش رہیں تو یقینا یہ دُکھ کی بات ہے۔
رہے وہ ادارے جن کے ہاتھ میں پالیسی سازی ہے اور قوتِ نافذہ ہے، تو ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ جوش کی نہیں ہوش کی ضرورت ہے۔ جس طرح خواتین کی پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے، اس سے خدانخواستہ گمان گزرتا ہے کہ فیصلے گہرائی اور گیرائی میں نہیں ہو رہے۔ یہ حقیقت تمام متعلقہ حلقوں کو معلوم ہونی چاہیے کہ الطاف حسین کے پاکستان دشمن اور بھارت نواز رویے سے کراچی کے شہریوں بالخصوص ایم کیو ایم کے عام ارکان کا دور دور سے کوئی تعلق نہیں، اگر الطاف حسین کا دستِ راست لندن میں ایک ایسا شخص تھا جو پاکستانی ہی نہیں تھا اور اوّل آخر بھارتی تھا تو اس میں ایم کیو ایم کے عام رکن کا کیا قصور ہے؟
اور بھارت کیا چاہتا ہے؟ یہی کہ الطاف حسین جو کچھ کر رہا ہے، پاکستانی ادارے اس کا غصہ عام شہریوں پر نکالیں۔ عوام دیوار کے ساتھ لگ جائیں۔ بدگمانیاں پیدا ہوں۔ غلط فہمیاں پھیلیں اور فضا مسموم ہو جائے۔ عقل مندی کا تقاضا ہے کہ ایسا ہرگز نہ ہونے دیا جائے۔ یہ جو کچھ حضرات مسلسل ہتھوڑے کی ضرب لگا رہے ہیں کہ فاروق ستار درمیان میں کیوں کھڑے ہیں، آر ہو جائیں یا پار تو یہ کوئی پانی پت کا میدان تھوڑی ہی ہے کہ صف آرائیاں کی جائیں۔ جو شخص کئی عشروں تک سیاہ و سفید کا مالک رہا، اس کے بارے میں فاروق ستار کا یہ تک کہہ دینا کہ اس سے تعلق ختم کر چکے ہیں اور اپنے فیصلے خود کریں گے، لمحۂ موجود میں بڑی بات ہے۔
کراچی سے شکوہ کرنے والوں کو یہ بھی یاد دلانا ضروری ہے کہ حب الوطنی کی توقع ضعیفوں اور کمزوروں ہی سے نہیں، طاقت وروں سے بھی کرنی چاہیے۔ الطاف حسین نے جب بھارت میں اعلان کیا تھا کہ پاکستان کا قیام حماقت تھی تو پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی حکومتی تھی۔ یہ حکومت محض حکومت نہیں تھی، آمریت کے نوکدار سینگ لگائے، بدنما دانت نکالے، عفریت کی طرح قوم کی گردن پر سوار تھی۔ بجائے اس کے کہ یا وہ گوئی کا نوٹس لیا جاتا، ''سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا ڈھول پیٹنے والے جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کے سفارت خانے کو حکم دیا کہ غدار کے اعزاز میں سرکاری ضیافت ترتیب دی جائے۔ اس الطاف نوازی کا حساب کون لے گا؟ اور کون دے گا؟ اُس وقت مسلم لیگ قاف جرنیل کی وردی کو دن میں تین بار استری کرتی تھی اور دس بار جرنیل کو منتخب کرانے کا اعلان ڈنکے کی چوٹ پر کرتی تھی۔ اُس کی حب الوطنی کہاں سو رہی تھی؟ مسلم لیگ قاف نے اس تقریر کے خلاف احتجاج کیوں نہ کیا؟
ابھی بہت کچھ واضح نہیں ہے۔ دھند گہری ہے۔ جو کچھ نظر آ رہا ہے، اصل نہیں۔ جو دکھائی نہیں دے رہا، اُس کی فکر کسی کو نہیں۔ رات سفید ہے اور دن سیاہ! ایک بڑی خوبصورت دعا ان الفاظ میں منقول ہے'' اے خدا! مجھے چیزیں اس طرح دکھا جیسے وہ اصل میں ہیں، اس طرح نہیں جیسے نظر آ رہی ہیں‘‘ ؎
نظر آتا ہے جو کچھ اصل میں ایسا نہیں ہے
مگر تم نے مری جاں! مسئلہ سمجھا نہیں ہے