اوقات

دو سال اور زندہ رہتا تو وہ پورے ستر سال کا ہو جاتا۔
مگر امیر تیمور اُن لوگوں میں سے نہیں تھا جو عمر کی طوالت کی خواہش رکھتے ہیں۔
68 برس کی عمر میں اس نے چین کی تسخیر کا منصوبہ بنایا۔ یہ وہ عمر ہے جس میں انسانوں کی اکثریت مُصلّے پر بیٹھ جاتی ہے یا چارپائی پر دراز ہو جاتی ہے۔ مصلّے پر اس لیے کہ دنیا سے خود کنارہ کش نہیں ہوتے، یہ دنیا ہے جو انہیں ریٹائر کر دیتی ہے۔ پھر وہ سر پر سوراخوں والی ٹوپی پہن کر ہاتھ میں تسبیح پکڑ لیتے ہیں اور خدا کو نہیں، اُس دنیا کو یاد کرتے ہیں جس نے انہیں گھر بھیج دیا۔
تیمور ایسا نہیں تھا، اس لیے کہ ابھی کئی سلطنتوں نے اس کی آل اولاد سے پھوٹنا تھا۔ وقت کی تقویم نے اُسے انیسویں صدی میں نہیں، چودھویں صدی میں پیدا کیا تھا۔ دہلی سے ماسکو تک اس نے منزلیں سر کیں۔ سلطنت عثمانیہ کو خاک چٹوائی، پورے شرق اوسط کو، پورے ایشیائے کو چک کو پیروں تلے روندا اور اب 68 برس کا بوڑھا چین فتح کرنے کی تیاری کرنے لگا۔ بہادری عمر سے نہیں ہوتی، اس کے لیے حوصلہ چاہیے۔ حوصلہ کسے کہتے ہیں؟ اللہ کے بندو! حوصلہ کا لغوی معنی پوٹہ کے ہیں۔ وہ ذرا سا معدہ جو پرندے کے حلق کے نیچے ہوتا ہے۔ جس میں وہ چگے ہوئے دانے ذخیرہ کرتا ہے۔ مرغی کو ذبح کرنے کے بعد اس کے حوصلہ (پوٹہ) میں یہ ذخیرہ شدہ دانے دیکھے جا سکتے ہیں۔ بہادری اس حوصلہ سے عبارت ہے۔ تیمور کا حوصلہ بڑا تھا۔ اس نے عزم کر لیا کہ چین کی مِنگ سلطنت کو تہس نہس کر دے گا۔ اس نے ان کے سفیر کو پا بجولاں کر لیا۔ پھر روانہ ہو گیا۔ مگر سیرِِ دریا کے اُس دوسرے کنارے موت کا پرندہ اُس کے سرخ خیمے میں پروں کو پھڑ پھڑاتا، اندر آیا اور اس کی روح کو لے کر، پروں کو پھڑ پھڑاتا، نکل گیا۔ یہ فاراب تھا۔ سمرقند سے کوسوں دُور! موت یہیں لکھی تھی۔
تیمور اپنی آل کو دنیا کے مختلف حصوں میں سلطنتیں دے گیا۔ اسی بلند حوصلہ تیمور کا ایک بیٹا بہادر شاہ ظفر بھی تھا جس کو میرِ سپاہ بنانے کے لیے 1857ء میں پورے شمالی ہند کے ہندوئوں اور مسلمانوں نے آرزُو کی۔ کئی جتن کیے، مگر مسئلہ حوصلے کا تھا۔ پوٹہ بہادر شاہ ظفر کا چھوٹا تھا۔ اُس نے تاج سر پر رکھا۔ رنگین مخمل کا چُغہ، جسے وسط ایشیا میں آج بھی چپان کہا جاتا ہے اور جو ٹخنوں تک ہوتا ہے، زیبِ تن کیا اور اپنے آپ کو ایک ادنیٰ رینک کے برطانوی افسر کے سپرد کر دیا۔ یہ مرحلہ زوال کا ناگزیر ہے۔ سلطنتیں اپنی طبعی عمر کو پہنچتی ہیں۔ عصا دردست ہو جاتی ہیں۔ بینائی کھو بیٹھتی ہیں۔ پھر پائوں قبر میں لٹکا کر، فنا کا انتظار کرتی ہیں۔ آخری ہچکی لیتی ہیں تو ان کی طرف دیکھنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا کہ آنکھیں بند کر کے ناک میں روئی ہی ٹھونس دے۔
اِسی مرحلہ وار زوال کو سیاسی جماعتوں پر منطبق کر دیجیے۔ مسلم لیگ سب سے بڑی مثال ہے۔ کہاں محمد علی جناح۔۔۔ اور پھر کہاں چھوٹے قد و قامت کے جانشین جو خُرد بین سے بھی نہ دیکھے جا سکیں۔ پیپلزپارٹی، جس کا بانی اور سربراہ زندان میں بھی کتابیں پڑھتا اور کتابیں لکھتا رہا۔ سارے عیب اس میں موجود تھے جو مطلق العنان بادشاہوں میں ہوتے ہیں۔ مگر بات استعداد کی، وژن کی اور حوصلہ کی ہو رہی ہے۔ پھر یہی پارٹی جن کے ہاتھوں میں پہنچی انہوں نے بولیاں لگوائیں۔
پرسوں ایک سیاسی مذہبی رہنما نے خالص لسانی بنیادوں پر ایک اجلاس بلایا۔ اس میں صرف وہ لیڈر مدعو تھے جو بقول میڈیا ''پختون قائدین‘‘ تھے۔ اس اجلاس میں کوئی غیر پختون رہنما نہ تھا۔ مسئلہ افغان مہاجرین کا تھا۔ مطالبہ کیا گیا کہ افغان مہاجرین کو 2021ء تک پاکستان ہی میں رہنے دیا جائے۔ یہ کہ انہیں تنگ نہ کیا جائے۔ یہ کہ ان کی جائیدادوں کی فروخت کے لیے مربوط نظام مرتب کیا جائے۔ یہ کہ ''پشتونوں‘‘ کے شناختی کارڈ بلاک کیوں کیے جا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مگر دلچسپ ترین نکتہ لسانی بنیادوں پر اکٹھے کیے گئے اِن قائدین کا یہ تھا کہ افغانستان سے اچھے تعلقات نہیں ہیں تو اس کا سبب ہماری پالیسیاں ہیں! گویا افغانستان فرشتہ ہے! سارا قصور پاکستان کا ہے!
بچہ بھی جانتا ہے اور ذہنی امراض کے ہسپتال میں جو پاگل زنجیروں میں بندھا ہے، اُسے بھی معلوم ہے کہ اصل معاملہ کیا ہے۔ کس کے اثر و نفوذ سے افغانوں کو شناختی کارڈ ملے؟ وہ کس کے ووٹر بنے؟ شناختی کارڈ پختونوں کے نہیں، افغانوں کے بلاک کیے جا رہے ہیں۔ ان قائدین کی پاکستان سے وابستگی کی گہرائی ملاحظہ ہو، افغان مہاجرین نے جب جائیدادیں خریدیں تو یہ چُپ رہے۔ اب فروخت ہونی ہیں تو یہ ''مربوط نظام‘‘ چاہتے ہیں۔ لطیفہ یہ ہے کہ افغان مہاجرین پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ کراچی، لاہور، ملتان سے لے کر مری اور راولپنڈی تک۔ مگر اجلاس میں صرف ''پختون قائدین‘‘ کو زحمت دی گئی۔
تا ہم یہ ہمارا موضوع نہیں۔ موضوع زوال ہے۔ سلطنتوں کا زوال اور سیاسی جماعتوں کا زوال ہے۔ اس اجلاس میں، جو خالص لسانی بنیاد پر بلایا گیا تھا، سید ابوالاعلیٰ مودودی کے جانشین بھی شریک تھے۔ محمود خان اچکزئی کے ساتھ، کندھے سے کندھا ملائے۔
تصور کیجیے، ابوالاعلیٰ مودودی کی شخصیت کا اور ذہنی وسعت کا جو پاکستان سے باہر کی اسلامی دنیا سے ربط رکھتے تھے۔ ان کے نظریات سے ہم اتفاق کریں یا اختلاف، یہ ایک الگ موضوع ہے۔ مگر اس میں کیا شک ہے کہ وہ ندی نہیں، سمندر تھے۔ زوال کا اندازہ لگائیے آج ان کا جانشین اس اجلاس میں بیٹھا ہے جو خالص لسانی اور نسلی بنیاد پر بلایا گیا ہے۔ جس میں الیکشن اور ووٹوں اور شناختی کارڈوں کے ان پہلوئوں کو موضوع بنایا گیا جو مشکوک ہیں، دھندلے ہیں، صاف ستھرے اور اُجلے نہیں! میلے ہیں اور حد درجہ مبہم!
اب کون پوچھے کہ کیا وہ اس اجلاس میں اپنی جماعت کی نمائندگی کر رہے تھے؟ اگر ایسا ہے تو کیا ان کی جماعت نے پختون ہونے کی وجہ سے قیادت انہیں سونپی؟ اگر وہ ذاتی حیثیت میں شریک ہوئے تو کیا اس اجلاس کی کارگزاری وہ اپنی جماعت کے ساتھیوں سے اور شوریٰ سے شیئر کریں گے؟ کریں گے تو کیا ذاتی حیثیت سے کریں گے؟
آندھی کی طرح چھا جانے والے تیمور، گڑ گڑاتے، گھگھیاتے بہادر شاہ ظفر بن جاتے ہیں۔ قدر آور لیڈروں کی گدیاں پراپرٹی ڈیلروں کے قبضے میں آ جاتی ہیں۔ کہاں وہ لیڈر جو لِیڈ کرتے تھے۔ کہاں یہ ڈیلر جو ڈِیل کرتے ہیں۔ سمندر گم ہو گئے۔ اب چھوٹے چھوٹے نالے ہیں۔ چلّو بھر پانی پر مشتمل ندیاں۔ بقول ظفر اقبال ؎
جس آب رود کی اوقات چند قطرے ہو
تو اس کو پھاندنا کیا، اس میں پائوں دھرنا کیا
اپنا وجود ثابت کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرنے والے! خبروں میں زندہ رہنے کے لیے جتن کرنے والے! بس کوئی ایسی سرگرمی کہ ٹی وی پر جھلک آ جائے اور اخبار میں تصویر! عبرت کا مقام ہے!
مگر زوال کی اس سے بھی زیادہ عبرت ناک قسم وہ ہے جس میں عروج نصیب ہی نہیں ہوتا۔ پیدائش کے بعد، پہلا مرحلہ ہی زوال کا ہوتا ہے۔ گویا شباب آیا نہیں۔ کہولت آ گئی۔ عمران خان کی تحریکِ انصاف دیکھیے۔ اس زوال کی زندہ مثال ع
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
یا یوں کہیے کہ ؎
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا
جنرل پرویز مشرف کی باقیات جمع کرنے میں دوسری سیاسی جماعتوں کو زمانے لگ گئے مگر تحریک انصاف نے یہ سارے زمانے ایک جست میں طے کر لیے۔ جہلم کے ضمنی الیکشن کے لیے جن صاحب کو چنا وہ پہلے جنرل صاحب کی جماعت میں تھے۔ پھر پیپلزپارٹی میں آئے۔ پھر قاف لیگ کے گھاٹ پر اترے۔ اب تحریک انصاف نے اپنے دروازے ان پر کھول لیے۔ ایک سو ایک فیصد وہی رویہ جو دوسری پارٹیوں کا ہے۔ کہاں کا میرٹ، کہاں کے نوجوان!
کچھ دیہاتی ایک وکیل کے پاس گئے۔ مقدمے میں جان نہیں تھی۔ وکیل نے چالیس ہزار روپے مانگے۔ یہ متاثر نہ ہوئے۔ کسی بڑے وکیل کی تلاش میں اُٹھ گئے۔ دو لاکھ کا وکیل کیا۔ مقدمہ ہار گئے۔ پہلے وکیل نے طعنہ دیا کہ یہی کام میں چالیس ہزار روپے میں کر کے دے رہا تھا۔ جہلم کی یہ نشست تو آپ کے پاس پہلے بھی نہیں تھی۔ اب بھی نہیں ملی۔ تو یہ ''کامیابی‘‘ حاصل کرنے کے لیے سینے پر لوٹا نوازی کا تمغہ سجانا ضروری تھا؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں