صدراشرف غنی نے پاکستان کو دھمکی دی۔ اس پر بھارتی پریس نے شادیانے بجائے۔ بجانے ہی تھے۔ یہ ان کا حق تھا۔ مگر ان پاکستانیوں کو سانپ کیوں سونگھ گیا جو افغان مہاجرین کے لیے مرے جا رہے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کی دلچسپی پاکستان میںکم اور افغانستان میں زیادہ ہے؟
اس ماہ کی چودہ تاریخ کو صدر اشرف غنی نے بھارت کی یاترا کرنی ہے۔ اس سے پہلے پاکستان کو دھمکی دینا، بھارت یاترا کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری تھا۔ بھارت کی چاپلوسی کرنے کا اس سے بہتر اسلوب اور کیا ہوسکتا ہے! برطانیہ کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان و پاکستان اوون جینکن سے ملاقات کے دوران افغان صدر ممیائے۔ شکایت کی کہ پاکستان افغان میوہ جات بھارت نہیں لے جانے دیتا۔ اس چغل خور بچے کی طرح، جو اپنی کارستانیاں چھپاتا ہے اور دوسروں کی چغلیاں کھاتا پھرتا ہے۔
دفاع پاکستان کونسل کے رہنما، افغان مہاجرین پر فدا ہونے کے لیے تیار ہیں، مگر افغان صدر کی یاوہ گوئی کا نوٹس نہیں لیتے۔ افغان مہاجرین بھی سیانے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کی طرف داری کون کرے گا۔ دفاع پاکستان کے لیڈروں کے سامنے انہوں نے اپنے''معصوم‘‘ مطالبات دھرے۔
٭ جن افغانوں کے پاس رجسٹریشن کارڈ ہے انہیں ''قیام امن‘‘ تک پاکستان میں رہنے دیا جائے:
٭جن افغانوں کے پاس رجسٹریشن کارڈ ہے انہیں ''قیام امن‘‘ تک پاکستان میں رہنے دیا جائے۔
٭ جو رجسٹرڈ نہیں ہیں انہیں رجسٹریشن کارڈ ایشو کیے جائیں۔
٭ افغانستان آمدورفت کی اجازت دی جائے۔
٭ تاجروں کے مسائل پر خصوصی توجہ دی جائے۔
٭ تعلیمی اداروں میں داخلوں پر پابندی ہٹائی جائے۔
٭ ہسپتالوں میں علاج کی سہولت بحال کی جائے۔
٭ قیدیوں کو رہا کیا جائے۔
دفاع پاکستان کے رہنمائوں نے وفد کو یقین دلایا کہ وہ مہاجرین کے مسائل کو اجاگر کریں گے۔ فوراً کمیٹی بنائی گئی جو مہاجرین کے ''معصوم‘‘ مطالبات منوانے کے لیے حکام سے ملاقات کرے گی!
غور کیجیے ! ''قیام امن‘‘ تک مہاجرین پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں کئی ہزار سال سے امن قائم ہوا نہ ہوگا۔ پھر وہ یہاں تجارت بھی کرنا چاہتے ہیں۔ افغانستان بھی آنا جانا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں سے بھی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ دفاع پاکستان کے کسی رہنما نے یہ نہیں پوچھا کہ اگر افغانستان میں امن نہیں ہے تو وہاں آمد و رفت کیا معنی؟
کچھ مطالبات جو افغان مہاجرین اپنی فہرست میں شامل کرنا بھول گئے، ہم یاد دلائے دیتے ہیں:
٭ پاکستان کے تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں افغانوں کو ملازمتیں دی جائیں۔
٭ بالخصوص نادرا اور پاسپورٹ کے محکمے میں ملازمتوں کے لیے انہیں سپیشل کوٹا دیا جائے۔
٭ انہیں پاکستان کی مسلح افواج میں بھرتی کیا جائے۔
٭ انہیں ووٹ دینے کا اور انتخابات میں حصہ لینے کا حق دیا جائے۔
٭ وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں میں انہیںممبر نامزد کیا جائے۔
٭ وزیراعظم پاکستان کی کابینہ میں افغان مہاجرین کو وزارتیں دی جائیں۔
٭ سی ایس ایس کے امتحان میں افغانوں کو بیٹھنے کی اجازت دی جائے۔
٭ افغان مہاجرین کو پاکستان میں گورنر اور وزیر اعلیٰ کے عہدوں پر تعینات کیا جائے۔
٭ پاکستان کے تمام بازاروں اور مارکیٹوں سے مقامی تاجروں کو نکال دیا جائے اور ان کی جگہ افغان مہاجرین کو تجارت کرنے کا موقع دیا جائے۔
٭ اٹک، لاہور اور دیگر شہروں میں مقامی تاجروں کو قتل کیا گیا ہے، باقی مقامی تاجروں کو بھی قتل کرنے کی عام اجازت دی جائے۔
٭ افغانستان اور پاکستان کے درمیان بارڈر کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے تاکہ مہاجرین کسی روک ٹوک کے بغیر آ جاسکیں۔
امید ہے دفاع پاکستان کونسل کے رہنما ان مطالبات کو بھی فہرست میں شامل کرکے متعلقہ حکام تک پہنچا دیں گے۔
ویسے تعجب ہے کہ افواج پاکستان سے بے لوث اور والہانہ محبت کرنے والے ایک رہنما، دفاع پاکستان کونسل کے سٹیج پر اس مذہبی (و سیاسی ) پارٹی کے رہنما کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں جس کے ایک سابق لیڈر نے پاکستانی افواج کے شہیدوں کو شہید ماننے سے انکار کیا تھا۔ اس کی تردید پارٹی نے کی نہ ان ذات شریف کے جانشین نے۔ جانشین صاحب کے بھی کئی روپ ہیں۔ ایک طرف مذہبی جماعت کے لیڈر ہیں اور نیل کے ساحل سے لے کر خاک کاشغر تک امت مسلمہ کے غم خوار ہیں۔ دوسری طرف ایسے اجلاسوںمیں بھی جا پہنچتے ہیں جو خالص لسانی اور نسلی بنیادوں پر بلائے جاتے ہیں۔
خیر! یہ تو ایک جملہ مقرضہ تھا، بات یہ ہو رہی تھی کہ افغان مہاجرین کے غم میں خون کے آنسو بہانے والے اس وقت رخ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں جب افغانستان کے لیڈر پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہیں۔ کیوں؟ آخر کیوں؟ یہ حب الوطنی کی کون سی قسم ہے؟
صدر اشرف غنی کا واویلا بے معنی ہے اور صرف اور صرف چالاکی پر مبنی ہے۔ وہ ہر اس موقع پر شیر آیا شیر آیا کی چیخ و پکار کرتے ہیں جب واہگہ پار سے اشارہ ہوتا ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان جو دوطرفہ تجارتی معاہدہ موجود ہے، اس کی رو سے افغان اشیائے تجارت پاکستان کے راستے بھارت جا سکتی ہیں مگر بھارت سے اشیاء لانے کی اجازت نہیں۔پاکستان کے بھارت کے ساتھ معاملات حساس ہیں اسی لیے یہ شق رکھی گئی۔ برطانوی نمائندے کے سامنے صدراشرف غنی نے پوری بات نہیں بتائی اور یہ واویلا مچایا کہ پاکستان نے راستہ بند کر رکھا ہے۔ اب یہ تفصیلات کہ ٹرک اٹاری تک جائیں یا نہ جائیں، دونوں ملکوں نے بیٹھ کر طے کرنا ہے۔ اس کا برطانوی نمائندے سے کیا تعلق۔
وہ جو اقبال نے کہا تھا ؎
مقصد ہے ملوکیتِ انگریز کا کچھ اور
قصہ نہیں نارنج کا یا شہد و رطب کا
تو یہ افغان میوہ جات کی برآمد کا قصہ نہیں، کچھ اور ہی مسئلہ ہے۔ گزشتہ ماہ افغان کمانڈر انچیف بھارت گئے اور ''ضروریات‘‘ کی فہرست بھارتیوں کے حوالے کی۔ اس فہرست میں ہیلی کاپٹر شامل تھے اور روس کے بنے ہوئے جنگی ساز و سامان کے سپیئرپارٹس بھی۔ گزشتہ برس وزیراعظم مودی نے افغانستان کو اسلحہ نہ دینے کی پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے چار گن شپ جنگی ہیلی کاپٹر افغانستان کو دیئے۔ ہر سال بھارت آٹھ سو افغان فوجیوں کو تربیت دیتا ہے۔کیا دفاع پاکستان کونسل ان تمام حقائق سے بے خبر ہے؟
دوسرے لفظوں میں افغان مہاجرین یہ چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان میں رہیں، حقوق ان کے پاکستانیوں کے برابر ہوں، بلکہ ان سے بڑھ کر ہوں۔ دوسری طرف ان کی حکومت بھارت کے ساتھ جنگی معاہدے کرتی رہے۔ افغان فوجی بھارت جا کر تربیت حاصل کرتے رہیں۔
یہ پرانا وتیرہ ہے۔ جب بھی کسی افغان صدر نے بھارت کا دورہ کرنا ہوتا ہے، اس سے پہلے پاکستان کے خلاف زہر اگلتا ہے۔ مگر دوسروں سے کیا شکوہ! افغانستان کے جو وکیل پاکستان کے اندر موجود ہیں، ان سے کیسے نمٹیں گے؟