جب چادر پوشی بھی ستر پوشی نہ کر سکے

کون سی آزمائش ہے جس سے پاکستان کے پختون نہیںگزرے!
سینکڑوں سال پر محیط اُن حملہ آوروں کا تو ذکر ہی کیا جو درۂ خیبر سے آتے رہے اور پختونوں کے سکون کو درہم برہم کرتے رہے! صرف ماضی قریب کی تاریخ ہی پر نظر ڈال لیجیے! پاکستان کے کسی اور حصے نے اتنی قربانیاں نہیں دیں جتنی پختونوں نے دی ہیں۔ جتنے دھماکے صرف کے پی میں ہوئے، اتنے ملا کر کل ملک میں نہ ہوئے ہوں گے۔ مولوی فضل اللہ اور مسلم خان جیسی مصیبتیں نازل ہوئیں۔ گلے کاٹے گئے۔ سکول جلا کر خاکستر کیے گئے۔ اعتزاز نے جان کا نذرانہ پیش کیا۔ آرمی پبلک سکول کو خون میں نہلایا گیا۔
پھر مہاجرین آئے۔ انہوں نے مزدوری سے لے کر ٹرانسپورٹ تک ہر معاشی سرگرمی پر قبضہ کر لیا۔ رہائشی مکانوں کے کرائے آسمان سے باتیں کرنے لگے۔ خیمے اور اونٹ کی مثال اگر کہیں صادق آتی ہے تو پختونوں پر! مہاجر ابھی تک خیمے میں گھسے ہیں۔ نکلنے کا نام نہیں لیتے۔ عوام کی تکالیف کی پروا کیے بغیر، چند طالع آزما خود غرض سیاست دان، اِن مہاجرین کو یہیں رکھنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کے پی کے عوام کیا چاہتے ہیں!
اور اب ... ایک نئی آزمائش!
ٹوٹے گی کوئی تازہ بلا جانِ نہاں پر
لَو شمعِ حوادث کی ہے تھرائی ہوئی سی 
محمود اچکزئی پختونوں کے سر پر ایک تازہ افتاد بن کر ٹوٹے ہیں! زمانہ کہاں سے کہاں جا پہنچا۔ ظاہر شاہ کا عہد لد گیا۔ سردار داؤد پیشِ منظر سے ہٹ گئے‘ اچکزئی صاحب ابھی تک وہیں رہ رہے ہیں! خدا جنرل حمید گُل صاحب کی لغزشوں سے درگزر کرے اور ان کے ساتھ اچھا معاملہ کرے، وہ بھی گزرے وقت کے ساتھ چمٹ کر رہ گئے تھے۔ اسی کی دہائی سے باہر آنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اچکزئی کا معاملہ بھی ویسا ہی ہے۔ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد! ملک کن مسئلوں میں گھرا ہے، اُن کی بلا سے! دنیا کی بہترین خُوردبین سے اُن کے بیانات کا جائزہ لے لیجیے، کیا مجال جو ایک لفظ عوام کو درپیش مسائل کے بارے میں مل جائے۔ انہیں ان مسائل کا ادراک ہی نہیں! تعلیم، صحت، خواندگی، صنعت و حرفت، تجارت، زراعت! وہ اور ان کا خاندان سرکاری خزانے سے پرورش پا رہا ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ عوام کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو رہا ہے جو دامادوں کے ساتھ ہوتا ہے! فیوڈلزم اور سرداری نظام ایسے طالع آزماؤں کو خوب راس آتا ہے۔ جس دن پس ماندہ علاقوں میں انڈسٹری لگ گئی، جس دن عوام تعلیم یافتہ ہو کر شعور کی منزل پر پہنچ گئے، ان طالع آزماؤں کے سنہری دن خاتمے کو پہنچ جائیں گے۔
اب وہ پھول دیکھیے جو اچکزئی کے منہ سے جھڑے ہیں، ''ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان بننے کے بعد پختونوں کے تمام علاقے اکٹھے کرکے اسے صوبہ افغانیہ قرار دیا جاتا لیکن ایسا نہ کرکے پختونوں کو تقسیم کر دیا گیا‘‘۔
ان سے کوئی پوچھے کہ کیا بلوچستان اور کے پی کے صوبے الگ الگ پاکستان نے بنائے ہیں؟ اور پھر کیا اچکزئی کو معلوم ہے کہ پختون کراچی میں کثیر تعداد میں رہتے ہیں۔ راولپنڈی سے لے کر لاہور تک لاکھوں پختون آباد ہیں۔ اُن کے لیے اچکزئی کے اس قسم کے بیانات میں کون سی خیر خواہی چھپی ہے؟ اچکزئی صاحب کبھی پشاور یا کے پی کے کسی علاقے سے الیکشن لڑ کر دیکھ لیں۔ یہ جو پختونوں کی خود ساختہ ماماگیری انہوں نے اپنے اوپر سوار کر رکھی ہے اس کا ملمّع اُتر جائے گا!
اپنی اپنی قسمت ہوتی ہے۔ کچھ لوگ چادر اوڑھ کر بھی ستر پوشی نہیں کر سکتے۔ اندر کی برہنگی باہر آ کر دم لیتی ہے۔ ''پاکستان زندہ باد کا نعرہ کسی پر تھونپا نہیں جا سکتا‘‘۔ کوئی سیاق و سباق نہ موضوع! اس مسئلے پر کوئی اسمبلی میں بات ہی نہیں ہو رہی تھی۔ پیٹ میں پاکستان زندہ باد کے نعرے سے مروڑ اُٹھیں تو قے کے علاوہ منہ سے کیا نکلے گا! پاکستان زندہ باد کا نعرہ کوئی کسی پر تھونپ نہیں رہا۔ جو یہ نعرہ لگاتے ہیں، دل سے لگاتے ہیں۔ ہاں! یہ الگ بات کہ صوبہ افغانیہ جیسا بے سروپا نعرہ کسی پر مسلط نہیں کیا جا سکتا!
کیا مسلم لیگ نون والے اپنے اس چادر پوش اتحادی کو نفاق کے بیج بونے سے منع کریں گے؟ افسوس! مسلم لیگ نون اپنی حکومتی اور حد درجہ وقتی مصلحتوں پر قومی حمیت کو قربان کیے جا رہی ہے۔ کبھی اس کے اتحادی مودی کو سنا سنا کر اسمبلی میں کہتے ہیں کہ فاٹا کے حالات مقبوضہ کشمیر کی نسبت زیادہ خراب ہیں اور کبھی پاکستان زندہ باد کی توہین کرتے ہیں۔
جو جانتا ہے وہ جانتا ہے اور جو بدبخت نہیں جانتا وہ جان لے کہ ''پ‘‘ سے پختون ہے اور ''پ ‘‘ سے پاکستان ہے اور ''پ‘‘ ہی سے پروردگار ہے! پختون پاکستان سے ہیں اور پاکستان پختونوں سے ہے۔ پروردگار کا کرم ہے پختونوں پر جنہوں نے ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں ووٹ دے کر اُن نابیناؤں کے سینے پر مونگ دلے تھے جنہیں سورج کی روشنی نظر نہیں آرہی تھی اور جن کی ذریت آج بھی سینہ کوبی کرکے عبرت کا مرقع بنی ہوئی ہے!
رہی حقوق کی بات! تو اچکزئی صاحب جیسے سرداروں ہی نے تو عوام کے حقوق عضب کر رکھے ہیں۔ جب تک قبل مسیح کا یہ سرداری نظام بلوچستان کے عوام پر مسلط ہے وہ عہدِ جدید میں نہیں داخل ہو سکتے! اس نظام کے محافظ اچکزئی جیسے رجعت پسند سردار ہی تو ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ایک فیوڈل صحافیوں پر اس لیے برس پڑا کہ اس کے نام کے ساتھ سردار نہیں لگایا جا رہا تھا! اُتھلے پن کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ پاتال کا آخری سرا کبھی کبھی تحت الثریٰ سے بھی نیچے جا پڑتا ہے۔ حالت یہ ہے کہ بلوچستان میں سکولوں اور کالجوں کی عمارتیں ان سرداروں کے غلّے کے گودام بنی ہوئی ہیں۔ یہ نئی بندوق کو ٹیسٹ کرنے کے لیے گلی میں چلتے رہگیر کو نشانہ بناتے ہیں۔ سرکاری ملازموں کو مہینے کے آخر میں حلال کی تنخواہ قومی خزانے سے وصول کرنے سے پہلے ان سرداروں سے پرچی لینا پڑتی ہے۔ کوئی پڑھ لکھ جائے تو یہ اس کے جسم پر گُڑ کا شیرہ مَل کر چیونٹیوں بھرے غاروں میں پھینک دیتے ہیں۔ یہ اِس زمانے میں بھی اپنے محکوموں کو جلتے انگاروں پر چلاتے ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں کہ کون چور ہے حالانکہ دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ کون چور ہے!
پاکستان زندہ باد کے نعرے سے جن کی انتڑیوں میں تیزابی شعلے اُٹھتے ہیں‘ اُٹھتے رہیں، جن کے پیٹ میں بغض کے مروڑ پڑتے ہیں، پڑتے رہیں، جن کے سینوں میں آگ لگتی ہے، لگتی رہے، جن کے حلق میں منافقت کی ہڈی پھنستی ہے، پھنستی رہے۔ پختون ہمیشہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے رہیں گے۔ پاکستان زندہ باد! سرداری نظام مردہ باد!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں